مرزا محمد سعید

0
  • سبق : مرزا محمد سعید
  • مصنف : شاہد احمد دہلوی
  • ماخوذ : گنجینہ گوہر

تعارفِ سبق : سبق ”مرزا محمد سعید“ کے مصنف کا نام ”شاہد احمد دہلوی“ ہے۔ یہ سبق آپ کی کتاب ”گنجینہ گوہر“ سے ماخوذ کیا گیا ہے

تعارفِ مصنف :

شاہد احمد دہلوی دہلی میں پیدا ہوئے۔ وہ ڈپٹی نذیر احمد دہلوی کے پوتے اور مولوی بشیر الدین احمد کے فرزند تھے۔ ۱۹۲۵ء میں انھوں نے ایف سی کالج لاہور سے ایف ایس سی کرنے کے بعد میڈیکل کالج میں داخلہ لیا لیکن شدید بیمار ہو گئے چناں چہ طبی تعلیم جاری رکھنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ بعد ازاں دہلی سے انگریزی ادبیات میں بی اے آنرز کیا۔ ایم اے فارسی کا امتحان بھی پاس کیا۔

قیام پاکستان کے بعد شاہد احمد دہلوی کراچی منتقل ہو گئے اور تصنیف وتالیف کے ساتھ ساتھ انھوں نے انگریزی ادب سے تراجم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ پاکستان رائٹرز گلڈ کی تقلیل میں نمایاں خدمات انجام دیں۔۱۹۶۳ء میں انھیں مجموعی ادبی خدمات کی بنا پر تمغا برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ شاہد احمد دہلوی زبان و بیان پر کامل عبور رکھتے تھے۔ ان کی زبان آسان اور عام فہم ہے۔ وہ موسیقار بھی تھے لیکن اردو ادب ہی ان کی پہچان ہے۔

خلاصہ :

اس سبق میں مصنف مرزا محمد سعید کی خصوصیات بیان کررہے ہیں۔ وہ مرزا صاحب کا حلیہ یوں بیان کرتے ہیں : مرزا محمد سعید کا اکہراڈیل، اجلا رنگ ، کشادہ پیشانی ، گھنی بھنوؤں کے سائے میں بڑی بڑی روشن آنکھیں ،رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئیں، کترواں مونچھیں ، ہنستے تو سامنے کے دو چار دانت ٹوٹے ہوئے نظر آتے، مگر بُرے نہ لگتے تھے۔ داڑھی منڈھی ، دھان پان آدمی تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ مرزا محمد سعید بنا کسی شہرت داد اور صلے کی خواہش کے اپنی مرضی اور دل کی خوشی لکھتے تھے۔ مصنف بتاتے ہیں کہ لاہور کے اکثر پبلشرز نے مرزا صاحب سے کتابیں لکھوانا چاہیں اور بڑی بڑی رقمیں پیش کیں مگر مرزا صاحب نے انہیں ایک لفظ بھی لکھ کر نہیں دیا۔ مصنف ان کی کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ مرزا صاحب کی معرکتہ الآراء کتاب کا نام “مذہب اور باطنیت” ہے ۔ مرزا صاحب کا یہی ایک علمی کارنامہ ہے اور یہ کتاب ایک ایسا علمی کارنامہ ہے کہ اردو کی اگر سو عمدہ کتابیں چھانٹی جائیں تو ان میں مذہب اور باطنیت کو ضرور شریک کرنا پڑے گا۔

مصنف بتاتے ہیں کہ مرزا صاحب کی سرسید احمد خان اور منشی ذکا الله سے بھی عزیز داری تھی۔ مصنف مرزا صاحب کی تعلیم کے متعلق لکھتے ہیں کہ مرزا صاحب نے پہلے دو سال علی گڑھ کالج پڑھایا پھر اس کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی کے پروفیسر مقرر ہوئے اور وہاں تدریس کے فرائض انجام دیے۔

مرزا صاحب کا سب سے بڑا مشغلہ کتب بینی تھا۔ پینشن لینے کے بعد بھی ان کا واحد مشغلہ یہی تھا اور وہ کئی کئی گھنٹے نئی سے نئی کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے۔ ان کے کتب خانے میں ہر علم کی کتاب موجود تھی۔
مرزا صاحب کے دونوں ناولوں کے نام یہ ہیں :
1۔یاسمین ،
2۔ خواب ہستی۔

مصنف بتاتے ہیں کہ مصنف کے پروگرام دانش کدہ میں شرکت کی درخواست پر مرزا صاحب نے کہا : ” آدمی شہرت کے لیے کام کرتا ہے یا دولت کے لیے۔ مجھے نہ اُس کی ضرورت ہیں نہ اَس کی۔”

سوال ۱ : درج ذیل سوالات کے مختصر جواب تحریر کیجیے :

(الف) مرزا محمد سعید کس لیے لکھتے تھے؟

جواب : مرزا محمد سعید بنا کسی شہرت داد اور صلے کی خواہش کے اپنی مرضی اور دل کی خوشی لکھتے تھے۔

(ب) لاہور کے پبلشروں کے ساتھ مرزا صاحب کا رویہ کیسا تھا؟

جواب : لاہور کے اکثر پبلشرز نے مرزا صاحب سے کتابیں لکھوانا چاہیں اور بڑی بڑی رقمیں پیش کیں مگر مرزا صاحب نے انہیں ایک لفظ بھی لکھ کر نہیں دیا۔

(ج) مرزا صاحب کی معرکتہ الآرا کتاب کا نام اور مرتبہ بیان کیجیے۔

جواب : مرزا صاحب کی معرکتہ الآراء کتاب کا نام “مذہب اور باطنیت” ہے ۔ مرزا صاحب کا یہی ایک علمی کارنامہ ہے اور یہ کتاب ایک ایسا علمی کارنامہ ہے کہ اردو کی اگر سو عمدہ کتابیں چھانٹی جائیں تو ان میں مذہب اور باطنیت کو ضرور شریک کرنا پڑے گا۔

(د) مرزا صاحب کی کن دو قومی شخصیات سےعزیز داری تھی؟

جواب : مرزا صاحب کی سرسید احمد خان اور منشی ذکا الله سے عزیز داری تھی۔

(ہ) مرزا صاحب نے کس کالج میں تدریس کے فرائض انجام دیے؟

جواب : مرزا صاحب نے پہلے دو سال علی گڑھ کالج پڑھایا پھر اس کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی کے پروفیسر مقرر ہوئے اور وہاں تدریس کے فرائض انجام دیے۔

(و) مرزا صاحب کا سب سے بڑا مشغلہ کیا تھا؟

جواب : مرزا صاحب کا سب سے بڑا مشغلہ کتب بینی تھا۔ پینشن لینے کے بعد بھی ان کا واحد مشغلہ یہی تھا اور وہ کئی کئی گھنٹے نئی سے نئی کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے۔ ان کے کتب خانے میں ہر علم کی کتاب موجود تھی۔

(ز) مصنف کے پروگرام “دانش کدہ” میں شرکت کی درخواست پر مرزا صاحب نے کیا جواب دیا؟

جواب : مصنف کے پروگرام دانش کدہ میں شرکت کی درخواست پر مرزا صاحب نے کہا: ” آدمی شہرت کے لیے کام کرتا ہے یا دولت کے لیے۔ مجھے نہ اُس کی ضرورت ہیں نہ اَس کی۔”

(ح) مرزا محمد سعید کا حلیہ بیان کیجیے۔

جواب : مرزا محمد سعید کا اکہراڈیل، اجلا رنگ ، کشادہ پیشانی ، گھنی بھنوؤں کے سائے میں بڑی بڑی روشن آنکھیں ،رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئیں، کترواں مونچھیں ، ہنستے تو سامنے کے دو چار دانت ٹوٹے ہوئے نظر آتے، مگر بُرے نہ لگتے تھے۔ داڑھی منڈھی ، دھان پان آدمی تھے۔

(ط) مرزا صاحب کے دونوں ناولوں کے نام تحریر کریں۔

جواب : مرزا صاحب کے دونوں ناولوں کے نام یہ ہیں :
1۔یاسمین ،
2۔ خواب ہستی۔

سوال۲ : پطرس بخاری سے مرزا صاحب کے تعلق کو اپنے الفاظ میں بیان کیجیے۔

جواب : پطرس بخاری نے مرزا صاحب سے اکتساب علم کیا بعد میں پطرس خود انگریزی کے پروفیسر ہوگئے تھے مگر اپنی غیر معمولی قابلیت و ذہانت کے باوجود مرزا صاحب کی علمیت کے آگے اپنے آپ کو ہیچ سمجتے تھے۔ اور جتنا احترام وہ مرزا صاحب کا کرتے تھے اتنا وہ وائسراۓ ہند کا بھی نہیں کرتے تھے۔

سوال ۳ : “عالِم کی موت عاَلم کی موت ہوتی ہے” اس جملے کا مفہوم وضاحت کے ساتھ بیان کریں۔

جواب : اس جملے کا مفہوم یہ ہے کہ ایک عالِم یعنی علم رکھنے والا شخص جب اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو وہ موت صرف اس ایک عالِم کی موت نہیں ہوتی بلکہ اس پورے عاَلم یعنی دنیا کی موت ہوتی ہے کیونکہ اس دنیا میں ایک علم والے کی کمی ہوجاتی ہے۔

سوال ۴ : متن کی روشنی میں درست جواب پر نشان (درست)لگائیں۔

(الف) سبق “مرزا محمد سعید” کس ادیب کی تحریر ہے؟
٭نذیر احمد دہلوی
٭شاہد احمد دہلوی(✓)
٭اشرف صبوحی
٭مولوی عبدالحق

(ب) مرزا محمد سعید کی عزیز داری کس شخصیت سے تھی؟
٭سرسید احمد خاں (✓)
٭شیخ عبدالقادر
٭شاہد احمد دہلوی
٭مشتاق احمد زاہدی

(ج) مرزا محمد سعید کے بقول انسان کس لیے کام کرتا ہے؟
٭شہرت
٭دولت
٭عزت اور وقار
٭شہرت اور دولت(✓)

(د) مرزا محمد سعید نے گورنمنٹ کالج لاہور سے کون سی سند لی ؟
٭بی۔اے
٭ایم۔ اے تاریخ
٭ایم۔اے انگریزی ادب(✓)
٭ایم اے اردو ادب

(ہ) محمود نظامی کے مقالے کے بعد مرزا محمد سعید پر کس نے تنقید کی؟
٭ڈاکٹر تاثیر
٭پطرس بخاری
٭فیض احمد فیض(✓)
٭حمید احمد خاں

(و) پروگرام”دانش کدہ”میں کتنے دانشور بلائے جاتے تھے؟
٭چار(✓)
٭تین
٭دو
٭سات

(ز) مرزا صاحب پنشن کا بڑا حصہ صرف کر دیتے تھے:
٭جائیداد خریدنے پر
٭خیرات کرنے میں
٭کتابوں پر(✓)
٭کھانے پینے پر

سوال ۵ : درج ذیل الفاظ و تراکیب کی وضاحت جملوں میں استعمال کے ذریعے کیجیے۔

سانحہ ارتحال : دہلوی صاحب کو مرزا سعید کے سانحہ ارتحال کا ان کے سوئم کی خبر پڑھ کر پتا چلا۔
سناؤنئ : شیخ صاحب برسوں سے دبئی مقیم تھے اس لیے اس لیے ان کے گزرنے کی سناؤنی وطن تک نہ پہنچی۔
ایکاایکی : دشمن نے رات کے تیسرے پہر ایکاایکی دھاوا بول دیا۔
متمول : طاہر کا تعلق ایک متمول گھرانے سےہے اس لیے اس کی خواہشات بنا تاخیر کے پوری ہوجاتی ہیں۔
قرابت داری : آجکل نوکری کے حصول میں عمل اور تجربے سے زیادہ قرابت داری کی ضرورت ہے۔
شدہ شدہ : پاکستان میں کئیں ادارے سائنسی میدان میں شدہ شدہ ترقی پارہے ہیں۔
ہیچ سمجھنا : اپنی غیر معمولی قابلیت و ذہانت کے باوجودمرزا صاحب کی علمیت کے آگے اپنے آپ کو ہیچ سمجتے تھے۔
قلب مطمئنہ : کسی کام کو کرنے میں قلب مطمئنہ بہت ضروری ہے۔
کروفر : محلہ میں اس کے کروفر کے باعث کوئی اس سے بات نہ کرتا تھا۔
عرض مدعا : بے روزگار بیچارہ اپنی عرض مدعا لے کر وہاں حاضر ہوا۔
متبسم : وہ ہر حال میں متبسم نظر آتا ہے۔
رعشہ : دادا جی نے رعشہ زدہ ہاتھ سر پر رکھ کر تسلی دی۔

سوال ٦ : درج ذیل الفاظ پر اعراب لگا کر ، ان کا تلفظ واضح کیجیے:

ارتحال۔شعار۔متمول۔ساکت۔مباحثے۔متبسم۔قدری۔رعشہ۔

جواب :

اِرْتِحال
رَعْشَہ
قَدْرِی
مُتَبَسِّم
مُباحَثَے
ساکِت
مُتَمَوِّل
شِعار

سوال ۷ : سبق “مرزا محمد سعید” کا متن ذہن میں رکھ کر درست یا غلط پر نشان (درست) لگائیں :

  • (الف) مرزا محمد سعید کی موت کی خبر پڑھ کر دل دھک سے رہ گیا۔ درست(✓)/ غلط
  • (ب) مزرا صاحب پبلک پلیٹ فارم پر آنے سے گھبراتے نہیں تھے۔ درست /غلط(✓)
  • (ج) مرزا صاحب بڑے ٹھنڈے مزاج کے آدمی تھے۔درست(✓)/غلط
  • (د) مرزا صاحب جو کہ دیتے اس سے کبھی نہ پھرتے۔ (✓)درست/ غلط
  • (ہ) مرزا محمد سعید دل کے مریض تھے۔ درست (✓)/ غلط