آزادی کی راہ میں

0
  • سبق : آزادی کی راہ میں
  • مصنف : خدیجہ مستور
  • ماخوذ : آنگن

تعارفِ سبق

سبق ”آزادی کی راہ میں“ کی مصنفہ کا نام ”خدیجہ مستور“ ہے۔ یہ سبق ناول ” آنگن “ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تعارفِ مصنفہ

اس سبق کی مصنفہ ، ممتاز، ترقی پسند افسانہ نگار و ناول نگار خدیجہ مستور ہیں۔ خدیجہ کے افسانوں کے پانچ مجموعے سامنے آئے، جن میں ”بوچھاڑ اور چندر روز اور“ شامل ہیں۔ 1962ء میں خدیجہ مستور کو اپنے شہرہ آفاق ناول آنگن پر آدمی جی ایوارڈ ملا۔ ان کا یہ ناول کردار نگاری، منظر نگاری اور اسلوب کے لحاظ سے منفرد ناول ہے۔ جب کہ ان کے افسانوں کے آخری مجموعے “ٹھنڈا میٹھا پانی” پر انہیں ہجرہ ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

سبق کا خلاصہ

اس سبق میں ایک لڑکی کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ لڑکی کا باپ انگریزوں سے اصل میں نفرت کرتا تھا، لیکن اپنی نوکری کی خاطر ان کی خوشامد میں لگا ہوا تھا۔ ایک دن انگریزوں نے آفس کا دورہ کرنا تھا اور اس لیے اس لڑکی کے باپ نے ان کی دعوت بھی کی تھی، جس کی تیاری میں وہ لڑکی اور اس کی ماں مگن تھیں۔

لیکن انگریز افسر نے ان کی محنت اور مہمان نوازی کا یہ صلہ دیا تھا کہ اس لڑکی کے باپ کو جیل میں بند کروادیا تھا۔ چپراسی نے آکر یہ خبر اس لڑکی کو دی اور اس سے یہی علم ہوتا ہے کہ اس وقت کے عام مسلمان انگریزوں سے نفرت کرتے تھے اور انھیں چھوٹی چھوٹی باتوں پر سزا دی جاتی تھی اور وہ کسی سے انصاب بھی طلب نہیں کرسکتے تھے۔

یہ خبر سنتے ہی لڑکی کی ماں نے اپنے بھائی کو، جب کہ لڑکی نے اپنے چچا کو تار بھجوا دیا تھا۔ لڑکی کے ماموں نے تو ان کی سرپرستی سے صاف انکار کردیا تھا۔ لڑکی کے ماموں جان کا رویہ مسلمانوں کے اس گروہ کی نمائندگی کرتا ہے جو اپنے ساتھیوں کو مصیبت میں دیکھ کر ان سے دور ہوجاتے ہیں۔ جب کہ ان کے چچا ان سب کو اسی دن اپنے ساتھ لے گئے تھے اور لڑکی اپنی باپ کے حال سے بے خبر راتوں کو اٹھ اٹھ کر اسے یاد کرتی تھی۔

سوال ۱ : انگریزوں کے سلسلے میں لڑکی کے باپ کا اصل رویہ کیا تھا؟

جواب : لڑکی کا باپ انگریزوں سے اصل میں نفرت کرتا تھا، لیکن اپنی نوکری کی خاطر ان کی خوشامد میں لگا ہوا تھا۔

سوال ۲ : انگریز افسر نے ان کی محنت اور مہمان نوازی کا کیا صلہ دیا؟

جواب : انگریز افسر نے ان کی محنت اور مہمان نوازی کا یہ صلہ دیا تھا کہ اس لڑکی کے باپ کو جیل میں بند کروادیا تھا۔

سوال ۳ : چپراسی نے جو کچھ بتایا اس سے اس دور کی عام مسلمانوں کے کن خیالات اور جذبات کا پتا چلتا ہے؟

جواب : چپراسی نے جو کچھ بتایا اس سے یہی علم ہوتا ہے کہ اس وقت کے عام مسلمان انگریزوں سے نفرت کرتے تھے اور انھیں چھوٹی چھوٹی باتوں پر سزا دی جاتی تھی اور وہ کسی سے انصاب بھی طلب نہیں کرسکتے تھے۔

سوال ۴ : لڑکی کے ماموں جان کا رویہ مسلمانوں کے کس گروہ کی نمائندگی کرتا ہے؟

جواب : لڑکی کے ماموں جان کا رویہ مسلمانوں کے اس گروہ کی نمائندگی کرتا ہے جو اپنے ساتھیوں کو مصیبت میں دیکھ کر ان سے دور ہوجاتے ہیں۔

سوال ۵ : مندرجہ ذیل کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے :

الفاظ جملے
سٹی گم ہونا اپنے والد کے ہاتھ میں اپنی رپورٹ کارڈ دیکھ کر علی کی سٹی گم ہوگئی۔
تن بدن میں آگ لگانا احمد کا بدتمیزی کرنا اس ک استاد کے تن بدن میں آگ لگا گیا۔
زبانی جمع خرچ اسے تو عادت ہے زبانی جمع خرچ کرنے کی۔
اپنے حال میں مست ہونا انسان اپنے حال میں مست رہ کر خوش رہ سکتا ہے۔
چاروں طرف اندھیرا چھا جانا اتنی بڑی دکھ کی خبر سن کر اس کے چاروں طرف اندھیرا چھا گیا۔
دیوار بن جانا معاشرہ ہر انسان کی خواہشات کے راستے میں دیوار بن جاتا ہے۔
آنکھوں میں خون چڑھ جانا اپنے بھائی کی حالت دیکھ کر اس کی آنکھوں میں خون چڑھ گیا۔

سوال ٦ : “آزادی بڑی نعمت ہے” اس عنوان سے ایک مضمون لکھیے۔

آزادی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ ہمیں آزادی ہمارے بزرگوں کی جدوجہد کے بعد نصیب ہوئی ہے۔ ہمارے وطن پاکستان کو حاصل کرنے کے لیے شاہ ولی اللہ نے اپنے زمانے میں تحریک شروع کی، اس کے بعد سر سید احمد خان، محسن الملک ، شبلی نعمانی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، علامہ اقبال، قائداعظم وغیرہ نے انتھک محنت کی اور بہت سی قربانیاں دیں اور کئی صدیوں کی محنت کے بعد ہمیں پاکستان کی سرزمین ملی۔

آزادی کھلی فضا میں سانس لینے کا نام ہے۔ اگر ہمارے پاس اس وقت آزادی نہ ہوتی تو ہم کوئی کام بھی نہیں کرسکتے تھے۔ نہ ہم اپنے دین پر عمل کرپاتے اور نہ ہی عزت والی زندگی گزار سکتے۔ نہ ہمیں تعلیم حاصل کرنے کا حق ملتا اور نہ ہی کوئی اچھی نوکری ملتی۔ غرض یہ کہ آزادی کے بغیر ترقی کا تصور تقریباً ناممکن نظر آتا ہے۔

ہمارے بزرگ جو انگریزوں کی غلامی کرتے رہے وہ آزادی کا مطلب بہت اچھے طریقے سے سمجھتے تھے اس لیے انھوں نے بہت سے نقصانات اٹھانے کے باوجود اپنی آزادی کی مانگ کو نہیں بدلا اور آزاد وطن حاصل کر کے ہی ٹہرے۔ انھوں نے نہ صرف جانی و مالی نقصان کا سامنا کیا بلکہ انھوں نے اپنی عزتیں بھی گنوائی، لیکن پھر بھی وہ ڈٹے رہے اور اپنا مطالبہ منوا چھوڑا۔

لیکن ہمارا معاشرہ بظاہر تو انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوچکا ہے لیکن ہمارا باطن آج بھی انگریزوں کا غلام ہے۔ ان کی طرح اٹھنا ، بیٹھنا ، کھانا ، پینا ، پہننا ہم اپنی شان سمجھتے ہیں۔ جب کہ پاکستان حاصل کرنے کا مقصد اپنی تہذیب و تمدن پر عمل کرنا تھا لیکن افسوس کہ پاکستان حاصل کرنے کے بعد ہم عقلی طور پر انگریزوں کے غلام ہی رہے ہیں۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں مکمل آزادی عطا کریں اور ہمارے ملک کو سلامت رکھیں۔