Advertisement
Advertisement
  • کتاب”نوائےاردو”برائے نویں جماعت
  • سبق نمبر21: قطعہ
  • شاعر کا نام: وحیدالدین سلیم
  • نظم کا نام: دعوت انقلاب

تعارف صنف:

رباعی کی طرح قطعہ بھی عام طور پر چار مصرعوں کی نظم ہوتا ہے۔ لیکن رباعی اور قطعے میں دو باتوں کے لحاظ سے بنیادی فرق ہے۔ رباعی کے لیے ایک بحر اور اس کی کچھ شکلیں مخصوص ہیں اور رباعی کے تین مصرعوں کا ہم قافیہ ہونا ضروری ہے۔

Advertisement

اس کے چاروں مصرعے بھی ہم قافیہ ہو سکتے ہیں اس کے برخلاف قطعے کی شرط یہ ہے کہ اس میں مطلع نہیں ہوتا ، یعنی اس کے پہلے کے دونوں مصرعے ہم قافی نہیں ہوتے۔ قطعہ کلاسیکی شاعروں کے یہاں عموماً غزل کے اشعار میں ملتا ہے۔ قطعہ بند اشعار غزل کے اندر دو بھی ہو سکتے ہیں اور دو سے زائد بھی لیکن آج کل کے زیادہ تر شعرا نے قطعے کور باعی کی طرح صرف چار مصرعوں تک محدود کر دیا ہے۔

تعارف مصنف:

وحید الدین سلیم ماہر لسانیات ، صحافی ، مترجم ، کامیاب مصنف اور شاعر تھے۔انھوں نے پہلے مفتوں اور پھر سلیم تخلص اختیار کیا۔ پانی پت میں ابتدائی تعلیم حاصل کی کم عمری میں والدہ کا انتقال ہوگیا۔1882ء میں مڈل اسکول کا امتحان پاس کیا۔

Advertisement

اس کے بعد لاہور کے اور نینٹل کالج میں تعلیم جاری رکھی۔ طالب علمی کا زمانہ غر بت میں بسر ہوا۔ ایک دوست کی وساطت سے ایجرٹین کالج بھاولپور میں السنہ مشرقیہ کے استاد کی جگہ پر ان کا تقرر ہو گیا۔ حالی نے 1894ء میں انھیں علی گڑھ بلوایا اور سرسید سے ملاقات کروائی۔1907 ء میں علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کی ادارت کے لیے انھیں مدعو کیا گیا۔

Advertisement

قیام علی گڑھ میں وحیدالدین سلیم نے انجمن مترجمین قائم کی تھی جس کا مقصد انگریزی کتابوں کو اردو میں منتقل کرنا تھا۔ جب حیدرآباد میں جامعہ عثمانیہ قائم کی گئی تو نصاب کی کتابوں کو طالب علموں کے لیے اردو میں ترجمہ کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ راس مسعود اور بعض دوسرے حضرات نے سلیم کوحیدرآباد بلوالیا۔ یہاں ترجمے کے کام کو آگے بڑھانا تھا۔ جس کے لیے وضع اصطلاحات کی کمیٹی بنائی گئی۔ اس میں مختلف علوم کی کتابوں کا ترجمہ کرنے کے سلسلے میں اصطلاحات سازی کی ضرورت پیش آئی۔ جب شعبۂ اردو کا قیام عمل میں آیا تو انھیں پروفیسر مقرر کر دیا گیا۔ آخری زمانے میں صحت کی خرابی کے باعث ملیح آباد چلے گئے ۔ وہیں 1928ء میں ان کا انتقال ہوا۔

اشعار کی تشریح:

کیا لے گا خاک مردہ و افتادہ بن کے تو
طوفان بن کہ ہے تری فطرت میں انقلاب

یہ شعر”وحیدالدین سلیم” کے قطعے “دعوت انقلاب” سے لیا گیا ہے۔ قطعات کے ان اشعار میں شاعر نے انسان کو ہمت و جستجو کی تلقین کی ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ تم ایک مردہ سی خاک کا حصہ بن کر یا گرا پڑا چھوٹا ہو کر کیا کر لو گے۔اگر تم میں کچھ کرنے کی جستجو ہے اور تمھاری فطرت میں یہ چیز ہے کہ تم کوئی بڑا اور انقلاب و تبدیلی والا کام کرنا چاہتے ہو تو اس کے لیے تمھیں اپنے اندر ایک طوفان کی سی حرکت و جرآت پیدا کرنی ہے۔

Advertisement
کیوں ٹمٹمائے کرمک شب تاب کی طرح
بن سکتا ہے تو اوج فلک پر اگر شہاب

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ کچھ کرنے کی جستجو اگر تمھارے اندر موجود ہے تو تمھیں ایک ننھے سے جگنو کی طرح ٹمٹمانا زیب نہیں دیتا ہے بلکہ اس کے لیے تمہیں آسمان کی بلندیوں پر چمکنے والے روشن ستارے یعنی شہاب بننے کی ضرورت ہے۔

وہ خاک ہو کہ جس میں ملیں ریزہ ہائے زر
وہ سنگ بن کہ جس سے نکلتے ہیں لعل ناب

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ تمھیں اس قیمتی خاک کی طرح بننا ہے جس میں قیمتی زیورات وجواہرات موجود ہوں۔تمھیں وہ پتھر بننا ہے کہ جس میں سے قیمتی ہیرے اور لعل نکلتے ہوں۔یعنی تمھیں بہت زیادہ محنت و جستجو کی ضرورت ہے۔

چڑیوں کی طرح دانے پہ گرتا ہے کس لیے
پرواز رکھ بلند کہ تو بن سکے عقاب

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ تمھیں اپنے اندر ایک چڑیا جیسی خوبیوں کو نہیں لانا کہ جو دانے پر گزر بسر کرتی ہے۔محض دانے کی کھوج میں نکلی رہتی ہے۔ بلکہ تم نے تو اپنی پرواز کو عقاب اور شاہین جیسا بلند کرنا ہے کہ جو بلندیوں میں اپنا شکار تلاش کرتا اور خود کوشش و جدوجہد کرتا ہے۔

وہ چشمہ بن کہ جس سے ہوں سرسبز کھیتیاں
رہ رو کو تو فریب نہ دے صورت سراب

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ تمھیں وہ چشمہ بننا ہے جو سر سبز کھیتوں کوسیراب کرتا ہے۔یعنی تمھیں دوسروں کی مدد کرنے والا بننا ہے۔تمھیں سراب کی طرح راستے کے مسافروں کو ہر گز دھوکہ دینے والا نہیں بننا ہے۔اس لیے خود کو اپنی زندگی کو بہترین مصرف کے طور پر استعمال کرو۔

Advertisement

سوالوں کے جواب لکھیے:

انقلاب سے شاعر کی کیا مراد ہے؟

انقلاب سے شاعر کی مراد وہ تبدیلی ہے جو ہر انسان اپنی محنت اور کوشش سے ممکن بنا سکتا ہے۔ وہ ہر مشکل کو آسانی میں ڈھا ل سکتا ہے۔

انقلاب پیدا کرنے کی صلاحیت کس میں ہے؟

انقلاب پیدا کرنے کی صلاحیت ہر انسان میں موجود ہے۔

شاعر انسان کو کس طرح کا چشمہ بننے کے لیے کہہ رہا ہے؟

شاعر انسان کو وہ چشمہ بننے کا درس دے رہا ہے جو سر سبز کھتیوں کو سیراب کرتا ہو۔یعنی خود کو دوسروں کی مدد کرنے اور بہترین کام کرنے والا بنانا ہے۔

Advertisement

شاعر انسان کو چڑ یا بننے کے بجاۓ عقاب بنے کی ترغیب کیوں دے رہا ہے؟

شاعر انسان کو چڑیا کی بجائے عقاب بننے کی دعوت اس لیے دے رہا ہے کہ انسان کو چڑیا کی طرح دوسروں کے عطا کردہ دانے پر انحصار کرنے کی بجائے عقاب کی طرح بلندیوں میں اڑ کر اپنا رزق تلاش کرنے والا بننا ہے۔

عملی کام:

درج ذیل الفاظ کے متضاد لکھیے :

اوجپستی
مردهزندہ
فلکزمین
سرسبز بنجر/روکھا

اس قطعے میں شاعر نے جن الفاظ کے ساتھ اضافت کا استعمال کیا ہے ان کی نشاندہی کیجیے۔

کرمک شب، اوج فلک، لعل ناب،صورت سراب وغیرہ۔

Advertisement
Advertisement

Advertisement