ڈاکٹر وحید قریشی بطور مدون

0

ڈاکٹر وحید قریشی ایک ہی وقت میں محقق، نقاد، ادیب، استاد اور ایک بہترین قسم کے مدوّن ثابت ہوئے  ہیں۔ ان کے تدوینی کام پر بحث کرنے یا اس پر روشنی ڈالنے سے پہلے ضروری ہے کہ ڈاکٹر وحید قریشی صاحب کو اس حیثیت سے ایک دفعہ سامنے لانے کی کوشش کی جائے، جس حیثیت نے ان کو راتوں رات ادب کی دنیا کا ایک روشن ستارہ بنا دیا، اور ان کو ایک بہترین محقق اور نقاد کی حیثیت سے سامنے لایا۔ دراصل ان کا یہ کارنامہ تھا “شبلی کی حیات معاشقہ” ۔ جی ان کی بد نام زمانہ کتاب یا جس کو آپ مقالہ بھی کہہ سکتے ہیں وہ “شبلی کی حیات معاشقہ” ہی تھی۔ 1946ء اور 1947ء کے قریب شبلی شناسی کی ایک خاموش روایت میں گویا ایک بھونچال سا آ گیا۔ مذکورہ کتاب میں انہوں نے شبلی کی فارسی غزلوں اور ان کے خطوط کی روشنی میں ان کی فرائیڈ ین تحلیل نفسی کی تھی اور اس حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ!
“اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیئے کہ شبلی میں کوئی تضاد یا مصنوعیت تھی۔ کیونکہ ان کی نرگسیت ان کے دنیوی  مشاغل، علمی مشاغل، شاعری اور عورتوں کے عشق، لڑکوں کے عشق سب میں کارفرما نظر آتی ہے اور کہیں تضاد نہیں ہے۔ کیونکہ سب کا عمل ایک ہی ذہنی افق کا کرشمہ ہے۔”

 شبلی کی حیات معاشقہ کے اندر ڈاکٹر وحید قریشی نے شبلی کی نجی زندگی کے واقعات کی توضیح کی ہے۔ فرائیڈ کی طرح تحلیل نفسی کرتے ہوئے شبلی کی نفسیات کا جائزہ پیش کیا ہے۔ شبلی کی سوانح نگاری سے لے کر ان کی شاعری تک سب کچھ بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے شبلی کی حیات معاشقہ میں شبلی کی مذہب کے حوالے سے اور عمومی طور پر ان کی انتہا پسندی پر بھی مدلل بات کی ہے۔ ڈاکٹر وحید قریشی نے شبلی کی نرگسیت پر بھی بات کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ شبلی کی شاعری، سوانح نگاری، تاریخ اور نجی زندگی اور اس کے تمام طرح کے معاملات کے اندر بے انتہا نرگسیت پائی جاتی ہے۔ نرگسیت ایک ایسا جذبہ ہوتا ہے کہ جس کے تحت انسان میں انا پسندی، خود پسندی وغیرہ پیدا ہوتی ہے۔ انسان کو اپنی ہر ایک بات اور اپنا آپ سب کچھ سب سے بہتر نظر آنے لگ جاتا ہے اور باقی لوگوں کو اپنی نسبت کم تر سمجھنے لگ جاتا ہے۔ اسی چیز کو ہی ڈاکٹر وحید قریشی نے موضوع بحث بنایا ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر وحید قریشی نے شبلی کے عورتوں کے عشق پر بات کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ شبلی عطیہ فیضی کو پسند کرتے تھے۔ شبلی کی حیات معاشقہ کتاب کی بدولت ڈاکٹر وحید قریشی کو شہرت حاصل ہوئی۔

ڈاکٹر وحید قریشی کو اگر بطور مدون  دیکھا جائے تو انہوں نے بہت زیادہ تدوینی کام سر انجام دئیے ہیں۔  تدوین سب سے مشکل ترین کام ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ ایک عرق ریزی والا کام  ہے۔ بہت زیادہ Research ورک کرنا ہوتا ہے۔ 

مولانا الطاف حسین حالی کی “مقدمہ شعر و شاعری” جو اردو تنقید میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے، ڈاکٹر وحید قریشی نے اسے نئے سرے سے مرتب کیا ہے۔ اس تاریخ ساز کتاب پر کوئی تحقیق اور تنقید موجود نہ تھی۔  ڈاکٹر وحید قریشی نے مولانا الطاف حسین حالی کی شخصیت پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ 

ڈاکٹر وحید قریشی نے 15 اکتوبر 1971ء کو شہنشاہ ایران کے اڑھائی ہزار سالہ جشن کی مناسبت سے “ارمغان ایران” مجلس ترقی ادب لاہور میں مرتب کی۔ ارمغانِ ایران رسالہ صحیفہ میں وقتاََ فوقتاََ ادبیات فارسی سے متعلق شائع ہونے والے مقالات کا ایک انتخاب ہے۔ اس میں شامل سات مقالات میں سے چار مقالات غالب سے متعلق ہیں۔ غالب شناس کے حوالے سے ڈاکٹر وحید قریشی کی اہمیت کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ 25اپریل 1973ء سے 1982ء تک پنجاب یونیورسٹی میں غالب پروفیسر کے طور پر فائز رہے۔ ڈاکٹر صاحب نے غالب کو ہر پہلو سے سمجھا اور اس کو بیان کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ نفسیات سے گہرے لگاؤ اور مطالعے نے انہیں غالب کی نفسیاتی سطح پر تشریح کی طرف مائل کیا۔

مثنوی سحرالبیان کو مرتب کرنے والا کارنامہ ڈاکٹر وحید قریشی کا سب سے بڑا تدوینی کام سمجھا جاتا ہے۔ اس حوالے سے وہ گاہے بگاہے مضامین اور مقالاجات بھی مرتب کرتے رہے ہیں،  ان کے کچھ مضامین  کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ انہوں نے ایک مضمون، “میرحسن اور سحرالبیان” لکھا۔ جس میں میر حسن کے فن پر بحث کے ساتھ ساتھ سحرالبیان کی معنوی اور لفظی خوبیوں پر بھی روشنی ڈالی گئی۔ میر حسن کے دیگر حالات بھی درج کئے گئے ہیں۔ اس حوالے سے ڈاکٹر وحید قریشی نے سید احتشام حسین کے “تنقیدی جائزے” “مثنوی سحرالبیان ایک تہذیبی مطالعہ” از رضیہ سلطانہ، “مقالہ سحرالبیان تنقیدی” از گوپی چند نارنگ جلد دوئم اور دیگر مقالوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا تحقیقی نقطہ نظر مرتب کیا ہے۔ اس سے ڈاکٹر وحید قریشی کے  اصول تحقیق کھل کر ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ان کے مقالات میں یہ خصوصیت ہے کہ وہ کسی بھی تخلیق یا فن پارے کی باریکیاں سمجھ کر ان کو زندگی کی بنیادی قدروں سے ہم آہنگ کرتے ہیں۔

ڈاکٹر وحید قریشی نے میر حسن کی تشبیہات کے نظام پر بھی بحث کرتے ہوئے اس کو داخلی کیفیات کے اظہار کا وسیلہ قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ رنگوں کے استعمال اور ان کی معنویت کو بھی اجاگر کیا ہے۔ رنگوں کی نفسیاتی وجہ بھی پیش کی کی گئی ہے۔ اس طرح کردار نگاری کا تجزیہ بھی نفسیاتی تنقید کی ذیل میں آتا ہے۔ جہاں ڈاکٹر وحید قریشی نے سحرالبیان کے مرد کرداروں کی جفاکشی، عیش و عشرت، مقاصد کی لگن کا تذکرہ کیا ہے ۔ وہیں نسوانی کرداروں کی نفسی تحلیل بھی کرتے ہیں۔ ان کی نرگسیت کو اجاگر کرنے کے لئے ان کے ناموں کا حوالہ دیتے ہیں اور ان کی خود پسندی کو ان واقعات کے ذریعے بیان کرتے ہیں جو ان کو پیش آئے۔

میر حسن کے عہد میں کن محرکات نے ان کے ادبی شعور کی تشکیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے یہ ساری چیزیں تفصیل سے لکھ چھوڑی ہیں۔

تحریر امتیاز احمد کالم نویس افسانہ نگار
ڈاکٹر وحید قریشی بطور مدون 1
[email protected]