Development of Islamic Mysticism, Importance | تصوف کا ارتقاء اور اس کی اہمیت و خصوصیات

0

تصوف کا ارتقاء اور اس کی اہمیت و خصوصیات

2.1 تمہید

تصوف کی ابتدا ایک تحریک کے طور پر ہوئی تھی اور رفتہ رفتہ اس کے ارتقاء میں بہت سے ادوار شامل ہوتے رہے جن میں بہت سے بزرگان دین نے اپنے اپنے زمانے میں رائج طریقوں کے ذریعے تصوف کی تحریک کو آگے بڑھایا۔آگے کے صفحات میں آپ تصوف کے ارتقا اور اس کی اہمیت و خصوصیات کو مختلف ادوار کی روشنی میں پڑھیں گے۔

2.2 مقاصد

اس اکائی کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اس کو پڑھنے کے بعد طلبا تصوف کے ارتقاء میں رائج مختلف ادوار کا بغور مطالعہ کریں اور تصوف کے آغاز و ارتقا اور اس کی اہمیت و افادیت سے بھی واقف ہو جائیں۔

2.3 تصوف کا ارتقا اور اس کی اہمیت و خصوصیات

تصوف کی اصطلاح پہلی صدی ہجری میں استعمال نہیں ہوئی تھی اور دوسری صدی کے اختتام تک بھی فنا بقا یا توحید وجودی کی اصطلاحات کا برتاؤ نہیں ملتا۔ صوفیا میں خرقہ پہننا، سطحات کا صدور، سکرو مدہوشی جذب و انبساط وغیرہ کا رواج بھی نہیں تھا۔البتہ اسی عہد میں کچھ ایسے دواعی کا آغاز ہو گیا تھا جو بعد میں خاص صوفیانہ فکر کا پیش خیمہ ثابت ہوا اور پھر تصوف کی بنیاد انہی تصورات پر قائم ہوئی۔ ان تصورات میں سے ایک خاص اور اہم تصور محبت الہی تھا۔ تاریخ تصوف میں لفظ ’محبت‘ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ سلوک و سالک کا سفر در اصل محبت الہی ہی سے شروع ہوتا ہے۔ قرآن و حدیث میں خدا تعالی سے محبت کو بہت ہی اہمیت دی گئی ہے۔ صوفیا کی طبعیتوں نے اسی کو قبول کیا اور سلوک کی بنیاد اسی کو بنا لیا۔ بلکہ صوفیا نے محبت کو اس دائرے سے آگے بڑھایا جس کا تذکرہ کلام اللہ میں موجود ہے۔ کلام اللہ میں محبت الہی کا طریقہ اور اظہار یہ بتایا گیا ہے کہ خدا کے رسول کی پیروی کی جائے۔

صوفیا نے اس کو آگے بڑھا کر عشق کے درجے تک پہنچا دیا اور ان شدید کیفیات کو پیدا کرنے کے لیے ذکر و مراقبہ کا طریقہ اختیار کیا۔ دوسری صدی ہجری میں اگرچہ اس کے خدوخال بہت واضح نہیں ہو پائے لیکن محبت کے ساتھ عشق کا ذکر ضرور ہوتا ہے۔ عبدالواحد بن زید نے حضرت حسن بصری سے ایک روایت بیان کی ہے جو حدیث قدسی کی طرز پر ہے، وہ روایت اس طرح ہے:
” جب بندہ صرف میرے ساتھ مصروف ہو جاتا ہے تو میں اس کی نعمت اور لذت اپنے ذکر میں رکھ دیتا ہوں اور جب اس کی لذت و نعمت میرا ذکر بن جاتا ہے تو وہ مجھ سے عشق کرنے لگتا ہے اور میں اس سے عشق کرنے لگتا ہوں اور جب وہ مجھ سے عشق کرنے لگتا ہے اور میں اس سے عشق کرنے لگتا ہوں تو اس کے اور میرے درمیان سے حجاب اٹھ جاتا ہے اور میں اس کی نظروں کے سامنے آ جاتا ہوں۔“

عبدالواحد بن زید کی یہ روایت باضابطہ طور پر تصوف کے اس تصور کا نقطۂ آغاز معلوم ہوتی ہے جس سے روشنی حاصل کرتے ہوئے بعد میں صوفیہ نے وحدت الوجود کا اثبات کیا اور بعض صوفیا سے تو شطحیات کا بھی صدور ہوا۔

ایک صوفی بزرگ گزرے ہیں جن کا نام حضرت ابراہیم بن ادھم ہے۔ انہوں نے محبت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ”اگر بندوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالی کی محبت کیا ہے، تو کھانا پینا کم ہو جائے، لباس پر توجہ کم ہوجائے، فرشتوں کو دیکھو خدا سے محبت کرتے ہیں تو صرف اسی کی عبادت کرتے ہیں یہاں تک کہ ان میں سے بہت سے جب پیدا ہوئے یا تو سجدے میں ہیں یا قیام میں یا رکوع میں“

ابراہیم بن ادھم نے تصوف کی اہمیت پر ایک اور اہم بات کہی ہے کہ ”اے اللہ تو جانتا ہے کہ اگر مجھے تیری محبت مل جائے تو پھر میرے نزدیک جنت کی قیمت مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہوگی۔“ یہاں بھی تصوف کے ذریعے نام و نمود اور ریا وغیرہ سے پاک خدا کو یاد کرنے کی بات کہی گئی جس پر تصوف میں خاص زور دیا جاتا ہے۔ اگر انسان نام و نمود سے پاک ہو کر صرف اور صرف خدا کی رضا کے لئے کام انجام دے تو بہت سارے محتاج و مفلس روز وشب ذلیل و خوار کیے جاتے ہیں ایک کیلا یا ایک پاؤ چاول دے کر میڈیا میں تصویریں چھپ جاتی ہیں دینے والوں کی تعریفیں کئی کئی دنوں تک ہوتی رہتی ہیں تو اتنے دن مفلس ومحتاج ذلیل ہوتے رہتے ہیں اگر تصوف کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا جائے تو ان برائیوں سے نجات مل سکتی ہے۔

ابراہیم بن ادھم کی یہ وہی بات ہے جس سے آگے بڑھ کر رابعہ العدویہ نے کہی تھی۔ رابعہ ابراہیم ادھم کی معاصر ہیں۔ ان کا مشہور زمانہ جملہ اکثر تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ ” میں چاہتی ہوں کہ جنت کو جلا دوں اور جہنم پر پانی ڈال کر اسے بجھا دوں تا کہ لوگ بغیر کسی لالچ یا خوف کے خدا کی عبادت کریں۔“

دوسرا تصور جس کی ابتدا اس دور میں ہوئی وہ زہد کا ہے۔زہد بھی صوفیا کے بنیادی تصورات میں سے ہے۔ بے شمار قرآنی آیات اور احادیث میں دنیا اور اس میں پائی جانے والی چیزوں سے زہد کی ترغیب دی گئی ہے۔شیخ ابن حسیم رقمطراز ہیں کہ ”قرآن دنیا میں زہد کی ترغیب اور دنیا کی بے قیمتی اور بے حیستی کے ذکر سے بھرا ہوا ہے۔“ اسی طرح زہد فی الدنیا کے موضوع پر مشتمل احادیث کا شمار نا ممکن ہے۔ کتاب وسنت میں زہد کی بےحد فضیلت آئی ہے اور سلف نے زہد کے موضوع پر باظابطہ کتابیں تحریر کی ہیں۔

  • تیسری صدی میں تصوف کے اندر فلسفیانہ فکر کی آمیزش شروع ہوگئی اور معرفت اور محبت کے جو تصورات دوسری صدی ہجری میں پروان چڑھے تھے اس صدی میں ان کے اندر فلسفیانہ رنگ شامل ہوگیا اور ان کی الگ انفرادیت قائم ہوگئی۔تیسری صدی میں تصوف کے پانچ امتیازات قائم ہوگئے:
  • 1. اخلاق وسلوک
  • 2. ذوقی معرفت
  • 3. فنا اور اس کے مختلف معانی
  • 4. طمانیت یا سعادت
  • 5. اشاراتی زبان

صوفیا کی خانقاہوں کا ظہور بھی اسی صدی ہجری میں ہوا۔علامہ جامی کے ایک اندراج سے معلوم ہوتا ہے کہ خود شیخ جنید بغدادی نے بھی اپنی خانقاہ قائم کرلی تھی۔ اگر یہ روایت صحیح نہ بھی ہو تب بھی ابراہیم مصری کے بارے میں یقینی طور پر معلوم ہے کہ ان کے لئے خانقاہ قائم کی گئی تھی جس کو ”رباط“ کہا جاتا ہے۔نفحات الانس کے لکھنے والے رقمطراز ہیں کہ: پہلی خانقاہ ابوہاشم صوفی نے رللہ(فلسطین) میں قائم کی اور حضرت سفیان نے ان سے استفادہ کیا تھا۔ تاریخ کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ تیسری صدی سے پانچویں صدی کے درمیان تصوف کی تمام اصطلاحات کا رواج عام ہو گیا تھا اور صوفیائے کرام درج ذیل مخصوص اصطلاحات میں گفتگو کرنے لگے تھے؛
وقت، مقام، حال، قبض، بسط، ہیبت، انس، تواجد، جمع، فرق، فنا و بقا، غیبت و خضور، صحو و اثبات، مستور و تجلی، کشف، مشاہدہ، لوائح، طوامع، لوامع، شریعت، حقیقت، طریقت اور قرب و بعد وغیرہ۔

2.4 تصوف کے ارتقاء کے ادوار

اب ہم ادوار کے اعتبار سے تصوف کے ارتقاء کو منظم طریقے سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مؤرخین نے تصوف کی تاریخ کو مختلف زمانوں میں تقسیم کیا ہے۔ موجودہ دور میں تصوف کے ایک اہم محقق پروفیسر شاہد علی عباسی نے تصوف کے ارتقاء کو چھ ادوار میں منقسم کیا ہے۔ دور اول عہد صحابہ، دور دوم حضرت حسن بصری اور ان کے معاصرین، دورسوم نویں صدی عیسوی سے بارہویں صدی کا ہے اس دور میں تصوف کے اکثر افکار اور ان کی امتیازی خوبیاں وجود پذیر ہوئیں۔دور چہارم تصوف میں جذب و سلوک کے آغاز کا دور ہے، دور پنجم تصوف کے سلاسل کے آغاز کا دور ہے اور دور ششم پندرھویں صدی سے اٹھارہویں صدی تک کا اہم دور مانا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ تصوف کے ادوار کی تقسیم حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے بھی کی ہے اور وہ تصوف کو چار ادوار میں تقسیم کرتے ہیں۔ اسی کی منظم تفصیل اس طرح ہے۔

تصوف کا دور اول: رسول اللہﷺ اور اجلہ صحابہ کا عہد

تصوف کے دور اول کی ابتدا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک سے ہوتی ہے اور یہ عہدصحابہ تک جاری رہتا ہے۔اس عہد کی خصوصیات یہ ہیں کہ اس میں سالکین کی توجہ شریعت کے ظاہری اعمال پر مرکوز رہی۔ ان حضرات کو باطنی زندگی کے تمام مراتب شرعی احکام کی پابندی کے ذریعے حاصل ہوتے تھے۔ چنانچہ ان لوگوں کا احسان یہ تھا کہ وہ نمازیں پڑھتے تھے، ذکر و تلاوت میں مشغول رہتے تھے، روزہ رکھتے تھے، حج بجا لاتے تھے، زکوٰۃ ادا کرتے تھے اور جہاد کرتے تھے۔یہ حضرات خدا سے قرب و حضور کی نسبت اعمال شریعت اور ذکر و اذکار کے علاوہ کسی ذریعے سے حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے تھے۔ بلاشبہ ان اہل کمال بزرگوں میں جو صاحب تحقیق ہوئے ان کو نماز ادا کرنے اور ذکراذکار میں لذت ملتی تھی۔ مثلاً نماز اس لئے ادا کرتے تھے کہ وہ خدا کا حکم ہے بلکہ اس کے ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے باطنی تقاضوں کی تسکین ہوتی تھی۔مختصر یہ کہ یہ بزرگ محض خدا کا حکم سمجھ کر شرعی احکام ادا نہ کرتے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان شرعی احکام کی بجا آوری سے ان کے باطن کے تقاضوں کی بھی تسکین ہو جاتی تھی۔

تصوف کا دور دوم: 61ھ سے تیسری صدی ہجری کے آغاز تک

تصوف کا دوسرا دور تقریباً 61 ہجری سے شروع ہوتا ہے جسے حضرت حسن بصری کا عہد کہا جاتا ہے۔ یہ دور تیسری صدی ہجری کے آغاز تقریباً دو سو برسوں پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ دور تصوف کا تشکیلی اور ابتدائی دور سمجھا جاتا ہے، اس دور میں بنو امیہ کا پورا عہد حکومت اور بنو عباس کا دور عروج شامل ہے۔ اس عہد کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں تحریک تصوف نے نہ تو باضابطہ کوئی شکل و صورت اختیار کی تھی اور نہ ہی تصوف کی خاص اصطلاحات وضع ہوئی تھیں۔اس دوران حضرت حسن بصری، حضرت فضیل بن عیاض اور حضرت مالک بن دینار وغیرہ ایسے بڑے صوفیا ہیں جنہوں نے اس عہد کے اکثر مسلمانوں کے اندر پائی جانے والی حد سے زیادہ دنیا داری سے نہ صرف بے زاری کا اظہار کیا بلکہ اس روش کے خلاف آواز بھی بلند کی۔ انہوں نے خود کو امور دنیا اور حکومت کے کاموں سے دور رکھا۔ ان لوگوں نے مسلمانوں کی باضابطہ اصلاح کی تنظیم کے بجائے مخصوص سیاسی ماحول کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا کے اس خراب ماحول سے خود کو دور کر لیا۔ اس طرح وہ گوشۂ عافیت میں عبادت و ریاضت میں مشغول ہوگئے۔

دور سوم: تیسری صدی کے آغاز سے چوتھی صدی کے نصف تک

تصوف کی تحریک کا تیسرا دور، تیسری صدی ہجری کے بیشتر اور چوتھی صدی ہجری کے نصف اول پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ زمانہ مسلمانوں میں فلسفے اور عقلیت سے مرعوبیت کا زمانہ کہلاتا ہے۔فلسفہ و منطق کے سبب مسلمانوں میں اس زمانے میں عقائد و مذہب کے بارے میں شک و شبہات پیدا ہونے لگے تھے۔ اس دور کے صوفیا میں حضرت بایزید بسطامی، حضرت ذوالنون مصری اور حضرت جنید بغدادی بہت زیادہ مقبول اور مشہور رہے۔ لیکن اس دور کے بزرگان دین نے مذہب اور اس کی تعلیمات کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کے بجائے دل کی کیفیت پر زور صرف کیا۔ان کے یہاں انسان سیدھے راستے کی تلاش میں عقل کے گھوڑے دوڑانے کے بجائے اگر اپنے باطن میں جھانک کر دیکھے تو زیادہ آسانی کے ساتھ صحیح راستے پر گامزن رہ سکے گا۔ یہاں تک کہ ان بزرگوں نے یونانی اور ایرانی عقلیت پسندی کا مقابلہ عشق الٰہی سے کرنے پر اصرار کیا۔

دور چہارم: چوتھی صدی کے نصف سے پانچویں صدی تک

تحریک تصوف کا دور چہارم چوتھی صدی ہجری کے آخر اور پانچویں صدی ہجری پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ زمانہ عباسی خلافت کا دور زوال مانا جاتا ہے۔اس دوران مسلم دنیا پورے طور پر انتشار کا شکار ہو چکی تھی۔ یہ وہی دور رہا ہے جس میں مسلم دنیا کے مختلف علاقوں میں ان کی چھوٹی چھوٹی خود مختار حکومتیں قائم ہوچکی تھیں جو اکثر اوقات آپس میں دست و گریباں میں مصروف رہتی تھیں، آپس کے اختلافات، انتشار اور خانہ جنگیوں کے اس زمانے میں تحریک تصوف کو مزید جلا ملی اور اس نے دنیا داری کے خلاف باضابطہ بیزاری کی تحریک کی شکل اختیار کر لی تھی۔ اس عہد کے اہم صوفیا میں ابو نصر سراج اور ابو طالب مکی بہت ہی مشہور اور مقبول ہوئے۔ تحریک تصوف کے اس عہد کی خاص بات یہ ہے کہ اسی دور میں تصوف کی اصطلاحات مقبول ہونا شروع ہوئیں۔اسی زمانے میں صوفیا کے گروپ اور حلقے وجود پذیر ہوئے یہاں تک کہ بعض حضرات نے صوفی تحریک کو ہی عین اسلام ثابت کرنے پر زور صرف کردیا۔ ہاں بات ضرور ہے کہ اس دور میں بھی باضابطہ صوفی سلاسل کی ابتدا نہیں ہوئی تھی۔ یہ وہی دور ہے جس میں پہلی بار ایسی کتابیں وجود میں آئیں جن میں تصوف کے بنیادی تصورات درج کیے گئے۔ مثلاً شیخ ابو نصر سراج کی تصنیف” کتاب اللمع “ ہے۔ اس دور کی ایک خاص بات یہ بھی رہی کہ اس میں صوفیائے کرام نے باطنی اصلاح پر زیادہ زور صرف کیا۔

دور پنجم: پانچویں سے ساتویں صدی تک

تحریک تصوف کا دور پنجم چھٹی صدی ہجری اور ساتویں صدی ہجری پر محیط ہے۔ اس عہد میں تصوف نے پورے طور پر ایک منظم تحریک کی شکل و صورت اختیار کر لی تھی یہاں تک کہ تصوف اپنے دور کے سماج کی اہم ضرورت بن کر ابھرا۔وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ دور بھی مسلم دنیا کی بے منظمی اور دور خلفشار کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس میں مسلمانوں کی آپسی چپقلش اور کشمکش نے انہیں بہت حد تک کمزور کر دیا تھا کہ منگولوں نے مسلم دنیا کے ایک اہم اور بڑے حصے کو تباہ و برباد کر دیا تھا۔ اس سے قبل مسلمان شہروں اور علاقوں کی ایسی تباہی چشم بینا سے نہ دیکھی گئی تھی۔اس خون خرابے کے سب مسلم دنیا میں مایوسی پھیل گئی اور دنیا کی بے ثباتی اور ناپائیداری کا ایسا ماحول تیار ہوا کہ جو تحریک تصوف کے لئے انتہائی سازگار ثابت ہوا۔اسی سبب سے تصوف اور صوفی خیالات کو مسلم دنیا میں سب سے زیادہ فروغ حاصل ہوا۔اکثر صوفی سلاسل کا قیام اسی دور میں عمل میں آیا اور اسی زمانے میں صوفی مسلم دنیا اطراف واکناف میں پھیل گئے۔ اس عہد کے صوفیا میں مؤلف رسالہ قشیریہ از شیخ ابو القاسم قشیری، زبان فارسی میں تصوف کی سب سے پہلی تصنیف ’کشف المحجوب‘ کے مصنف شیخ عثمان بن علی ہجویری سلسلہ قادریہ کے بانی اور فتوح الغیب کے مؤلف سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی۔ اسی طرح صاحب احیاء العلوم امام محمد الغزالی فصوص الحکم اور فتوحات مکیہ جیسی معرکۃالآرا تصوف کی بنیادی کتابوں کے مصنف شیخ محی الدین ابن عربی (شیخ اکبر) بانی سلسلہ سہروردیہ اور عواف المعارف جیسی تصوف کی کتاب کے مصنف شیخ شہاب الدین سہروردی زیادہ مشہور و مقبول ہیں۔ اس دور میں تصوف کو سب سے زیادہ عوامی مقبولیت حاصل رہی۔

دور ششم: تصوف کی تاریخ کا چھٹا دور ساتویں صدی سے تاحال

تصوف کے سلسلے قائم ہونے کے بعد تصوف نہ صرف طریقۂ تربیت رہا بلکہ باضابطہ ایک نظام بن کر ابھرا۔ لیکن نظام کی خوبیوں کے ساتھ ہی ساتھ اس میں کچھ خرابیاں بھی شامل ہوگئیں۔الگ الگ سلسلوں کے بعض افراد میں آپسی اختلافات بھی وجود پذیر ہوئے یہاں تک کہ ہر سلسلے کے اندر بھی اس کے کچھ پیروکاروں نے کے مابین اختلافات رونما ہوئے اور یہ سلسلہ تقسیم در تقسیم کا شکار ہو گئے۔ جن میں سے اکثر زمانے کو نہ بھا سکے اور زمانے نے ان کو مٹا ڈالا اور وہ صرف اور صرف تاریخ کا حصہ رہ گئے۔بہت سارے ابھی تک موجود ہیں۔ آخری سلسلوں میں بعض صوفیا بہت مشہور ہوئے جن کی پیروی ابھی تک کی جا رہی ہے۔ ان میں مجدد الف ثانی، شیخ احمد سرہندی اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی زیادہ مشہور ہیں۔

2.5 عمومی جائزہ

تصوف کا سلسلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے زمانے سے جوڑا جاتا ہے جس کی تفصیل ماقبل صفحات پر درج کی جاچکی ہے۔ پہلی صدی ہجری میں تصوف کی اصطلاح استعمال نہیں ہوئی تھی، دوسری صدی ہجری کے اختتام تک بھی فنا و بقا اور توحید وجودی وغیرہ اصطلاحات کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ ہاں اس صدی میں اس کے دواعی شروع ہو گئے تھے۔ پھر بعد میں یہی اصطلاحات تصوف کے وجود کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں۔ تصوف کے بنیادی تصورات میں ایک اہم تصور محبت الہی ہے۔ تصوف کی تاریخ میں لفظ ‘محبت’ بڑی اہمیت کا حامل ہے جو بعد میں ترقی کرتے کرتے ‘عشق الہی’ کی منزل پر پہنچ گیا۔ مؤرخین نے تصوف کی تاریخ کو چھ ادوار میں تقسیم کیا ہے۔

پہلا دور عہد صحابہ کا ہے، دوسرا دور حضرت حسن بصری اور ان کے معاصرین کا ہے، تیسرا دور نویں صدی عیسوی سے بارہویں صدی تک کا دور ہے جس میں تصوف کے زیادہ تر افکار اور ان کی امتیازی خوبیاں پر مبنی ہے۔چوتھا دور تصوف میں جذب و سلوک کے ابتداء کا دور ہے۔ پانچواں دور تصوف کے مختلف سلسلوں کے وجود میں آنے کا دور ہے اور چھٹا دور پندرہویں صدی سے اٹھارہویں صدی تک کا دور ہے۔ انہیں ادوار میں تصوف کے مبادیات تیار ہوئے اور عروج تک پہنچے اور پھر صوفیہ دنیا کے اطراف و اکناف میں پھیل گئے۔یہ جس تہذیب میں بھی پہنچے وہاں اپنا اخلاص چھوڑا اور دنیا ان کی گرویدہ ہو گئی یہاں تک کہ ایران میں تصوف پہنچا تو ایرانی عناصر شامل ہوئے، بدھ مت کے یہاں آیا تو بدھ مت کے عناصر شامل ہوئے، ہندوازم میں شامل ہوا تو ہندوازم کی کہانیاں شامل ہوئیں۔ اس طرح تصوف کے عناصر جہاں جہاں پہنچے تو وہاں ہمدردی، محبت، اخلاص وغیرہ کے عناصر کو مضبوط کیا۔

2.6 سوالات

  • 1. پروفیسر شاہد علی عباسی نے تصوف کی تاریخ کو کتنے ادوار میں تقسیم کیا ہے؟
  • 2. تصوف کا دور اول کب سے شروع ہوتا ہے؟
  • 3. مسلمانوں کی تحصلیت سے مرو بیت، تصوف کے کس دور سے متعلق ہے؟
  • 4. شاہ ولی اللہ نے تصوف کو کتنے ادوار میں تقسیم کیا ہے؟

2.7 معاون کتب

  • 1. ہمعات۔۔ شاہ ولی اللہ دہلوی
  • 2. تصوف اور شعریت۔۔ پروفیسر عبدالحق انصاری اردو ترجمہ مفتی محمد مشتاق تجاوری
  • 3. کشف المحجوب۔۔عثمان بن علی ہجویری لاہوری (اردو ترجمہ)
  • 4. تزکیہ و احسان۔۔ مولانا ابو الحسن علی ندوی
از تحریر ڈاکٹر محمد آصف ملک اسسٹنٹ پروفیسر بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری جموں و کشمیر