Advertisement
Advertisement
  • کتاب” ابتدائی اردو” برائے چوتھی جماعت
  • سبق نمبر01: نظم
  • شاعر کا نام: اسماعیل میرٹھی
  • نظم کا نام: صبح کی آمد

نظم صبح کی آمد کی تشریح

خبر دن کے آنے کی میں لا رہی ہوں
اجالا زمانہ میں پھیلا رہی ہوں
بہار اپنی مشرق سے دکھلا رہی ہوں
پکارے گلے صاف چلا رہی ہوں
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں

یہ اشعار اسماعیل میرٹھی کی نظم “صبح کی آمد” سے کیے گئے ہیں۔ شاعر ان اشعار میں صبح کی آمد کی نوید سناتے ہوئے کہتا ہے کہ صبح کی آمد دراصل دن کی آنے کی نوید ہے کہ ایک نیا دن طلوع ہو چکا ہے۔یہ صبح سارے زمانے میں اجالا پھیلا کر روشنی کر رہی ہے۔ صبح کی یہ بہار مشرق کی جانب سے اپنی جھلک دکھاتی ہے۔یعنی مشرق سے سورج کے طلوع ہونے کے ساتھ ہی اس صبح کی آمد بھی ہو رہی ہے۔یہ خوبصورت صبح پکار پکار کہ صاف گلے سے چکاتے ہوئے ہمیں کہتی ہے کہ آ سونے والوں جاگ جاؤ کہ میں آ چکی ہوں۔

Advertisement
اذاں پر اذاں مرغ دینے لگا
خوشی سے ہر اک جانور بولتا ہے
درختوں کے اوپر عجب چہچہا ہے
سہانا ہے وقت اور ٹھنڈی ہوا ہے
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ جیسے ہی صبح نمودار ہوئی مرغ نے صبح کی آمد کا اعلان کرتے ہوئے اذان پہ اذان دینا شروع کر دی یعنی پکار پکار کے اٹھانے لگا۔ ہر جانور صبح کے آنے کی خوشی میں بول۔رہا تھا۔ پرندے اپنی خوبصورت آوازوں میں چہچہا رہے تھے۔ صبح کا وقت ایک عجب خوبصورت سہانا احساس لیے ہوئے ہوتا ہے اور ہر طرف سے ٹھنڈی ہوا کہ جھونکے آ آکے سونگ والوں کو جگاتے ہیں اور صبح یہ اعلان کرتی ہے کہ میں آرہی ہوں۔

یہ چڑیاں جو پیڑوں پہ ہیں غل مچاتی
ادھر سے ادھر اڑ کے ہیں آتی جاتی
دموں کو ہلاتی پروں کو پھلاتی
مری آمد آمد کے ہیں گیت گاتی
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ پیڑوں پہ جو چڑیاں شور مچا رہی ہیں اور کبھی ادھر اور کبھی اُدھر اڑ کہ جاتی ہیں۔ یہ چڑیاں اپنی دموں کو ہلا اور پروں کو پھڑپھڑا کر میری(صبح کی آمد) کا اعلان کرتی ہیں۔ اور صبح کی آمد کی خوشی کے گیت گاتی ہیں۔ صبح سب سونے والوں کو اپنی آمد کا بتاتے ہوئے کہتی ہے کہ سونے والوں اٹھو میں آ رہی ہوں۔

Advertisement
جو طوطے نے باغوں میں ٹیں ٹیں مچائی
تو بلبل بھی گلشن میں ہے چہچہائی
اور اونچی منڈیروں پہ شاما بھی گائی
میں سو سو طرح دے رہی ہوں دہائی
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ باغوں میں جو طوطے ٹیں ٹیں کر کے دھومیں مچا رہے ہیں اور بلبل بھی خوشی سے باغ میں چہچہاتی پھر رہی ہے۔ یہی نہیں اونچی منڈیروں پہ بیٹھی ہوئی کالی چڑیا بھی گانے لگ گئی ہے۔ صبح کہتی ہے کہ اب میں نے اپنی آمد کا سو طریقوں سے اعلان کر دیا ہے تو اب سونے والے اٹھو کیوں کہ میں یہاں آ رہی ہوں۔

Advertisement
ہوئی مجھ سے رونق پہاڑ اور بن میں
ہر ایک ملک میں دیس میں ہر وطن میں
کھلاتی ہوئی پھول آئی چمن میں
بجھاتی چلی شمع کو انجمن میں
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ صبح یہ کہتی ہے کہ میرے آنے سے پہاڑوں اور جنگلوں میں رونق کا سماں ہو گیا۔ ہر ملک اور وطن میں ،میں باغوں میں پھولوں کو کھلاتی ہوئی یہاں تک پہنچی ہوں۔جیسے ہی میری آمد کا وقت ہوا تو نجانے کتنی محفلوں میں جلتی ہوئی شمعیں بجائی گئی کیوں کہ صبح کی آمد ہو چکی تھی۔

سوچیے بتائیے اور لکھیے۔

” بہا ر اپنی مشرق سے دکھلا رہی ہوں‘ سے کیا مراد ہے؟

مشرق سے بہار دکھلانے سے مراد ہے کہ مشرق کی جانب سے بو پھوٹنا صبح کی آمد کا اعلان ہے کیونکہ سورج مشرق کی جانب سے طلوع ہوتا ہے۔

Advertisement

درختوں کے اوپر عجب چہچہاہے کا کیا مطلب ہے؟

درختوں پہ عجب چہچہا سے مراد ہے کہ درختوں پہ پرندوں نے شور مچا رکھا ہے۔

دن کے آنے کی خبر لانے کا کیا مطلب ہے؟

صبح کا آمد کا مطلب ہوتا ہے کہ دن کا باقاعدہ آغاز ہو چکا ہے۔

آخری بند کا مفہوم اپنے الفاظ میں لکھیے۔

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ صبح یہ کہتی ہے کہ میرے آنے سے پہاڑوں اور جنگلوں میں رونق کا سماں ہو گیا۔ ہر ملک اور وطن میں ،میں باغوں میں پھولوں کو کھلاتی ہوئی یہاں تک پہنچی ہوں۔جیسے ہی میری آمد کا وقت ہوا تو نجانے کتنی محفلوں میں جلتی ہوئی شمعیں بجائی گئی کیوں کہ صبح کی آمد ہو چکی تھی۔

دیے گئے مصرعوں کو صحیح لفظ سے مکمل کیجیے:

  • جو طوطے نے باغوں میں ٹیں ٹیں مچائی
  • تو بلبل بھی گلشن میں ہے چہچہائی
  • اور اونچی منڈیروں پہ شاما بھی گائی
  • میں سو سو طرح دے رہی ہوں دہائی
  • ہوئی مجھ سے رونق پہاڑ اور بن میں
  • ہر ایک ملک میں دیس میں ہر وطن میں
  • کھلاتی ہوئی پھول آئی چمن میں
  • بجھاتی چلی شمع کو انجمن میں

ان لفظوں سے جملے بنایئے اور خالی جگہوں میں لکھیے :

اذانمؤذن نے اذان دی۔
گیتچڑیا سہانا گیت گاتی ہے۔
شمعمحفل میں شمع روشن تھی۔
چمنبہار میں چمن کی رونق عروج پہ تھی۔
وطنمجھے میرا وطن بہت عزیز ہے۔

نیچے ہر لفظ کے سامنے تین تین لفظ دیے گئے ہیں۔ صحیح متضاد کو خالی جگہ میں لکھیے :

اجالا: چمکدار ،اندھیرا،روشنی =اندھیرا
خوشی: مصیبت ،آرام،غم = غم
اونچی:اوپری، نیچی ، گہرائی =نیچی
بجھاتی:جلاتی، اٹھاتی ، سجاتی =جلاتی
اوپر: برابر ،درمیان، نیچے =نیچے

الف اور ب کے کالم میں بے ترتیب مصرعے لکھے ہوئے ہیں ان کو صحیح ترتیب میں لکھ کر شعر مکمل کیجیے۔

الف:
اذاں پر اذاں مرغ دینے لگا
درختوں کے اوپر عجب چہچہا ہے
یہ چڑیاں جو پیڑوں پہ ہیں غل مچاتی
دموں کو ہلاتی پروں کو پھلاتی
ب:
مری آمد آمد کے ہیں گیت گاتی
خوشی سے ہر اک جانور بولتا ہے
سہانا ہے وقت اور ٹھنڈی ہوا ہے
ادھر سے ادھر اڑ کے ہیں آتی جاتی

Advertisement

ج:

اذاں پر اذاں مرغ دینے لگا
خوشی سے ہر اک جانور بولتا ہے
درختوں کے اوپر عجب چہچہا ہے
سہانا ہے وقت اور ٹھنڈی ہوا ہے
یہ چڑیاں جو پیڑوں پہ ہیں غل مچاتی
ادھر سے ادھر اڑ کے ہیں آتی جاتی
دموں کو ہلاتی پروں کو پھلاتی
مری آمد آمد کے ہیں گیت گاتی

نیچے دی گئی تصویروں کو پہچانیے اور ان کے نام لکھیے۔

  • طوطا ، مینا
  • بلبل ، درخت
  • شمع ، پہاڑ

بلند آواز سے پڑھیے اور خوش خط لکھیے:

رونق، عجب ، مرغ ، مشرق ، شمع۔

Advertisement

Advertisement