دکن میں اردو کا آغاز و ارتقاء

0

1192ء میں جب مسلمان دہلی پر قابض ہوگئے تو ان کی لائی ہوئی زبان کو پھلنے پھولنے کا موقع میسر آیا۔ لیکن ابھی برج کی سرزمین میں وہ پختہ نہیں ہو پائی تھی کہ مسلمان بعہد علاوالدین خلجی کی طرف چل دیے۔

محمد تغلق نے تو شمال کی بجائے دولت آباد کو اپنا مستقر بنایا۔ اسی کے ساتھ اس عہد کے مشہور صوفیائے کرام، اہل علم و فن، اہل حرفہ اور تجاور دکن پہنچے۔ ان کے ساتھ ان کی زبان بھی سکہ رائج قرار پائی۔لیکن یہ زبان وہاں دکنی کے نام سے موسوم ہوئی اور یہ کہنا شاید بیجا نہ ہو کہ شمالی ہند کی بجائے تحریری زبان وہ دکن میں آکر بنی۔ کیونکہ صوفیائے کرام کو تبلیغ کے سلسلے میں عوام سے ربط قائم کرنا تھا۔ اس لئے انہوں نے اردو میں مذہبی رسالے لکھنے شروع کیے۔ اس کی ابتدا کرنے والوں میں حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کا نام خصوصی طور پر قابل ذکر ہے۔معراج العاشقین اور ہدایت نامہ انہیں کی مرتبہ تصانیف ہیں۔ جہاں تک شاعری کا تعلق ہے یہ کہنا دشوار ہے کہ ابتدا کس صنف سخن سے ہوئی۔ غالباً مثنوی پہلے وجود میں آئی، اس کے بعد رباعی، غزل اور قصیدہ کا آغاز ہوا۔

اگر دکنی اردو کو مختلف ادوار میں تقسیم کیا جائے تو اس کا سلسلہ اس طرح قائم ہوگا۔

  • پہلا دور ،بہمنی دور ہے۔ اس دور کی ادبی زندگی کا آغاز جن بزرگوں کی کاوشوں سے ہوا ان میں حضرت گنج العلم، حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز، سیدعبداللہ، میراں جی شمس العشاق اور بادشاہ برہان الدین جانم مشہور ہیں۔مختلف مذہبی رسائل ان کی یادگار ہیں۔ بہمنی سلطنت دو سو برس تک قائم رہ کر آخر میں چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہو گئی۔ ان میں میں بیجا پور اور گولکنڈہ کی حکومتوں نے زبان و ادب کی ترقی میں نمایاں طور پر حصہ لیا۔ اس عہد کی نثر کا نمونہ دیکھئے۔

“نبی کہیے تحقیق خدا کے درمیان تے ستر ہزار پردے اجیاے کے ہور اندھیار کے۔اگر اس میں تے یک پردہ اٹھ جاوئے تو اس کی آنچ میں جلوں”(معراج العاشقین)

  • دوسرا دور عادل شاہی عہد کے نام سے موسوم ہے۔ نام یوسف عادل شاہ ہے۔وہ ادب نواز تھا، اس خاندان کے دو سو برس کے عہد حکومت میں ادب کی بڑی ترقی ہوئی۔ ابراہیم عادل شاہ خصوصی طور پر شعر و سخن کا دلدادہ تھا۔ جس زمانے میں نورس لکھی گئی۔ نصرتی، رسمی اس عہد کے اہم شعراء تھے۔ اس دور میں اردو نے بہت ترقی کی اور اس دور میں جو کتابیں لکھی گئیں ان میں مقیمی کی چندربدن و مہیار، امین کی بہرام و گل اندام، نصرتی کی گلشن عشق اور امین کی محبت نامہ قابل ذکر تصانیف ہیں۔ اس عہد میں اردو شعر و سخن کا انداز یہ تھا؀
چندربدن کہیا تو کئی ہوں سنبھال بول
سورج مکھی کہیا تو کئی یوں نہ گھال بول
  • تیسرا دور قتب شاہی دور ہے۔اس خاندان کے حکمران اہل فن کے قدردان اور سرپرست تھے۔ محمد قلی قطب شاہ اور عبداللہ قطب شاہ بڑے ذی علم اور ادب نواز تھے۔ اس عہد کی یادگار ملاوجہی، غواصی اور ابن نشاطی وغیرہ ہیں جن کی علم دوستی نے اردو کو فروغ دیا۔ اس عہد کی تصانیف میں درج ذیل کتابیں خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔

مثنوی قطب مشتری از وجہی، مثنوی طوطی نامہ از غںاصی، پھول بن از ابن نشاطی وغیرہ۔ نصیر الدین ہاشمی نے اپنی قابل قدر تصنیف “دکن میں اردو” میں ان الفاظ کی فہرست دی ہے جو آج متروک ہیں۔ مگر اس عہد کے شعرا کے یہاں بکثرت پائے جاتے ہیں۔ چند الفاظ دیکھیے۔:

ہور-اور
کاں- کہاں
دسنے-نظر آتے۔
تمن-تم کو وغیرہ۔

بعد میں جب اورنگزیب نے ان سلطنتوں کو ختم کردیا تو اس وقت تک مزاج شعر و ادب عام ھو چکا تھا۔ بحری، وجدی، ولی وغیرہ اس عہد کے مشہور شاعر تھے۔ اس 37 سالہ دور میں مثنوی اور مرثیہ نے خاصی ترقی کی۔ اورنگ آباد اور برہان پور شاعری کے اہم مراکز بنائے گئے تھے۔ اس عہد میں زبان کافی صاف اور سادہ ہوگئی تھی۔

دکنی شعر و ادب کی خصوصیات پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ شمالی ہند میں چار سو برس تک اردو ایک بولی کی حیثیت سے رائج تھی لیکن دکن میں تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری ہوگیا تھا۔ ابتدا میں اردو پر مقامی بولیوں کا اثر غالب رہا لیکن بعد میں آہستہ آہستہ زبان کا ایک خاص کینڈا بن گیا۔مثنوی نے خاص طور پر قبول عام حاصل کیا جس میں رزم و بزم دونوں کے مرقعے ملتے ہیں۔ ملاوجہی، غواصی اور ابن نشاطی کی مثنویاں نظم کے اعلی نمونے ہیں جن میں معنی آفرینی، جذبات نگاری، منظرکشی کے علاوہ اس دور کی معاشرت کی عکاسی بھی کی گئی ہے۔

دکنی شاعری پر ہندی کی چھپ زیادہ نمایاں ہے اور اردو پر ہندی کی تشبیہات، تمثیلات، الفاظ محاورات کا گہرا اثر نظر آتا ہے۔ ایک اہم خصوصیت اس کی یہ ہے کہ یہ سچی اور عوامی شان کی حامل ہے جس کا اہم عنصر حقیقت نگاری ہے۔ چونکہ دکنی حکمران شیعہ مذہب سے تعلق رکھتے تھے اس لئے مرثیہ کی طرف بھی شعراء کی توجہ مبذول رہی۔ عالمگیر کے عہد میں دکن کے بجائے شمالی ہند کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگی لیکن پھر بھی دکن کی خدمات نمایاں رہیں۔