نظم نونہالو! کی تشریح، سوالات و جوابات

0
  • کتاب” ابتدائی اردو” برائے پانچویں جماعت
  • سبق نمبر10: نظم
  • نظم کا نام: نو نہالو!
  • شاعر کا نام: شاد عرفی

نظم نو نہالو! کی تشریح

وطن گلشن ہے ، رنگیں پھول ہو تم
سفینہ ہے وطن ، مستول ہو تم
بہت پیارے ہو، مقبول ہو تم
تمھیں سے رونق قوم و وطن ہے

یہ اشعار شاد عرفی کی نظن نو نہالو سے لیے گئے ہیں۔ ان اشعار میں شاعر اپنے وطن کے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ وطن ہمارے لیے ایک باغ کی مانند ہے۔ باغ کی خوبصورتی کا اہم جز اس کے پھول ہوتے ہیں۔ یہاں اس وطن کے پھول اس کے نوجوان ہیں۔ یہ وطن تمھارے لیے ایک ایسی کشتی کی مانند ہے جو بادبان کے بنا ہواؤں کا سامنا کرنے سے قاصر ہے اور چل نہیں سکتی ہے۔ اس لیے تم اس وطن کے لیے بادبان کی حیثیت رکھتے ہو۔ تم اس وطن کے لیے بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہو اور بہت مقبول بھی ہو۔ تمھارے دم سے اس قوم اور وطن میں رونق ہے۔

وطن والوں کو اپنا بھائی جانو
محبت میں تعصب کی نہ مانو
رہو مل جل کہ جھگڑے کی نہ ٹھانو
چمن پھولوں کے جھمگٹ تک چمن ہے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اے نوجوانوں اپنے ہم وطن ساتھیوں کو ہمیشہ اپنا بھائی سمجھو اور کبھی بھی محبت کے رشتے میں تعصب یعنی تنگ نظری کو مت آنے دو۔ تم لوگ ہمیشہ مل جل کر باہم محبت سے رہو اور کبھی بھی جھگڑے کا مت سوچو۔ کیونکہ چمن یعنی باغ جب ہی باغ کہلاتا ہے جب اس میں پھول ایک جمگھٹے کی صورت موجود ہوں گے۔ یعنی شاعر نوجوانوں کو باہمی اتحاد کی تلقین کر رہا ہے۔

ضعیفوں کو سہارا دو، سنبھالو
غریبوں کی مدد کرکے دعا لو
کوئی فرقہ ہو، سینے سے لگا لو
چمن میں ایک جا سرو سمن ہے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اے نوجوان لوگوں تمھارے فرائض میں شامل ہے کہ تم بوڑھے بزرگوں کا سہارا بنو اور تمھیں ہمیشہ غریبوں کی مدد کرکے ان سے دعا لینی چاہیے۔ کسی بھی طرح کی فرقہ بندی کو درمیان میں مت آنے دو کسی بھی مذہب یا فرقے کے لوگ ہو سب کو سینے سے لگا لو۔ کیونکہ باغ میں بھی دراز قد سرو کا درخت اور چنبیلی ایک ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ اس لیے تم بھی مل جل کر رہو۔

کرو گے اس نصحیت پر عمل تم
مرا ذمہ کے جاؤ گے سنبھل تم
میاں! محنت کرو پاؤ گے پھل تم
یہ دنیا میں ترقی کا چلن ہے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اگر تم میری بتائی گئی نصحیت پہ عمل کرو گے تو میں اس بات کی یقین دھانی کرواتا ہوں کہ تم جلد سنبھل جاؤ گے۔اگر تم محنت کرو گے تو ایک نہ ایک دن ضرور اس کا پھل بھی پاو گے۔ کیونکہ محنت کا پھل ضرور ملتا ہے اور یہی اس دنیا کا اصول بھی ہے۔

سوچیے بتائیے اور لکھیے:

شاعر نے رونقِ قوم ِ وطن کسے کہا ہے؟

شاعر نے نوجوانوں کو قوم و وطن کی رونق کہا ہے۔

‘چمن پھولوں کے جھمگٹ تک چمن ہے’ سے کیا مراد ہے؟

اس سے مراد ہے کہ باغ تب تک باغ کہلاتا ہے جب تک وہاں پہ سب پھول ایک ساتھ مل کر اور اکھٹے موجود ہوتے ہیں۔ ایک آدھ پھول باغ کو باغ نہیں بناتا ہے۔

شاعر نے کس نصحیت پر عمل کرنے کی تاکید کی ہے؟

شاعر نے محنت کرنے اور باہمی اتحاد کی نصحیت کرتے ہوئے اس پر عمل کا کہا ہے۔

دنیا میں ترقی کس طرح کی جا سکتی ہے؟

دنیا میں محنت کے بل بوتے سے ترقی کی جا سکتی ہے۔

نظم میں سے ایسے الفاظ چن کر جن کے آخر میں ‘وں’ لگا ہو۔ نیچے دی ہوئی خالی جگہوں میں لکھیے۔

غریبوں ، ضعیفوں ، والوں ، پھولوں۔

نیچے دیے ہوئے مصرعوں کو مکمل کیجیے۔

  • وطن والوں کو اپنا بھائی جانو
  • محبت میں تعصب کی نہ مانو
  • رہو مل جل کہ جھگڑے کی نہ ٹھانو
  • چمن پھولوں کے جھمگٹ تک چمن ہے
  • ضعیفوں کو سہارا دو، سنبھالو
  • غریبوں کی مدد کرکے دعا لو
  • کوئی فرقہ ہو، سینے سے لگا لو
  • چمن میں ایک جا سرو سمن ہے

نیچے کچھ فعل دیے گئے ہیں انھیں جملوں میں استعمال کیجیے۔

لکھا میں نے خط لکھا۔
منایا علی نے اپنے دوست کو منایا۔
کرو خعب محنت کرو۔
دوڑا احمد سکول ریس میں دوڑا۔
سنبھالا ڈاکٹر نے مریض کو سنبھالا۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کی املا درست کیجئے۔

ظعفیوں ضعیفوں
وتن وطن
گلسن گلشن
فرکہ فرقہ
نسہیت نصحیت
سپھینہ سفینہ

بلند آواز سے پڑھیے اور خوش خط لکھیے۔

سرو ، تعصب ، سفینہ ، عمل ، مستول۔