دارالترجمہ عثمانیہ کی ادبی خدمات

0

حیدر  آباد دکن میں مشاہیر علما کا جمگھٹا تھا، جنہوں نے اس بات کو محسوس کیا کہ فنون کی تعلیم اردو زبان میں دی جانی چاہیے، کیونکہ اردو کا دامن اتنا وسیع ہو چکا ہے کہ جدید علوم کی تفصیلات، اصطلاحات  اور لفظیات کا احاطہ کر سکے۔ انہوں نے اس احساس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے باقاعدہ شکل میں کوشش کی اور میر عثمان علی خاں تک اپنے خیالات پہنچائے۔ آصف حیدرآباد دکن کی علمی ترقی کے خواہاں تھے۔ چنانچہ احساس ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے نظام دکن نواب میر عثمان علی خاں نے 22 ستمبر 1918ء کو فرمان جاری کیا :
              “ایک شعبہ تالیف و تراجم قائم کیا جائے، جو مغربی زبانوں سے اعلیٰ درجے کی تصانیف کا ترجمہ کرے اور ضروری مباحث پر عمدہ تالیفات کا اہتمام کرے۔”

اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ اس وقت تک جامعہ عثمانیہ کا باقاعدہ قیام عمل میں نہ آیا تھا۔ یوں دارالترجمہ کا قیام جامعہ عثمانیہ سے قبل عمل میں آیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جامعہ کے قیام کے بعد تدریس کے سلسلے میں کتب کی فراہمی لازمی تھی اور اردو میں ایسی کتب نہ ہونے کے برابر تھیں جو جدید علوم و فنون کی تحصیل کے سلسلے میں مدد دے سکیں۔ چنانچہ تحصیل علم کے لیے کتابوں کی تیاری پہلی ضرورت تھی۔

دارالترجمہ کا قیام اسی لیے جامعہ عثمانیہ سے پہلے عمل میں لایا گیا کہ اس کے تحت دنیا بھر کی جدید علوم کی اہم کتابیں اردو میں منتقل کی جائیں جو تعلیم میں مدد دیں۔ رفاقت علی شاہد نے اپنی کتاب “تحقیق شناسی” میں دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ کے مقاصد کو درج ذیل نکات کی صورت میں لکھا ہے:

  • 1۔   مغربی زبانوں میں علوم و فنون کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرنا تاکہ علوم و فنون کی اردو میں تدریس کے لیے نصابی کتب کی ضرورت پوری ہوسکے۔
  • 2۔   اردو ترجمہ کرائی جانے والی کتب کی اشاعت کا اہتمام کرنا۔
  • 3۔   مغربی زبانوں میں علوم و فنون کی بلند پایہ کتابوں کا ترجمہ محض اس لیے نہیں کرایا جائے کہ نصابی ضروریات پوری ہو سکیں بلکہ ان کتب کے اردو ترجموں سے اردو ادب میں جدید علوم کی کتب کا اضافہ کرنا بھی مقصود تھا۔
  • 4۔   زبان و بیان کے اعتبار سے علوم جدیدہ کی کتب کو ادبی معیار کے عین مطابق پیش کرنا تاکہ اردو زبان کی ہمہ گیر یت اور اہمیت واضح ہو سکے۔

بابائے اردو مولوی عبدالحق نے “مقدمات عبدالحق” میں دارالترجمہ کے مقاصد ان الفاظ میں بیان کیے ہیں۔
              “اس سررشتہ کا کام صرف یہی نہ ہو گا(اگرچہ کہ یہ اس کا فرض اولین ہے) کہ وہ نصاب تعلیم کی کتابیں تیار کرے ، بلکہ اس کے علاوہ ہر علم پر متعدد اور کثرت سے کتابیں تالیف و ترجمہ کروائے تاکہ لوگوں میں علم کا شوق بڑھے، ملک میں روشنی پھیلے، خیالات و قلوب پر اثر پیدا ہو، جہالت کا استحصال ہو۔”

دارالترجمہ کئی اصحاب علم کے دیرینہ خواب کی تعبیر تھا۔ ان شخصیات میں علامہ شبلی نعمانی ، ملا عبدالقیوم نواب سرسالارجنگ ، نواب عماد الملک ، مولوی محمد مرتضیٰ شامل تھے۔ ان کے خواب کو تعبیر ان کی حیات ابدی میں مل سکی۔

محی الدین قادری سہروردی نے اس کا نام “دارالتصنیف و ترجمہ” لکھا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بعد میں اس کا نام یہی تھا لیکن ادارے کو شہرت “دارالترجمہ” کے نام سے ملی۔چونکہ اس کا بیشتر کام ترجمے کا تھا۔

دارالترجمہ کی اصل تخلیقی اشاعتی زندگی 35 سال رہی۔ اس کا آغاز 1917ء میں ہوا اور اسی سال پہلی کتاب شائع ہوئی۔ پھر 1919ء میں تین کتابیں شائع ہوئیں۔ یہ سلسلہ 1951ء میں شائع ہونے والی واحد اور آخری کتاب پر جا کر ختم ہوا۔ اس مختصر عرصے میں دارالترجمہ نے کثیر تعداد میں علمی کتب اردو میں ترجمہ کرا کے شائع کیں۔یہ کتب نہ صرف موضوعات اور تعداد کے اعتبار سے اہم ہیں۔ بلکہ ان کے مؤلفین اس دور کے ، اردو کے عالم و فاضل افراد اور ادیب تھے۔ جنھوں نے ترجمہ میں سادہ، رواں اور ادبی زبان استعمال کر کے ان کتابوں کو ادبی رنگ بھی دیا۔ یوں مختصر عرصے میں اردو زبان و ادب کا دامن متنوع موضوعات کی کتب سے بھر گیا۔

اردو تحقیق کے لیے خدمات

دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ میں انگریزی اردو اصطلاحات کے سلسلے میں جو گراں قدر خدمات انجام دی گئیں وہ اردو تحقیق کے لیے جامعہ عثمانیہ کی خدمات میں شمار ہوتی ہیں۔ یہ اصطلاحات دارالترجمہ کی “مجلس وضع اصطلاحات” نے تیار کی تھیں۔ان کی اور اردو تحقیق سے متعلق دیگر کتابوں کی تفصیل درج ذیل ہے:

  • 1۔ مجموعہ اصطلاحات تدریسات۔
  • 2۔ اصطلاحات ریاضیات۔
  • 3۔ اصطلاحات علم ہیت۔
  • 4۔ مصطلحات طب۔
  • 5۔ فرہنگ اصطلاحات کیمیا۔
  • 6۔ فرہنگ اصطلاحات طبیعیات۔
  • 7۔ نثری اصطلاحیں۔

دیگر کتب:

  • 1۔ امپیریل گزیٹیر آف انڈیا (شمالی اور جنوبی ہند کے ہندو خاندان)۔
  • 2۔ تاریخ فرشتہ (چار جلدیں)۔
  • 3۔ سیاسی تاریخ ہند۔
  • 4۔ تاریخ دکن

اس دور میں جن علماء نے اپنے خون جگر سے گلشن اردو کی آبیاری کی ان میں مولانا عبدالماجد باری، مرزامحمد ہادی رسوا، مولانا عبدالباری ، ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم، نواب معشوق یار جنگ، محمد الیاس برنی، مناظر احسن گیلانی، ڈاکٹر حسین خاں، عبدالحلیم شرر لکھنوی، مولانا ظفر علی خاں، رشید احمد صدیقی، محمد نجیب اشرف ندوی، قاضی تلمذ حسین، غلام ربانی اور مسعود علی وغیرہ اہم ہیں۔ نظام حیدرآباد نے ان علماء کی خدمت حاصل کر کے”سررشتہ تالیف و ترجمہ” میں عملی کام شروع کروایا اور دیکھتے ہی دیکھتے بہت کم عرصے میں دارالترجمہ نے یورپ کی بہترین علمی و فنی کتب اردو میں منتقل کردیں۔ بقول میر حسن:
              “دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ کا قیام اردو زبان کو علوم و فنون سے مالا مال کرنے کی پہلی باقاعدہ اور مستقل کوشش ہے جو بڑے پیمانے پر کی جارہی ہے۔ دارالترجمہ کی مطبوعات نے اردو میں غیر معمولی وسعت پیدا کردی ہے۔ جدید علوم فنون کا کافی ذخیرہ اردو میں منتقل کردیا اور علمی خیالات کے اظہار کے لیے گنجائش پیدا کر دی۔”

نظام حیدر آباد دکن نے علماء کی خدمات حاصل کر کے اس شاندار علمی منصوبے کو بڑے اہتمام سے شروع کرایا۔ اس ادارے کو ضروری وسائل فراہم کیے اور مختلف علمی منصوبوں کے ضمن میں خصوصی دل چسپی کا مظاہرہ کیا۔ جس کے باعث یہ ادارہ بہت کم وقت میں ایک معتبر اور مستحکم ادارہ بن گیا اور بہت کم عرصے میں مغربی زبانوں میں دستیاب بہترین علمی کتب اردو میں منتقل ہو گئیں۔

1950ء تک دارالترجمہ اپنے علمی منصوبوں کی تکمیل میں منحمک رہا۔ 1950ء میں حیدر آباد دکن میں پولیس مشن کے بعد ریاستی حکومت کی عمل داری ختم کردی گئی اور ریاست حیدرآباد دکن اور جامعہ عثمانیہ کو سرکاری تحویل میں لے لیا گیا۔ جس کے بعد جامعہ عثمانیہ کا انتظام حکومت ہند کے سپرد ہوگیا۔ لیکن واقعہ اردو زبان کی تاریخ میں ایک سانحہ ثابت ہوا۔جامعہ عثمانیہ میں اردو کی جگہ انگریزی کو ذریعہ تعلیم کی حیثیت دے دی گئی۔

1951ء میں ڈاکٹر محمد مجیب کی کتاب “تاریخ تمدن ہند” دارالترجمہ سے شائع ہونے والی آخری کتاب ثابت ہوئی۔ اس طرح دارالترجمہ کی تخلیقی اور اشاعتی زندگی صرف پینتیس برس رہی۔ لیکن اس مختصر عرصے میں بھی دارالترجمہ نے جو خدمات انجام دیں وہ آب زر سے لکھی جانے کے لائق ہیں۔

مجموعی طور پر دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ کا قیام اردو زبان کی تاریخ میں ایک روشن مینار کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ادارے نے بہت مختصر عرصے میں اردو زبان کی جو خدمت کی ہے اور اردو زبان کے ارتقاء میں جو کردار ادا کیا ہے وہ بے مثال ہے۔ اور اگر یہ ادارہ اسی طرح کام کرتا رہتا تو یقیناََ آج اردو زبان زیادہ ترقی یافتہ اور علم و آگاہی کے نئے امکانات کا پیش خیمہ ہوتی۔ لیکن اس کے باوجود اس ادارے نے اردو زبان کی ترقی کے جس سفر کا آغاز کیا تھا وہ کسی نہ کسی شکل میں آج بھی موجود ہے۔

یہ درست ہے کہ سیاسی مصلحتوں کے باعث اردو کو اس کا جائز مقام نہیں مل پایا لیکن آج بھی بہت سے علماء اس امر پر متفق ہیں کہ اردو زبان میں اتنی وسعت اور توانائی ہے کہ جدید علوم کو اپنے اندر سمو کر اعلیٰ سطح پر تدریس کی زبان بن سکے۔ اس حوالے سے ہمیں اس امر کو پیش نظر رکھنا چاہیئےکہ اس تصور کے پیچھے جامعہ عثمانیہ کے دارالترجمہ کی کوششیں ایک مضبوط تحریک کی صورت میں نظر آتی ہیں۔

1918ء میں عثمانیہ یونیورسٹی کا افتتاح ہوا اور ارد گرد کی کئی عمارتیں یونیورسٹی کے مختلف شعبوں کے لیے کرائے پر حاصل کی گئیں۔ وائس چانسلری کے لئے نظر انتخاب ڈاکٹر عبدالرحمٰن بجنوری پر پڑی۔ ان کی ناگہانی موت نے یونیورسٹی کو قابل ترین ہستی سے محروم کردیا۔ صدریار جنگ حبیب الرحمٰن خاں شروانی نے بحثیت معین امیر جامعہ (وائس چانسلر) نے جامعہ عثمانیہ کا افتتاح فرمایا۔

اور دوسرے دن سے باقاعدہ تعلیم کا آغاز ہوا۔ عثمانیہ یونیورسٹی کے قیام سے پہلے ہی ترجمہ وتالیف کا مسئلہ زیر بحث رہا۔ کیونکہ یہ طے ہو جانے کے بعد کہ اعلیٰ تعلیم اردو میں دی جائے گی۔ اس لیے نصابی کتابوں کی فراہمی اور ترجموں کے لیے اصطلاحات کا مسئلہ درپیش ہوا۔

ویسے دہلی کالج میں بھی ترجمہ کا کام ہو چکا تھا اور خود حیدرآباد میں شمس الامراء امیر کبیر نے اپنے ذاتی شوق کے لئے ایک دارالترجمہ قائم کیا تھا، جس میں فرانسیسی اور انگریزی کی چند سائنسی کتابوں کا ترجمہ کیا گیا تھا۔ یہ ایک انفرادی کوشش تھی۔ لیکن یہ کوشش کسی بھی یونیووسٹی کی ضروریات کی تکمیل سے قاصرتھی ۔ اس لیے عثمانیہ یونیورسٹی کے قیام سے دو سال پہلے 14 اگست 1917ء  کو تالیف و ترجمہ کا شعبہ قائم کیا گیا۔

تاکہ یہ شعبہ اصطلاحات اور ترجمہ کےمسائل پرسیرحاصل بحث کرکےکسی ایک نتیجہ پر پہنچےاورطلباء کےلیے نصاب تیارکرےاس غرض سےدارالترجمہ کےلیے کمیٹیوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ 1۔ ارکان دارالترجمہ   2۔ ارکان مجلس وضع اصطلاحات  3۔ مجلس اہل علم و فن جن سے وضع اصطلاحات کے سلسلہ میں مشورہ لیا جاتا  4۔ مجلس انتخابات نصابات علوم و فنون کی کتابوں کا انتخاب کرنے والی کمیٹی   5۔ مجلس نظر ثانی  6۔ مذہبی نقطہ نظر سے ترجموں پر غور کرنے کے لیے کمیٹی  7۔ ادبی نقطہ نظر سے ترجموں کو دیکھنے والی کمیٹی۔

1۔ ارکان دارالترجمہ:

مولوی عبدالحق (ناظم)، قاضی محمد حسین، چوہدری برکت علی، مولوی سید ہاشمی فرید آبادی، مولوی محمد الیاس برنی، قاضی تلمیذ حسین، مولوی ظفر علی حاں، مولانا عبدالماجد دریا بادی ، چوبدی برکت علی، نعمت اللہ خاں، محمد سعید الدین، نصیر احمد عثمانی، مولوی عبدالحلیم شرر، مولوی سید علی رضا، عبداللہ العمادی غلام محمد خاں۔

2۔ مستقل ارکان مجلس وضع اصطلاحات:

مولوی عبدالحق (بہ اعتبار عہدہ ناظم دارالترجمہ) مولوی مہدی خاں کوکب، مولوی حمیدالدین، مولوی علی حیدر طباطبائی (صدر یار جنگ)، مولوی وحیدالدین سیلم اپنے عہد کے ممتاز عالم تھے۔ ان دونوں حضرات کو ماہرین زبان کی حیثیت سے مجلس وضع اصطلاحات میں لیا گیا تھا۔

3۔ مجلس اہل علم:

حسب ذیل حضرات سے وہ اصطلاحات میں مشورہ اوران کےعلم سےاستفادہ کیاجاتا تھاخان محمدافضل خان،پروفیسرعبدالواسع،پروفیسرعبدالرحمن،مرزامحمدہادی رسوا،مولاناسلیمان ندوی،سرسیدراس مسعود۔

4۔ مجلس انتخاب نصاب:

اس کمیٹی میں ہر زبان اور مضمون کے ماہرین کو رکھا گیا تھا تاکہ وہ انگریزی اور دوسرے تمام علوم و فنون کی معیاری اور مستند کتابوں کی تخلیق درجات کے کورس کو مد نظر رکھ کر ترجمہ کے لیے انتخاب کریں۔

5۔ مجلس نظر ثانی:

اس کمیٹی کے نگران حاجی صفی الدین تھے۔

6۔ ناظر امور مذہبی:

علی حیدر نظم طباطبائی ناظر امور مذہبی تھے۔ ان کا کام یہ تھا کہ مذہبی نقطہ نظر سے ترجمہ شدہ کتابوں کا جائزہ لیں۔

7۔ مشیر ادب:

اس عہدہ پر جوش ملیح آبادی کا تقرر ہوا۔ جوش پہلے دارالترجمہ میں مترجم انگریزی ادب کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ چونکہ علی حیدر نظم طباطبائی ابتدا ہی سے “مشیر ادب” اور “ناظر مذہبی” دونوں خدمتوں کو سر انجام دے رہے تھے۔ نظم طبا طبائی کی پنشن کے بعد “مشیر ادب” کے عہدہ پر جوش ملیح آبادی کا تقرر ہوا اور ناظر امور مذہبی کی حیثیت سے مولانا عبداللہ العمادی کا تقرر عمل میں آیا۔

مولوی عبدالحق دارالترجمہ سے جب شعبہ اردو میں بحیثیت پروفیسر مقرر ہوگئے تو مولانا عنایت اللہ دہلوی نے 1927ء میں بحیثیت ناظم دارالترجمہ اس عہدہ کو سنبھالا۔ ترجمہ کے لیے دارالترجمہ میں مستقل اسٹاف رکھا گیا تھا۔ اس میں اس بات کا خیال ملحوظ رکھا گیا تھا کہ مترجم اپنے مضمون کا ماہر ہو۔

تحریر امتیاز احمد