دعوت و تبلیغ کی تاریخ، سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 17:

(الف) مندرجہ ذیل سوالات کے تفصیلی جوابات تحریر کریں:

۱۔ دعوت و تبلیغ کے مراحل کیا ہیں؟ نوٹ تحریر کریں۔

پہلا مرحلہ خفیہ تبلیغ:

بعثت کے بعد سے تین برس تک کا عرصہ ہے جو حضور کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے بڑی خاموشی اور رازداری کے ساتھ توحید کی تبلیغ میں گذاردیا۔ اس خاموش اور حکیمانہ طرز دعوت و تبلیغ کا نتیجہ یہ نکلا سب سے پہلےمردوں میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، عورتوں میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا، غلاموں میں زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور بچوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ مشرف بہ اسلام ہوئے۔ اس وقت حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے دعوت و تبلیغ کے کام کو مخفی رکھا، یہی وقت اور حالات کا تقاضا بھی تھا، چنانچہ ابتدا میں اہل خانہ اور قابل بھروسہ دوستوں پر محنت کی گئی، آہستہ آہستہ لوگ اسلام میں داخل ہوتے گئے اور تھوڑے ہی عرصہ میں مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی جماعت بن گئی دار ارقم حضرت ارقم کا گھر جو صفا پہاڑی پر واقع تھا ان کے اجتماعات کا مرکز بنا، جہاں پر وہ قرآن کریم کی تعلیم سیکھتے اور نمازیں ادا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کو دوسری وحی کے وقت ارشاد فرمایا: اے چادر میں لپٹنے والے۔ (۱) انھیں اب خبردار کیجئے۔ (۲) اور اپنے پروردگار کی بڑائی بیان کیجئے۔ (۳) (سورۃ المدثر: ۳۔۱)

دوسرا مرحلہ اعلانیہ تبلیغ:

تین برس تک حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ مخفی طور پر دعوت و تبلیغ کا کام کرتے رہے۔اس کے بعد آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی تبلیغی مساعی کا دوسرا مرحلہ اس وقت شروع ہوا۔

جب آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کو یہ حکم دیا گیا: اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو خبر دار کیجئے۔ اس حکم ملنے کے چند روز بعد رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے خاندان عبدالمطلب کو دعوت پر مدعو کیا جس میں ان کے چیدہ چیدہ اور برگزیدہ ارکان بھی شامل تھے اور آپ کے چچا عبدالعزیٰ ابو لہب اور دیگر چالیس کے قریب لوگ شامل تھے، کھانا کھانے کے بعد آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے محفل کو مخاطب کر کے فرمایا: میں تمہارے پاس وہ پیغام لایا ہوں، جو عرب کے کسی شخص نے پیش نہیں کیا ، یہ دنیا و آخرت دونوں کی فلاح کا پیغام ہے۔ وہ چیز لایا ہوں جو دین اور دنیا دونوں کی سعادت کا سبب ہے۔ تم میں کون ہے جو اس الہیٰ مہم میں میرا ساتھ دے؟

حضور کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کے بیان کے بعد پوری محفل میں سناٹا چھا گیا اور خاندان کے تمام افراد میں سے صرف نو عمر حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے۔ اور عرض کی میں آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کا ساتھ دوں گا۔ اگرچہ میں سب سے چھوٹا اور کمزور ہوں لیکن اس کے باوجود آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کا ساتھ دوں گا۔شرکاء محفل میں آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی دعوت کی طرف توجہ نہ دی اور اٹھ کر اپنےاپنے گھر کو چلے گئے۔

کوہ صفا:

کوہ صفا پر عزیز و اقارب اور اہل مکہ تک اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پہنچانے کے بعد اللہ ذوالجلال نے حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کو قدرے وسیع پیمانے پر اس پیغام کو پھیلانے کا حکم فرمایاکہ دعوت دیں قرآن کریم میں ہے: ترجمہ: ہم نے آپ کی طرف قرآن عربی وحی کے ذریعے بھیجا ہے تاکہ آپ اہل مکہ اور گردو نواح کے لوگوں کو خبردار کریں۔ (سورۃ الشوریٰ: ۷)چنانچہ حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے صفا پہاڑی پر کھڑے ہو کر اہل قریش کو قبیلوں کے نام لے کر پکارا، قریش جمع ہو گئے، بعض نے اپنے نمائندے بھیجے اس کے بعد آپ نے اعلان فرمایا: ”یاد رکھو! میں تمہیں اس سے بڑھ کر حق بات کہتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتا ہوں۔“

ترجمہ: کہو اللہ تعالیٰ کے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں، تم کامیاب ہو جاؤ گے۔ یہ سن کر سب سے پہلے آپ کے چچا ابو لہب کہنے لگا: تم ہلاک ہو جاؤ! (نعوذباللہ) کیا تم نے ہمیں اس لیے جمع کیا ہے؟ اس طرح یہ مجمع منتشر ہو گیا۔

اگلے مرحلے میں اللہ تعالیٰ نے اس پیغام کو پوری نوع انسانی یعنی بین الاقوامی درجہ دیتے ہوئے فرمایا: اور ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لیے خوشخبری دینے والا اور خبر دار کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ اپنی دعوتی مہم کے آگے بڑھاتے ہوئے عرب کے موسمی بازاروں عکاظ، مجنہ اور ذوالمجاز (جہاں لوگ کثرت سے جمع ہوتے تھے) میں بھی جاکر آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ انھیں اسلام کا پیغام پہنچایا۔ اسلام کی تبلیغ کے لیے طائف بھی گئے اور وہاں تقریباً دس دنوں تک لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے میں مصروف رہے۔

۲۔ دعوت و تبلیغ کےکیا اصول ہیں؟تحریر کریں؟

جواب: دعوت و تبلیغ کے اصول:

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جس طرح اسلام کی دعوت و تبلیغ کا حکم فرمایا ہے اسی طرح اس کے اصول و ضوابط بھی بتائے ہیں فرمان الہیٰ ہے: اپنے پروردگار کے راستہ کی طرف حکمت اور اچھے وعظ کے ذریعہ لوگوں کو بلائیے اور ان سے بہتر طریقہ سے مکالمہ کریں۔
اس آیت میں دعوت و تبلیغ کے تین اصول بیان کیے گئے ہیں یہ تین اصول مندرجہ ذیل ہیں:
۱)حکمت، ۲) موعظ حسنہ، ۳) عمدہ طریقہ پر بحث و مباحثہ۔

حکمت سے تبلیغ:

مخاطب کی سطح کے مطابق گفتگو کی جائے اور اس کے اندر بات سننے کی آمادگی پیدا کی جائے۔ دانائی سے مخاطبین کی ذہنی صلاحیت کو سمجھ کر حالات اور مواقع و محل کے مطابق علمی و عقلی استدلال کے ساتھ دعوت و تبلیغ کی جائے۔

موعظ حسنہ:

بات کو اچھے انداز میں بیان کرنے کا اثر ضرور ہوتا ہے، چنانچہ پر اثر گفتگو سے مخاطب کےسامنے اچھائی اور برائی کو ظاہر کرکے نصحیت والے انداز می بات کرنا کہ کسی کی دل آزاری نہ ہواور عمدہ طریقہ سے گفتگو کرکے اس کو حق کے لیے پر قائل کرنا ”موعظۂ حسنہ“ ہے۔

بحث و مباحثہ:

اپنی بات کہنے کے لیے اگر مباحثہ یا مکالمہ کی صورتحال پیش آئے تو پر دلائل گفتگو کرے اور مخالف کے موقف کو غلط ثابت کرنے کےلیے بہتر اور اچھی اور شائستہ زبان میں گفتگو اختیار کرنا جس میں افہام و تفہیم ہو، غصہ، جوش اور چیخ چیخ کر بات کرنے سے گریز کرنا۔

دعوت و تبلیغ کرنے والے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ جس بات کی وہ دوسروں کو تبلیغ کرتا ہے اس پر وہ خود بھی عامل ہو، قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجمہ: اور اس شخص سے بڑھ کر بات کا اچھا کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور عمل نیک کرے۔

(ب)مندرجہ ذیل سوالات کے مختصر جوابات تحریر کریں:

۱۔ دعوت و تبلیغ کے معنی اور مفہوم کیا ہیں؟

جواب: عربی زبان میں ”دعوت“ کے لغوی معنی : پکارنے اور بلانے کے ہیں۔جبکہ تبلیغ کے معنی پہنچانے کے ہیں ، دینی اصطلاح میں لوگوں کو اسلام کی طرف بلانا۔ اچھی باتوں اور دینی تعلیم کی طرف بلانے کو ”دعوت دین“ اور ان باتوں کو خیر خواہی کے جذبہ سے دیگر لوگوں، اقوام اور ملکوں تک پوری طرح پہچانے کا نام تبلیغ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اور اس شخص سے بڑھ کر بات کا اچھا کون ہو سکتا ہے۔ جو اللہ کی طرف بلائے اور عمل نیک کرے۔

۲۔ دعوت و تبلیغ کے مقاصد کیا ہیں؟ تحریر کریں۔

دعوت و تبلیغ کے بنیادی مقاصد میں سے یہ ہیں کہ لوگوں تک اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانا ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کو ایک الٰہ اور رب مانا جائے،اللہ کی ذات، صفات اور اختیارات و حقوق میں کسی کو شریک نہ کیا جائے، اسلام کو دین حق سمجھ کر اللہ کےسامنے اپنے آپ کو اس کے ہاں جوابدہ سمجھے، اللہ کے پیغمبروں پر پورا ایمان لا کر ان کی پیروی و اتباہ کی جائے،حضرت محمد رسول اللہ خاتم النبیین صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کو آخری نبی جان کر ان کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے نیکی کو فروغ دینے پر آمادہ کیا جائے اور برائیوں کو ختم کرنے کی ترغیب دی جائے۔

۳۔ دعوت و تبلیغ کے اثرات کو مختصر لکھیں۔

ابتداء میں انصار مدینہ میں سے ایک شخص سوید بن صامت جو شجاعت و شاعری میں نامور تھا حج کے زمانہ میں مکہ مکرمہ آیا اور حضور کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی زبان مبارک سے قرآن شریف کی چند آیات سن کر اسلامکی حقانیت کا قائل ہو گیا،پھر اس کے میلان اسلام کا اثر دیگر اہل یثرب پڑ پڑا جس کے نتیجے میں دو تین برسوں کے اندر مدینہ منورہ کے لوگوں کی کچھ تعداد اسلام کی حلقہ بگوش ہو گئی۔اس کے بعد مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف مسلمانوں کی ہجرت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اور مسلمان مدینہ منورہ جا کر طاقتور ہونا شروع ہو گئے اور حضور کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ بھی ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے آئے۔ یہاں آتے ہی ایک مسجد کی بنیاد ڈالی۔ اور آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے مدینہ منورہ اور اس کے گرد و نواح کے قبائل کے ساتھ معاہدات کیے۔

غزوہ بدر، احد، خندق، صلح حدیبیہ کے بعد حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے بادشاہوں کو تبلیغی خطوط لکھے۔ خیبر کی فتح ہوئی۔ حق کی فتح اور باطل کو شکست ہوئی یعنی مکہ مکرمہ فتح ہوا۔

دعوت و تبلیغ کے نتیجے میں حجۃالوداع کے موقعہ پر ایک لاکھ سے زائد صحابہ رضی اللہ عنہم حج کے لیے تیار ہوئے۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہئے کہ دعوت دین اور تبلیغ اسلام کے فریضہ کے لیے ہمہ وقت اور ہمہ تن کوشش کریں تاکہ اللہ تعالیٰ کے دین کا بول بالا رہے اورہم فلاح دارین حاصل کر سکیں۔