Contribution of Sufism in India | مشترکہ ہندوستانی تہذیب کے فروغ میں صوفی سنتوں کا حصہ

0

مشترکہ ہندوستانی تہذیب کے فروغ میں صوفی سنتوں کا حصہ

  • 2.1 تمہید
  • 2.2 مقاصد
  • 2.3 مشترکہ ہندوستانی تہذیب کے فروغ میں صوفی سنتوں کا حصہ
  • 2.4 عمومی جائزہ
  • 2.5 سوالات
  • 2.6 امدادی کتب

2.1 تمہید

صدیوں سے ہندوستانی نسلوں، فرقوں، ہندو مذہب، بدھ ازم، اسلام سکھ اور عیسائی ازم کی مشترکہ روایات، رسوم اور عقائد کے ذہنی و مزاجی ارتقاء کی وہ وحدت جس پر مختلف النوع قوموں نے عمل پیرا ہوکر ایک ہندوستانی قوم کی شناخت بنائی، اسی کا نام مشترکہ ہندوستانی تہذیب ہے۔ تمام دھرموں اور مذاہب کی مشترکہ اور غیر متصادم روایات، رسومات اور حقائق کو فروغ دینے والوں میں اہم رول صوفی سنتوں کا ہے۔ کیونکہ ہندوستان میں مختلف العقیدہ، مختلف الروایات اور مختلف النوع رنگ و نسل کے انسان آباد ہیں۔ان سب کی روحانی ہم آہنگی کے نبھانے اور اس کی پرورش میں صوفی سنتوں کا ایسا کردار ہے جس کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

2.2 مقاصد

اس سبق کے پڑھنے پڑھانے کا مقصد یہ ہے کہ طلبا ہندوستانی روایات اور رسومات کو جانیں۔ اس بات کو بھی جانیں کہ کس طرح مختلف النوع رنگ اور مختلف علاقائی لوگوں کو صوفی سنتوں نے روحانی ہم آہنگی عطا کی ہے۔

2.3 مشترکہ ہندوستانی تہذیب کے فروغ میں صوفی سنتوں کا حصہ

صدیوں سے ہندوستانی نسلوں فرقوں یعنی ہند آریائی، ہندو مذہب، بدھ ازم، اسلام، سکھ ازم اور عیسائی ازم کی مشترکہ روایات، رسوم اور عقائد کے ذہنی و مزاجی ارتقا کی وہ وحدت ہے جس پر مختلف النوع اقوام نے عمل پیرا ہوکر ایک ہندوستانی قوم کی شناخت بنائی ہے، اسے مشترکہ ہندوستانی تہذیب کہا جاتا ہے۔

گوپی چند نارنگ کے مطابق : ”ہندوستانی ذہن نے مختلف مذہبی نظریات اور اعتقادات کو ظاہری کثرت اور گوناگونی میں بنیادی وحدت تلاش کرکے انہیں خود سے ہم آہنگ کر لیا ہے۔ اس میں اخذ و قبول اور اثر و تاثیر کا گہرا ملکہ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہندوستانی مزاج نے آنے والی مختلف نسلوں، قوموں، فرقوں اور مذہبوں سے ہمیشہ رواداری سے کام لیا ہے اور تاریخ کے خاموش عمل کے تحت ان سب کو ہندستانی تہذیبی سانچے میں ایسا کھپایا کہ ان نوواردوں اور ہندوستان میں رہنے والوں میں کوئی بڑا فرق نہ رہا۔“

سوال یہ ہے کہ مختلف نسلوں، قوموں اور مذہبوں میں کوئی بڑا فرق کیوں ظاہر نہیں ہوتا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ہندوستانی ذہن و مزاج کے خمیر میں رواداری، ذہنی ہم آہنگی، مفاہمت اور محبت شامل ہے۔ ہندوستانی تہذیب کی رنگا رنگی اہل علم و ادب سے مخفی نہیں۔ صدیوں قبل ہندوستان میں ویدک تہذیب ہوا کرتی تھی بعد ازاں جو آریائی تہذیب کی نسلوں سے ہوتی ہوئی ہندو تہذیب کے تنوع کا سبب بنتی ہے۔ اسی تہذیبی دھارے میں بدھ ازم کے رسم و رواج کے تہذیبی عناصر جا ملے۔ ہندوؤں اور بدھوں کی ملی جلی تہذیب کا دھارا رواں دواں تھا کہ ان دونوں مشترکہ تہذیبوں کے دھارے میں اسلامی تہذیب کا دھارا آ ملتا ہے۔

ان تہذیبوں کا بڑے پیمانے پر ایک دوسری تہذیب سے لین دین عمل میں آیا۔ مدتوں بعد انہی بڑی تہذیبوں کے بڑے دھارے میں دو اور تہذیبی دھارے سکھ ازم اور پھر عیسائی ازم آن ملتے ہیں۔ان تہذیبی دھاروں کی خصوصیت یہ رہی کہ یہ آپس میں مدغم نہیں ہوئے۔ ہاں یہ بات ضرور ہوئی کہ ایک دوسرے کے بہت قریب آ گئے۔ ان مختلف تہذیبی دھاروں کے باہمی اشتراک کے میل جول نے ہندوستان میں ایک پر لطف فضا قائم کر دی۔ اس معتدل اور متوازن فضا کا نام مشترکہ ہندوستانی تہذیب یا ہندوستانیت ہے۔

اس مشترکہ ہندوستانی تہذیب کو عقیدے، زبان اور رسوم کے اعتبار سے قریب کرنے والوں میں جو خوش نصیب انسان اور دانشور ہے اس کا نام ابوالحسن یمین الدین امیر خسرو ہے جنہوں نے مشترکہ ہندوستانی تہذیب جس کی کثرت میں وحدت کا فلسفہ پوشیدہ ہے کو ہندوستان میں بولی جانے والی گوناگوں زبانوں کے اختلاط سے ایک نئی زبان (ہندی زبان جو بعد میں اردو ہندی نام سے متعارف ہوئی) میں ڈھالا۔

اپنے پیرومرشد نظام الدین اولیاء سے وابستگی کے بعد خانقاہی روایت کے مطابق عام و خاص کی تربیت اور مشترکہ تہذیب کو صیقل کرنے میں بھی بنیادی اور کلیدی کردار پیش کیا۔یہ ہندوستانی زبان تو عوام کی زبان کی حیثیت سے پہلے بھی اپنے مقامی لہجوں کے ساتھ بعض شکلوں میں بولی جارہی تھی لیکن اس عوامی بولی کو زبان اور بالخصوص ادبی زبان بنانے اور مشترکہ ہندوستانی تہذیب کی شمولیت کا سہرا امیر خسرو کے سر جاتا ہے۔اس کے بعد رفتہ رفتہ ہندوستانی یعنی اردو زبان میں مشترکہ تہذیب کی روایت تشکیل پذیر ہوتی ہوئی اپنے استحکام کی طرف بڑھی۔ اس طرح مشترکہ ہندوستانی تہذیب کی ذہنی و مزاجی روایت صدیوں پروان چڑھتی ہوئی اپنے کمال تک پہنچی ہے۔ یہ تہذیب ہر ذی شعور ہندوستانی کو اپنی خوبصورتی کا شدت سے احساس دلاتے ہوئے تمام بڑے فرقوں کو مٹا دیتی ہے۔

جہاں تک مشترکہ ہندوستانی تہذیب میں صوفی سنتوں کے حصے کا تعلق ہے تو بارہویں اور تیرہویں صدی میں بہت سارے صوفیا نظر آتے ہیں جو ہندوستانی عوام کے ساتھ عربی فارسی زبان میں بات نہیں کرتے تھے بلکہ ایک ایسی زبان میں بات کیا کرتے تھے جو عوامی سطح کی تھی۔انہوں نے شعوری طور پر تصوف یا مذہبی موضوعات، اخلاقیات کو عوامی زبان میں پیش کیا۔ نسلی اور مختلف القومی رویوں کو قربتوں میں بدلنے کے لئے ان مسائل اور وطنی مسائل مقامی بولیوں اور زبانوں میں پیش کیا۔بابا فرید مسعود گنج شکر کے دوہے، حمید الدین ناگپوری کے ملفوظات، امیر خسرو کی شعری و نثری تخلیقات، شیخ علی ہجویری ، خواجہ معین الدین چشتی، خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، شیخ سراج الدین، شرف الدین یحیی منیری، مخدوم اشرف جہانگیر، شیخ بہاءالدین باجن، شاہ حاتم علوی، سید محمد حسینی بندہ نواز گیسو دراز، بوعلی شاہ قلندر، نظام الدین اولیاء وغیرہ کے ملفوظات اور تصانیف قابل ذکر ہیں۔

دوسری طرف بجرانی سندھو اور ناتھ پنتی فقرا کی تعلیمات بڑی اہم ہیں۔ ان کے بعد ملک محمد جائسی، کبیر داس، گرو نانک اور ان کے پیروکاروں کے علاوہ رام بھگتی اور کرشن بھگتی کے مبلغین کا بھی اہم رول ہے۔ مسلمانوں اور ہندوؤں میں یگانگی اور اتفاق پیدا کرنے میں مسلمان صوفیوں اور ہندو سادھو سنتوں نے نہایت اہم رول ادا کیا ہے۔ مشترکہ ہندوستانی تہذیب کو فروغ دینے والوں میں اصل ہیرو یہی لوگ ہیں۔

خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے اپنا مسکن دہلی کو بنایا۔ یہیں دعوت و تبلیغ کا کام شروع کیا۔ بابا فرید الدین گنج شکر نے اجودھن میں اپنا مرکز بنایا۔ ان کی خانقاہ میں ہندو عوام اور خاص طور پر ہندو جوگی نہایت عقیدت کے ساتھ حاضری دیتے تھے۔ حضرت نظام الدین اولیاء کے بقول فرید الدین گنج شکر کی خانقاہ میں ہندو عوام حاضری دیا کرتے تھے۔ ہندو جوگی بار بار ان کی خانقاہ میں آیا جایا کرتے تھے اور لوگ ان سے روحانی مسائل پر بحث و مباحثہ کیا کرتے تھے۔ حضرت فرید الدین کی خانقاہ میں نظام الدین اولیاء کی دو بار ہندو جوگیوں سے ملاقات ہوئی تھی۔

بابا فریدالدین ہندوؤں سے ہندوستانی زبان میں بات چیت کیا کرتے تھے۔ اسی طرح نظام الدین اولیاء کی خانقاہ میں بھی ہندو اور مسلمان دونوں حاضری دیا کرتے تھے۔ بقول ڈاکٹر محمد عمر :” راج کمار ہردیو کے روزنامچے نظام بنسری میں ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔شیخ نظام الدین اولیاء کی مذہبی رواداری کی بہت سی مثالیں تاریخ کی کتابوں اور ملفوظات میں مل جاتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایک شام شیخ اپنی خانقاہ کی چھت پر چہل قدمی کر رہے تھے۔ اسی وقت کچھ ہندو جمنا کے کنارے پوجا کرنے میں مشغول تھے۔ ان کے ایک مرید نے شیخ کا دھیان ادھر مبذول کرایا۔ شیخ کی زبان سے برجستہ یہ مصرع برآمد ہوا۔
” ہر قوم راست راہے دینے و قبلہ گاہے “

اس مصرعہ میں مذہبی رواداری کا ایک بے پایاں جذبہ سمٹ آیا ہے۔ ایک ایسے دور میں مسلمانوں کا سیاسی اقتدار اپنے نصف النہار تک پہنچ چکا تھا۔ ایک مذہبی پیشوا کا یہ بے ساختہ ارشاد صرف مذہبی رواداری کا ہی نہیں بلکہ ایک ایسی فکر کا بھی آئینہ ہے جس نے ہندوستان کی تہذیب کے ”جلوہ صد رنگ“ کو سمجھ لیا ہو۔ اور جو یہاں کے تہذیبی نقشے میں ”ہر دین“ اور ہر قبلہ گاہ کو دیکھنے کے لیے تیار ہو“

امیر خسرو پر مذہبی رواداری کا ہی وہ اثر تھا جو اپنے مرشد کے رنگ میں رنگ کر مقبولِ عام ہوئے۔ اپنی مثنوی ”سپہر“ میں انہوں نے ہندو تہذیب اور ان کے رسم و رواج کے بارے میں جن الفاظ میں اظہار خیال کیا ہے اس سے اس زمانے کی مذہبی رواداری کا بحسن وخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔مشترکہ ہندوستانی تہذیب کے فروغ میں امیر خسرو نے ہندوستانی اور فارسی زبان میں ہندوستانیت کو شامل کیا ہے۔ بقول ڈاکٹر عقیل ہاشمی: ” امیر خسرو فارسی کے عظیم مصنف و شاعر تھے۔ ان کی تخلیقات میں ہندوستان کی بولیوں، تہواروں، موسموں، پھلوں اور پھولوں کا ذکر ہے۔ یہاں تک کہ آب و ہوا، حسن و زندگی کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی ملتی ہے۔“

دوسری طرف اسلامی تصوف کے مثبت اور صالح اثرات سے ہندوستان میں ایک روحانی تحریک وجود میں آئی۔ ملک ہندوستان کے گوشے گوشے میں ہندو مبلغین اور اصلاح پسندوں کے گروہ پیدا ہوگئے جنہوں نے ویدک مذہب کی خامیوں اور کوتاہیوں کو دور کرنے کے لیے کوششیں شروع کر دیں۔ ڈاکٹر تارا چند لکھتے ہیں:
” اسلام کے اثر سے ہندو قوم میں مبلغین کا ایک گروہ پیدا ہوا اور انہوں نے بھی اسی کام کو اپنا نصب العین سمجھا جو مسلم صوفی کر رہے تھے۔ مہاراشٹر، گجرات، پنجاب، ہندوستان اور بنگال میں مصلیحین نے چودہویں صدی عیسوی سے عمداً ہندوستان کے قدیمی مذہب کی کچھ باتوں پر عمل کرنا چھوڑ دیا اور کچھ باتوں پر عمل کرنے پر زور دیا۔ اور اس طرح ہندوؤں اور مسلمانوں کے عقائد میں یگانگی پیدا کرنے کی کوشش کی۔“

ان مبلغین میں بھگتی تحریک کے قبل بجرانی سدھو اورناتھ پنتھی فقرا، بھگتی تحریک، نرگن وادی، پریم مارگ وغیرہ کے سنتوں میں کبیر داس، گرو نانک، شنکراچاریہ، رامانج اور ملک محمد جائسی اور ان کے پیروکار وغیرہ خاص مقام رکھتے ہیں جنہوں نے مشترکہ ہندوستانی تہذیب کی تشکیل، فروغ اور استحکام میں اپنا حصہ ڈالا۔بجرانی سدھو ناتھ پنتھی فقرہ اور نرگن وادی اور پریم مارگ کے سادھو سنتوں کا ماننا یہ تھا کہ مذہب کی ظاہری رسومات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

انہوں نے رسوم و عبادات کی مخالفت میں آواز بلند کی۔ وہ مذہب کی ظاہری شکل کے قائل نہیں تھے۔ بقول محمد حسن” تیرتھ یاترا، اشنان، بت پرستی، مندروں کی زیارت کو انہوں نے فروعی اور غیر ضروری قرار دیا تھا۔ ایرانی زیر اثر صوفیوں کی طرح یہ لوگ بھی ظاہر پرستی کے مخالف تھے اور مذہب کو رسوم و عبادات سے بلند تر سمجھتے تھے۔ انہوں نے وشنو دھرم کے بنائے ہوئے سارے اصولوں اور ضابطوں اور رسومات کو ختم کرنے کا مشورہ دیا تھا کیونکہ ان کے نزدیک انسان کی روح کو صحیح انبساط یا نجات مذہبی رسوم اور فرائض کی ظاہری ادائیگی سے حاصل نہیں ہو سکتی بلکہ اپنے باطن کی صفائی اور دل میں معبودِ حقیقی سے لو لگانے سے ہی مل سکتی ہے اور اس باطنی صفائی اور لو لگانے کے مختلف راستے ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح نرگن وادیوں نے خدا کو کسی روپ میں نہیں بلکہ نور غیر مجسم کی حیثیت مانا اور اس کی تبلیغ کی۔ اس طرح مسلم، ویدک دھرم اور ان ہندو سکھ دھرم کے لوگوں میں مشترکہ ہندوستانی تہذیب کو فروغ ملا جس کی جھلک آج بھی ہندوستان کی خوبصورتی کو دوبالا کرتی ہے۔

2.4 عمومی جائزہ

ہندوستان صدیوں سے مختلف نسلوں، فرقوں اور مذہبوں کی آمد کا مرکز رہا ہے۔ آریائی مذہب وتہذیب، ویدک دھرم، بدھ ازم ، اسلام، سکھ ازم، جین ازم اور آخر میں عیسائی ازم۔ یہ تمام مذاہب اور نسلیں مختلف اوقات میں ہندوستان میں آتی گئی اور بستی گئی ہیں۔ان سب کے جو مشترکہ عناصر ہیں، رسوم و روایات ہیں یا عقائد ہیں، ان کی ایک متوازن اور معتدل کیفیت و صورتحال کا نام مشترکہ ہندوستانی تہذیب ہے۔ اسلام جب ہندوستان میں آیا تو علما اور صوفیا نے وحدانیت کی تبلیغ کی اس کا اثر یہاں کے ہندوؤں اور دیگر تہذیبوں پر بھی پڑا، جس کا مثبت اثر یہ ہوا کہ ان لوگوں نے بھی اپنے مذہبی افکار و عقائد پر غور کیا۔

بعض نے اس ایک اللہ، ایشور کو، نور بے شکل و صورت مانا جس طرح مسلم صوفیا مانتے تھے۔ بعض نے اس کی شکل و صورت اور تجسیم کو ضروری قرار دیا اور انسان کے روپ میں حلول کر کے اس پر ایمان لائے۔لیکن مختلف النوع عقائد اس طرح سے ایک دوسرے کے قریب ہیں کہ ایک متوازن اور معتدل تہذیب وجود میں آئی۔ پھر ان صوفی سنتوں نے اس کی تشکیل کے ساتھ ساتھ اس کو بھرپور فروغ دیا۔ مشترکہ ہندوستانی تہذیب کے فروغ میں ان صوفی سنتوں کا بڑا اہم رول ہے جن کا ذکر تفصیل سے سبق میں گزرا ہے۔

2.5 سوالات

  • 1. مشترکہ ہندوستانی تہذیب سے آپ کیا سمجھتے ہیں؟
  • 2. اسلامی صوفیوں نے کس طرح مشترکہ کلچر کو فروغ دیا؟
  • 3. سادھو سنتوں نے کس طرح مشترکہ کلچر کو فروغ دیا؟
  • 4. بجریانی، ناتھ پنتھیوں اور نرگن وادیوں کا کیا عقیدہ رہا ہے؟

2.6 امدادی کتب

  • 1. اسلام کا ہندوستانی تہذیب پر اثر۔۔(اردو ترجمہ) ڈاکٹر تارا چند
  • 2. ہندوستانی تہذیب کا مسلمانوں پر اثر۔۔۔ڈاکٹر محمد عمر
  • 3. اردو غزل اور ہندوستانی ذہن و تہذیب۔۔۔ گوپی چند نارنگ
  • 4. ہندی ادب کی تاریخ۔۔۔ محمد حسن
از تحریر ڈاکٹر محمد آصف ملک اسسٹنٹ پروفیسر بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری جموں و کشمیر