ادیب کی عزت

0
  • سبق : ادیب کی عزت
  • مصنف : منشی پریم چند
  • ماخوذ از : آخری تحفہ

سوال 3 : پریم چند کے افسانے “ادیب کی عزت” کا خلاصہ لکھیے۔

تعارفِ سبق

سبق ”ادیب کی عزت“ کے مصنف کا نام ”منشی پریم چند“ ہے۔ یہ سبق کتاب ”آخری تحفہ“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تعارفِ مصنف

منشی پریم چند کا اصل نام دھنپت رائے تھا۔ آپ ضلع بنارس کے ایک گاؤں میں ۱۸۸۰ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد منشی عجائب لال ڈاک خانے میں کلرک تھے۔ پریم چند نے ایک مولوی صاحب سے فارسی اور اردو کی تعلیم حاصل کی، جبکہ انگریزی تعلیم بنارس میں حاصل کی۔ تعلیم سے فارغ ہوکر منشی پریم چند ایک پرائمری اسکول میں استاد ہو گئے۔ 1908ء میں ڈپٹی انسپکٹر مدارس ہوگئے۔ پریم چند کے ادبی زندگی کا آغاز 1901ء سے ہوا۔ آپ نے منشی دیا نرائن نگم کے رسالے ”زمانہ“ میں مضامین لکھے۔ پھر افسانہ نگاری اور ناول نگاری کی طرف توجہ دی۔ پریم چند نے غریبوں کے حالات و واقعات کو اپنے افسانوں اور ناولوں کا موضوع بنایا۔ ان کا شمار اردو کے اولین افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ”بازارِ حسن، نرملا، میدانِ عمل، پریم بتیسی، پریم پچیسی، پریم چالیسی اور سوزِ وطن“ ان کی مشہور تصانیف ہیں۔ انہوں نے کُل ۲۹ ناول لکھے ہیں۔ آپ کا انتقال ۱۹۳۶ء میں ہوا۔

خلاصہ

اس سبق میں مصنف ایک ادیب کی زندگی کا حال بیان کررہے ہیں۔ افسانے کا آغاز حضرت قمر کی کچن میں موجودگی سے ہوتا ہے جہاں وہ بغیر چینی اور دودھ کے چائے بنا کر پیتے ہیں۔ ایسی چائے پینے کی اصل وجہ تو غربت ہے لیکن وہ اپنی بیوی سکینہ کے سامنے اپنا بھرم قائم رکھنے کو بغیر دودھ کی چائے پینے کی افادیت بیان کرنے لگتے ہیں۔

باتوں ہی باتوں میں ان کی بیوی ان سے راجا صاحب کی دعوت قبول کرنے کی وجہ دریافت کرتی ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم عزت کے بھوکے ہیں اور جنہیں راجا صاحب دعوت دے وہ عام شخص تو نہیں ہوگا۔ وہ اپنی بیوی کے منع کرنے کے باوجود راجا صاحب کی محفل میں تشریف لے جانے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ قمر صاحب رئیس کے ہاں اپنی پھٹی پرانی چکن، سڑے ہوئے جوتے اور بےتکی سی ٹوپی پہن کر گئے۔

قمر صاحب رئیس کے ہاں جاتے وقت حافظ صمد کی دکان پر جا کھڑے ہوتے ہیں۔ وہاں سے آگے بڑھتے ہیں تو ایک کپڑے والے کی دکان پر جا رُکتے ہیں۔ دونوں جگہ ہی وہ راجا صاحب کے یہاں جانے کا ذکر کرتے ہیں کیونکہ انھیں یقین ہوتا ہے کہ راجا صاحب ان کی قدر کریں گے۔

جب قمر صاحب راجا صاحب کی محفل کے دروازے تک پہنچتے ہیں تو چوکیدار ان سے کارڈ دریافت کرتا ہے جس پر قمر صاحب برا مناتے ہوئے کہتے ہیں کہ، ”میرے پاس تو کوئی کارڈ نہیں، اگر آپ دوسروں سے کارڈ مانگتے تو میں بھی دکھا دیتا۔ ورنہ میں اسے اپنی توہین سمجھتا ہوں۔ آپ راجا صاحب سے کہہ دیجیے گا، قمر آیا تھا، لوٹ گیا۔“

چوکیدار انھیں منا کر اندر لے جاتا ہے جہاں راجاصاح ان کا سب سے تعارف کرواتے ہیں۔ وہاں ایک صاحب سے گفتگو کے دوران قمر صاحب انگریزی ادب کے بارے میں کہتے ہیں کہ ہمارے یہاں روحانیت کا ابھی اتنا فقدان نہیں ہوا کہ مغربی شاعروں سے بھیک مانگیں۔ میرا خیال ہے کہ کم از کم اس مضمون میں ہم اب بھی مغرب کو بہت کچھ سکھا سکتے ہیں۔

وہاں موجود کافی لوگوں سے راجا صاحب ان کا تعارف کرواتے ہیں لیکن کوئی بھی انھیں عزت نہیں دیتا ہے اس لیے قمر صاحب اپنی عزت افزائی محسوس کرتے ہوئے گھر کی جانب چل دیتے ہیں اور اپنی بیوی سے کہتے ہیں، میں نے آج سمجھ لیا، ادبی خدمت پوری عبادت ہے۔

قمر صاحب لکھنے پڑھنے کے کام کو عبادت اس لیے کہتے ہیں کیونکہ جس طرح ہم عبادت بےغرض ہو کر صرف اپنے لیے کرتے ہیں اور لوگوں سے کسی داد و تحسین کی امید نہیں رکھتے اسی طرح پڑھنے لکھنے کا کام بھی ہمیں اپنے لیے ہی کرنا چاہیے اور کسی سے داد کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔

سوال 1 : درست جواب پر (درست) کا نشان لگائیں۔

۱ : حضرت قمر نے چائے کا پیالا تیار کیا۔

٭بیس دفعہ ابالی ہوئی(✓)
٭تیس دفعہ ابالی ہوئی
٭چالیس دفعہ ابالی ہوئی
٭پچاس دفعہ ابالی ہوئی

۲ : حضرت قمر کی رائے میں چائے میں دودھ ملانا۔

٭ہمارے رئیسوں کی ایجاد ہے(✓)
٭ہمارے غریبوں کی ایجاد ہے
٭ہمارے حکم رانوں کی ایجاد ہے
٭ہماری عوام کی ایجاد ہے۔

۳ : حضرت قمر کی بیوی کا نام تھا۔

٭رضیہ
٭رفعیہ
٭نصیبہ
٭سکینہ (✓)

۴ : قمر صاحب کے پاس روپے کہاں سے آنے والے تھے؟

٭اخباروں سے(✓)
٭دکان داروں سے
٭رئیسوں سے
٭شاعروں سے

سوال 2 : مختصر جواب لکھیں۔

۱ : قمر صاحب نے اپنے ہنسنے کے بارے میں کیا کہا؟

جواب : قمر نے اپنے ہنسنے کے بارے میں اپنی بیوی سے کہا کہ ”مہینوں سے مجھے ہنسنے کی نوبت نہیں آئی۔“

۲ : قمر صاحب رئیس کے ہاں کیسے کپڑے پہن کر گئے؟

جواب : قمر صاحب رئیس کے ہاں اپنی پھٹی پرانی چکن، سڑے ہوئے جوتے اور بےتکی سی ٹوپی پہن کر گئے۔

۳ : قمر صاحب رئیس کے ہاں جاتے وقت کن لوگوں سے ملے؟

جواب : قمر صاحب رئیس کے ہاں جاتے وقت حافظ صمد کی دکان پر جا کھڑے ہوئے۔ وہاں سے آگے بڑھے تو ایک کپڑے والے کی دکان پر جا رُکے۔

۴ : قمر صاحب نے کارڈ مانگنے پر کیا کہا؟

جواب : قمر صاحب نے کارڈ مانگنے پر کہا کہ، ”میرے پاس تو کوئی کارڈ نہیں، اگر آپ دوسروں سے کارڈ مانگتے تو میں بھی دکھا دیتا۔ ورنہ میں اسے اپنی توہین سمجھتا ہوں۔ آپ راجا صاحب سے کہہ دیجیے گا، قمر آیا تھا، لوٹ گیا۔“

۵ : قمر صاحب نے انگریزی ادب کے بارے میں کیا کہا؟

جواب : قمر صاحب نے انگریزی ادب کے بارے میں کہا کہ ہمارے یہاں روحانیت کا ابھی اتنا فقدان نہیں ہوا کہ مغربی شاعروں سے بھیک مانگیں۔ میرا خیال ہے کہ کم از کم اس مضمون میں ہم اب بھی مغرب کو بہت کچھ سکھا سکتے ہیں۔

٦ : قمر صاحب نے لکھنے پڑھنے کے کام کو عبادت کیوں کہا؟

جواب : قمر صاحب نے لکھنے پڑھنے کے کام کو عبادت اس لیے کہا کیونکہ جس طرح ہم عبادت بےغرض ہو کر صرف اپنے لیے کرتے ہیں اور لوگوں سے کسی داد و تحسین کی امید نہیں رکھتے اسی طرح پڑھنے لکھنے کا کام بھی ہمیں اپنے لیے ہی کرنا چاہیے اور کسی سے داد کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔

۷ : افسانہ نگار نے اس افسانے کا نام “ادیب کی عزت” کیوں رکھا؟

جواب : افسانہ نگار نے اس افسانے کا نام “ادیب کی عزت” اس لیے رکھا کیونکہ اس افسانے میں ادیب کی زندگی اور اس کی عزت کے متعلق کہای بیان کی گئی ہے۔