کاہلی (سرسید احمد خان)

0

سوال نمبر 1: اس سبق کا خلاصہ اپنے الفاظ میں تحریر کیجیے۔

تعارف مصنف

سرسید احمد خان اردو ادب کے نامور مصنف اور مضمون نگار تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کیا اور انہوں نے ان کو سیدھے راستے کی طرف گامزن کیا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے اصلاحی مضامین بھی لکھے اس لیے انہیں قوم کا مصلح بھی کہا جاتا ہے۔ سبق” کاہلی“ بھی ان کا ایسا ہی ایک اصلاحی مضمون ہے جس میں وہ ہندوستان کے لوگوں کو کاہلی چھوڑ کر اور دلی قویٰ سے کام لے کر ایک بہترین قوم بننے کا درس دیتے ہیں۔

اس سبق میں سرسید احمد خان کہتے ہیں کہ صرف ہاتھ پاؤں سے محنت نہ کرنا اور چلنے پھرنے میں سستی کرنا ہی کاہلی نہیں ہے بلکہ اصل کاہلی دلی قویٰ کو بیکار چھوڑنے کا نام ہے۔ دلی قویٰ کو بیکار چھوڑ کر انسان حیوان صفت ہو جاتا ہے اور وحشییت کا شکار ہو جاتا ہے۔ ہندوستان میں بہت سارے مالدار اس کی واضح مثال ہیں۔ جب تک انسان کاہلی کو چھوڑ کر دل قویٰ سے کام نہیں لے گا تب تک قوم سے بہتری کی توقع نہیں کی جا سکتی۔

اس مضمون میں مصنف کہتے ہیں کہ حقیقت تو یہ ہے کہ لوگ تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ان کے پاس بہت اونچی اونچی ڈگریاں ہوتی ہیں لیکن وہ اپنی ضرورت کے وقت اپنی تعلیم اور شعور کا استعمال نہیں کرتے۔ اگر وہ اپنے شعور اور تعلیم کا استعمال اپنی زندگی میں صحیح طور پر کریں تو وہ ایک کامیاب زندگی گزار سکتے ہیں۔ کسی دانا نے کیا خوب کہا ہے؀
“ہر علم عمل کے بغیر بیکار ہے”

جو شخص علم رکھتا ہے مگر اس پر عمل نہیں کرتا اس کی مثال اس مریض کی طرح ہے جس کے پاس دوا ہوتی ہے لیکن وہ اسکو وقت پراستعمال نہیں کرتا۔ اگر انسان کا علم اور اس کا شعور اسے کوئی فائدہ نہیں دیتا تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ اس کو علم کی ضرورت کے طور پر حاصل نہیں کرتا بلکہ اس سے اپنی وقتی ضروریات کو پورا کرنے کےلیے حاصل کرتا ہے اور جب ایک انسان کے پیش نظر اس کی وقتی اور عارضی ضرورتیں ہوں تو وہ اپنی تخلیقی قوتوں اور عقلی صلاحیتوں سے مکمل فائدہ نہیں اٹھاتا جس کی وجہ سے وہ انتہائی سست ہو جاتا ہے۔ یہی سستی اور اس کا نکما پن اس کے اندر عیاشی اور وحشت پیدا کر دیتا ہے۔ کیونکہ عالم گیر سچائی ہے کہ ایک انسان اگر علم و عمل کی صلاحیتوں سے کام نہیں لیتا تو وہ وحشت کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ علامہ اقبال نے اس منظر کو بہت ہی عمدہ طریقے سے پیش کیا ہے؀

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری

اس سبق کے سوالوں کے جوابات:

سوال: ہماری قوم کی حالت کس طرح بہتر ہو سکتی ہے؟

جواب: جب تک وہ اپنے دل کو بیکار پڑا رہنا نہ چھوڑ دے گی اس وقت تک ہماری قوم کی حالت بہتر نہیں ہو سکتی۔

سوال: اگر انسان اپنے دلی قویٰ کو بیکار ڈال دے تو اس کا کیا حال ہو گا؟

جواب: اگر انسان اپنے دلی قوی کو بیکار ڈال دے تو وہ نہایت کاہل اور وحشی بن جاتا ہے۔

سوال: انسان کس حالت میں کاہل اور بلکل حیوان صفت ہو جاتا ہے؟

جواب: جب انسان اپنے دلی قویٰ کو بیکار چھوڑتا ہے تو وہ سب سے بڑا کاہل اور حیوان صفت ہو جاتا ہے۔

سوال: کون سے لوگ بہت کم کاہل ہوتے ہیں؟

جواب: جو لوگ محنت مزدوری کر کے اپنا گزر بسر کرتے ہیں وہ لوگ کم کاہل ہوتے ہیں۔

سوال: سر سید احمد خاں کے خیال میں سب سے بڑی کاہلی کیا ہے؟

جواب: سر سید احمد خاں کے خیال دلی قویٰ کو بیکار چھوڑنا سب سے بڑی کاہلی ہے۔

سوال نمبر 3: جملے پورے کیجیے۔

  • 1۔ روٹی پیدا کرنا اور پیٹ بھرنا ایک ایسی چیز ہے ( جس کے لیے محنت کی جاتی ہے اور ہاتھ پاؤں کی کاہلی چھوڑ دی جاتی ہے)۔
  • 2۔ ہر ایک انسان کو لازم ہے کہ( اپنی اندرونی قوتوں کو زندہ رکھنے کی کوشش میں رہے اس کو بے کار نہ چھوڑے)۔
  • 3۔ ہم قبول کرتے ہیں کہ ہندوستان میں ہندوستانیوں کے لئے ایسے کام بہت ہیں ( جن میں ان کی دلی قویٰ اور قوت عقلی کو کام میں لانے کا موقع ملے)۔
  • 4۔ ہم اپنے دوستوں سے یہ کہتے ہیں (کہ ہمارے ملک میں جو ہم کو اپنی قویٰ دلی اور قوت عقلی کو کام میں لانے کا موقع نہیں مل رہا ہے اس کا سبب کاہلی اختیار کرنا ہے)۔
  • 5۔ جب تک ہماری قوم سے کاہلی یعنی دل کا بیکار پڑا رہنا نہ چھوٹے گا (اس وقت تک ہم اپنی قوم سے بہتری کی توقع نہیں کر سکتے۔)

سوال نمبر 4: نیچے دیے ہوئے الفاظ کے متضاد لکھیے۔

الفاظ ضد
سستی چشتی
اندرونی بیرونی
مناسب نامناسب
شک یقین
بہتری برتری
بدسلیقہ سلیقے دار
عارضی مستقل
ضروری غیر ضروری

سوال نمبر 5: مندرجہ ذیل الفاظ کی صفت بنائیے۔

الفاظ صفت
عقل عقلمند
محنت محنتی
وطن وطنی
خیال خیالی
علم عالم
انسان انسانیت
حیوان حیوانیت
قوم قومیت
شخص شخصیت
ذہن ذہنیت