Advertisement
Advertisement

نظم ترانہ ہندی کی تشریح

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا

یہ شعر علامہ محمد اقبال کی نظم “ترانہ ہندی” سے لیا گیا ہے۔ اس شعر میں شاعر متحدہ ہندوستان کی سرزمین کی بات کرتا اور ہندوستان سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میرے وطن کی سر زمین یعنی ہندوستان سب سے اچھا ہے۔اور یہاں کے رہنے والے لوگ چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو وہ اس چمن کی بلبلیں ہیں اور ہندوستان کی سر زمین ان کا آشیانہ ان کا باغ ہے۔ اس شعر میں شاعر نے ہندو اور مسلمانوں کو بلبلیں جبکہ ہندوستان کو گلستان سے تشبیہ دی ہے۔

Advertisement
غربت میں ہوں اگر ہم رہتا ہے دل وطن میں
سمجھو وہیں ہمیں بھی دل ہو جہاں ہمارا

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ وطن سے محبت کا یہ عالم ہے کہ اگر ہم کہیں پردیس میں بھی موجود ہوں تو بھی دل وطن کی محبت میں بے چین رہتا ہے۔ ہر وقت اپنے وطن کی یاد ستاتی ہے۔ اس لیے جس جگہ ہمارا دل موجود ہو ہمیں بھی وہیں تصور کر لیا کرو۔ دل میں وطن کی محبت کوٹ کوٹ کے بھری ظاہری وجود کو ہونا ایک تصوراتی بات ہے۔وطن سے اصل محبت وہی ہے جو دل میں موجود ہو۔

پربت وہ سب سے اونچا ہم سایہ آسماں کا
وہ سنتری ہمارا وہ پاسباں ہمارا

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میرے وطن ہندوستان کی سر زمین خوبصورت اور دلفریب نظاروں سے بھرپور ہے۔یہاں اونچے اور بلند و بالا پہاڑ ہیں۔جو اس قدر بلند ہیں کہ ان کی چوٹیاں آسمان سے باتیں کرتی نظر آتی ہیں۔یہ فلک بوس چوٹیاں ہمارے ملک کی محافظ و نگہبان ہیں۔

Advertisement
گودی میں کھیلتی ہیں اس کی ہزاروں ندیاں
گلشن ہے جن کے دم سے رشک جناں ہمارا

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میرے وطن یعنی ہندوستان کی سرزمین اس قدر مالا مال ہے کہ یہاں کئی طرح کی زرخیز ندیاں بہتی ہیں۔ یہ وہ ندیاں ہیں جن کے دم سے اس سر زمین کے باغ آباد ہیں اور وہ جنت کی طرح حسین و خوبصورت دکھائی دیتے ہیں کہ ان کو دیکھ کر انسان کے اندر جنت کو پانے کا رشک پیدا ہوتا ہے۔

Advertisement
اے آب رود گنگا وہ دن ہے یاد تجھ کو
اترا ترے کنارے جب کارواں ہمارا

اس شعر میں شاعر گنگا ندی کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے بہتی ہوئی گنگا کی نہر کیا تمہیں وہ دن یاد ہے جب تمھارے کنارے آکر ہمارے قافلے نے اپنا پڑاؤ اتارا تھا۔وہ دن اس دھرتی پر ہماری قوم جا پہلا دن تھا۔

مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ ہندوستان کی سرزمین ایسی سرزمین ہے جہاں ہر مذہب کے لوگ آباد ہیں۔ یہاں اس سر زمین پر مختلف مذاہب کے بسنے والے لوگوں کی موجودگی یہ بات سکھاتی ہے کہ مذہب کبھی بھی آپس میں دشمنی کا درس نہیں دیتا ہے۔ بلکہ مذہب سے بالاتر ہو کر وطن کی محبت ہے جو یہ سکھاتی ہے کہ ہم سب ہندوستانی ہے اور یہ ہمارا وطن ہے۔

Advertisement
کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری
صدیوں رہا ہے دشمن دور زماں ہمارا

اس شعر میں شاعر زمانے کے نا مصائب حالات اور ان سے مقابلے کی جستجو کی بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس سرزمین میں ضرور کوئی بات ہے ورنہ زمانہ ہمارا کئی برسوں سے دشمن ہے اور ہمیں مٹانا چاہتا ہے مگر وہ کسی طور پر ہماری ہستی کو مٹا نہیں سکا۔

سوچیے بتائیے اور لکھیے:

بلبلیں اور گلستان سے شاعر کی کیا مراد ہے؟

اس سے شاعر کی مراد ہندو اور مسلمان ہیں۔شاعر نے ہندوستان میں بسنے والی قوموں بالخصوص ہندو اور مسلمانوں کو بلبلیں جبکہ ہندوستان کی سرزمین کو گلستاں کہا ہے۔

نیچے دیے ہوئے مصرعے کا کیا مطلب ہے؟

غربت میں ہوں اگر ہم رہتا ہے دل وطن میں

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ وطن سے محبت کا یہ عالم ہے کہ اگر ہم کہیں پردیس میں بھی موجود ہوں تو بھی دل وطن کی محبت میں بے چین رہتا ہے۔ ہر وقت اپنے وطن کی یاد ستاتی ہے۔یعنی ہر جگہ دل میں وطن کا خیال موجود ہے۔

علامہ اقبال نے سنتری اور پاسپاں کسے کہا ہے؟

علامہ اقبال نے پہاڑوں کو سنتری اور پاسپاں کہا ہے۔

Advertisement

رشکِ جناں سے کیا مراد ہے؟

اقبال نے ہندوستان کو اس کے خوبصورت نظاروں بالخصوص اس میں بہنے والی ندیوں اور اس کے خوبصورت باغوں کی بنا پر اسے رشک جناں کہا ہے۔

مذہب کیا نہیں سکھاتا ہے؟

مذہب آپس میں بیر رکھنا نہیں سکھاتا۔

اس نظم میں آپ کو کون سا شعر زیادہ پسند ہے اور کیوں؟

اس نظم میں میرا پسندیدہ شعر یہ ہے۔

Advertisement
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا

کیونہ اس شعر میں مذہبی بنیادوں پہ باہمی یگانگت اور محبت کا درس ملتا ہے۔ اس بنا پہ ملکی وحدت کا درس دیا گیا ہے۔

نیچے دی ہوئی تصویروں پر دو دو جملے لکھیے۔

کوا: کوا ایک کالے رنگ کا پرندہ ہے۔
یہ کائیں کائیں کرتا ہے۔
پہاڑ:پہاڑ بلند و بالا ہوتے ہیں۔
پہاڑ خوبصورت ہوتے ہیں جبکہ کچھ پہاڑ برف پوش بھی ہوتے ہیں۔
باغ: باغ میں پھول کھلے تھے۔
باغ میں خوب چہل پہل تھی۔
سنتری:سنتری کا کام ہماری حفاظت کرنا ہوتا ہے۔
سنتری ہم چوکیدار یا محافظ کو کہتے ہیں۔

نیچے دیے ہوئے خانوں کو پر کیجئے۔

واحدجمع
بلبلبلبلیں
آسمانآسمانوں
ندیندیاں
صدیصدیاں
دشمندشمنوں
مذہبمذاہب
جہانجہانوں
ہستیہستیوں

الفاظ کی ترتیب درست کرکے صحیح مصرعے خالی جگہوں میں لکھیے۔

اس کی ہم بلبلیں ہیں یہ ہمارا گلستاںہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
کچھ بات ہے کہ ہماری ہستی نہیں مٹتیکچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری
دورِ زماں صدیوں ہمارا دشمن رہاصدیوں رہا ہے دشمن دور زماں ہمارا
ہزاروں ندیاں اس کی گودی میں کھیلتی ہیںگودی میں کھیلتی ہیں اس کی ہزاروں ندیاں
ہمیں بھی وہیں سمجھو جہاں ہمارا دل ہوسمجھو وہیں ہمیں بھی دل ہو جہاں ہمارا
وہ سب سے اونچا پربت کا ہمسایہ آسماںپربت وہ سب سے اونچا ہم سایہ آسماں کا

نیچے دیے ہوئے الفاظ کی مدد سے خالی جگہوں کو پر کر کے نظم مکمل کیجیے۔

  • سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
  • ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
  • غربت میں ہوں اگر ہم رہتا ہے دل وطن میں
  • سمجھو وہیں ہمیں بھی دل ہو جہاں ہمارا
  • پربت وہ سب سے اونچا ہم سایہ آسماں کا
  • وہ سنتری ہمارا وہ پاسباں ہمارا
  • گودی میں کھیلتی ہیں اس کی ہزاروں ندیاں
  • گلشن ہے جن کے دم سے رشک جناں ہمارا
  • اے آب رود گنگا وہ دن ہے یاد تجھ کو
  • اترا ترے کنارے جب کارواں ہمارا
  • مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
  • ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا
  • کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری
  • صدیوں رہا ہے دشمن دور زماں ہمارا

نیچے ہر لفظ کے سامنے تین تین لفظ دیے گئے ہیں۔ مثال کے مطابق صحیح متضاد لفظ کے گرد دائرہ بنائیے۔

رات = آج ، دن ✅، شام
اچھا=صاف ، برا ✅، نیک
اونچا= بڑا ، اوپر ، نیچا✅
دشمن =دوست✅ ، اجنبی ، پردیسی

نیچے دیے ہوئے لفظوں کے ہم معنی الفاظ، حروف کے جال سے تلاش کیجئے۔ اور خالی جگہوں میں لکھیے۔

گلستاںباغ
پاسباں =رکھوالا
رود =ندی
پربت =پہاڑ
آب =پانی

ہندوستان کی پان مشہور ندیوں کے نام لکھیے۔

گنگا ، جمنا ، گومتی ، گوداوری ، کرشنا۔

Advertisement
Advertisement