پہلی فتح

0

تعارفِ سبق : سبق ”پہلی فتح“ کے مصنف کا نام ”نسیم حجازی“ ہے۔ یہ سبق آپ کی کتاب ”محمد بن قاسم“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

خلاصہ :

اس سبق میں مصنف بتاتے ہیں کہ دمشق کے لوگ فجر کی نماز کے بعد محمد بن قاسم کی قیادت میں ایک لشکر کو روانہ کر رہے تھے۔ دمشق سے بصرہ تک ہر گلی کوچے میں ناہید کے خط کی پکار پہنچ چکی تھی۔ مائیں اپنے بیٹوں ، بہنیں اپنے بھائیوں اور بیویاں اپنے اپنے شوہروں کو نوجوان سالار کے ساتھ روانہ کر رہی تھیں۔ زبیدہ اور محمد بن قاسم کی ماں عورتوں کو مجاہدیں کی مدد کے لیے جذبہ پیدا کر رہی تھیں۔ جس کے باعث بیت المال مجاہدین کے اسلحہ کے لیے سونے چاندی سے بھر گیا۔ محمد بن قاسم نے جس دوران بصرہ میں پڑاؤ کیا تھا اسی دوران اطلاع ملی کہ مکران کے گورنر نے بیس لوگوں کے وفد میں سے 18 کو قتل کر دیا ہے۔ بصرہ مشتعل ہو گیا لوگوں نے انتقام کے لیے علم بلند کر دیا۔

محمد بن قاسم کی فوج بصرہ میں خبر ملنے کے بعد دوگنا ہو گئی تھی۔ مگر سامنے مکران کے گوارنر کی معاونت کے لیے سندھی گوانر نے حمایت کر لی۔ مخالف کی فوج کی تعداد بیس ہزار کے قریب تھی جو چھاپہ مار کاروائیوں سے مسلمانوں کی فوج کو آگے بڑھنے نہ دے رہی تھی۔

یہاں محمد بن قاسم نے پانچ سو سپاہی لیے اور باقی فوج کو پیش قدمی کرنے کا حکم دیا جو کہ ایک دلیر انہ فیصلہ تھا اس دوران کچھ بزرگان نے محمد بن قاسم کو یہ کرنے سے روکا مگر محمد بن قاسم کے جذبہ جہاد نے انھیں قائل کر دیا۔ اس موقع پر محمد بن قاسم نے جنگ قادسیہ کی عظیم فتح کو یاد کیا اور مسلمانوں کی ڈھارس بندھائی۔اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی غیر موجودگی میں قادسیہ کی فتح کی یاد کو تازہ کیا۔
محمد بن قاسم کے احکامات سن کر زبیر نے ساتھ جانے کی خواہش کی مگر محمد بن قسم نے جواب دیا : “میں اس قلعہ کو فتح کرنے کے لیے دو دماغوں کی ضرورت نہیں محسوس نہیں کرتا۔” محمد بن ہارون کو لشکر کی کمان سونپ کر زبیر کو اس کا نائب مقرر کر دیا۔

سوال 1 : مندرجہ ذیل کے مختصر جواب لکھیے :

الف۔ کس خبر نے بصرہ کے لوگوں کو زیادہ مشتعل کیا؟

جواب : بصرہ میں جب اٹھارہ لوگوں کے قتل کی خبر پہنچی تو سارے لوگ مشتعل ہو گئے۔

ب۔ راستے کا قلعہ پہلے فتح کرنے میں محمد بن قاسم نے کیا مصلحت محسوس کی؟

جواب : راستے کے قلعہ پہلے فتح کرنے میں محمد بن قسم کی مصلحت یہ تھی کہ اس سے دشمن پر رعب و دبدبہ بیٹھے گا اور ان کے حوصلے پست ہو جائیں گے اور جنگ میں آسانی ہوگی۔

ج۔ قادسیہ کی جنگ میں زبردست فوج کے باوجود ایرانیوں کو کیوں شکست ہوئی؟

جواب : قادسیہ کی جنگ میں زبردست فوج کے باوجود ایرانیوں کو شکست اس لیے ہوئی کہ انھوں نے غیر اللہ سے اپنی توقعات منسوب کر رکھی تھیں انھوں نے اللہ پر نہیں مگر رستم پر بھروسا کیا جس کی موت کے بعد ان کے حوصلے پست ہو گئے۔

د۔ مسلمانوں اور غیر مسلموں کی جنگ کا فرق ہے؟

جواب : مسلمانوں اور غیر مسلموں کی جنگ میں بنیادی فرق یہی ہے کہ مسلمان خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے جہاد کرتے ہیں اور غیر مسلم اپنے سلاطینوں اور شاہوں کی خوشنودی کے لیے جنگ کرتے ہیں۔

سوال 2 : اپنے استاد کی رہنمائی سے مندرجہ ذیل فقروں کی وضاحت کیجیے :

الف۔ “غیور قوم کی ایک بے کس بیٹی کی فریاد بصرے اور کوفے کے ہر گھر میں پہنچ چکی تھی۔”

جواب : ناہید ایک مسلمان لڑکی تھی جس نے بصرے اور کوفے میں اپنے مسلمان بھائیوں سے مدد طلب کی تھی۔ راجا داہر کی قید میں سے لڑکی نے ایک خط حجاج بن یوسف کو لکھا جس میں اس نے مسلمانوں کو مدد کےلیے طلب کیا تھا۔

ب۔ “خدا مجھے قوم کے لیے رستم نہ بنائے بلکہ مجھے مثنیٰ رضی بنے کی توفیق دے۔”

جواب: محمد بن قاسم ایک عظیم جنگجو تھے انھوں نے مہم پر جانے سے قبل لوگوں کی چہ مگوئیاں سن رکھیں تھیں۔ لوگوں کے ان خدشات کے پیش نظر انھوں نے یہ دعا مانگی تھی۔ خدشات انھیں ہوتے ہیں جو سلاطینوں کے لیے لڑنے جا رہے ہوں جو حق تعالیٰ کی راہ میں لڑنے جائے اسے فتح کی یقین دہانی ہوتی ہے۔

سوال 3 : اب آپ ناول “محمد بن قاسم” کا مطالعہ کیجیے اور ناول کے ہیرومحمد بن قاسم کے کردار کی خوبیاں بیان کیجیے۔

جواب : محمد بن قاسم ایک خوبر نواجوان تھا جس کا تعلق حجاج بن یوسف کے دور سے ہے۔ محمد بن قاسم ایک جنگجو تھا جسے ہم فاتح سندھ بھی کہتے ہیں۔ حجاج بن یوسف ایک غیرت مند مسلمان کمانڈر تھا جس نے ایک مسلمان لڑکی کی استدعا پر سندھ کی جانب لشکر کشی کی۔ محمد بن قاسم کا کردار مسلمان تاریخ میں بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ وہ 17 سال کا نوجوان جس نے سندھ میں بت پرست راجہ راہر کو شکست دے دوچار کیا اور مسلمان قیدیوں کو رہائی دی۔ محمد بن قاسم نہ صرف دلیر اور جرآت مند تھا بلکہ اس کی مصلحت اور معاملہ فہمی بھی غیر معمولی تھی۔ محمد بن قاسم کی ذہانت سے سندھ کا محاذ مسلمانوں کے لیے آسان ہوا۔ محمد بن قاسم نے حق تعالیٰ کی راہ میں اس عظیم جہاد کی سپہ سالاری کی اور مسلمانوں کو فتح سے ہمکنار کیا۔

سوال 4 : درج ذیل مصادر کو امدادی افعال کے طور پر اپنے جملوں میں استعمال کیجیے:

دینا علی کو معمول کے مطابق چار بجے پرندوں کو کھانا دینا تھا۔
لینا اسکول سے چھٹی کرنے کے بعد حماد کو احمد سے کام لینا تھا۔
آنا آج اسے میرے گھر آنا تھا۔
جانا امجد کو گھومنے جانا ہے۔
پڑنا وہ کسی مسئلے میں نہیں پڑنا چاہتی ہے۔
چکنا گلو کی وجہ سے صفحہ چکنا ہوگیا تھا۔
رکھنا علیشہ بلی اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے۔
اٹھنا وہ صبح جلدی اٹھنا چاہتا ہے۔

سوال 5 : درج ذیل حروف کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے :

  • ابا حضور سندھ سے نہ صرف آم لائے بلکہ ملتان سے سوہن حلوہ بھی لائے۔
  • جوں جوں بچے جوان ہوتے ہوں توں توں والدین بوڑھے ہوتے ہیں۔
  • جیسے جیسے کتابیں پڑھتے جائیں ویسے ویسے دماغ کی وسعتیں کھلتی جاتی ہیں۔
  • چونکہ ہم دیر سے سوئے اس لیے ہمیں کھانا کھانے میں تاخیر ہوگئی۔