دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے تشریح

0

غزل کی تشریح:

دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے
موت ملے تو مفت نہ لوں ہستی کی کیا ہستی ہے

اس شعر میں شاعر نے صنعت تضاد کو خوبصورتی سے برتتے ہوئے یہ کہا ہے کہ مجھے کچھ معلوم نہیں ہے کہ آیا یہ دنیا مہنگی ہے کہ سستی ہے۔اگر اس سستی یا مہنگی دنیا میں مجھے مفت میں بھی موت ملے تو میں تب بھی نہ لوں گا۔کیونکہ اس ہستی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

آبادی بھی دیکھی ہے ویرانے بھی دیکھے ہیں
جو اجڑے اور پھر نہ بسے دل وہ نرالی بستی ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں بہت کچھ دیکھا ہے۔کبھی آبادی بھی دیکھنے کو ملی ہے تو کہیں ویرانے بھی دیکھنے میں آئے ہیں۔ مگر دل وہ ایک واحد اور نرالی بستی ہے کہ جو ایک بار اجڑ جائے وہ دوبارہ بسنا ناممکن ہوتا ہے۔

جان سی شے بک جاتی ہے ایک نظر کے بدلے میں
آگے مرضی گاہک کی ان داموں تو سستی ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ جان ایک ایسی حقیر شے ہے کہ کبھی کبھی اس کی قیمت فقط ایک نظر ہوتی ہے۔انسان ایک نظر کے بدلے اکثر اپنے دل و جان کسی پر قربان کر بیٹھتا ہے۔ آگے لینے والے یعنی محبوب کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ اسے خریدے یا نہ حالانکہ ان داموں یہ سودا ہے تو بہت سستا ہے۔

جگ سونا ہے تیرے بغیر آنکھوں کا کیا حال ہوا
جب بھی دنیا بستی تھی اب بھی دنیا بستی ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ تمھارے بغیر اے محبوب میری دنیا بالکل سونی اور اداس ہے۔ تمھیں دیکھے بغیر میری آنکھوں کا کیا حال ہے۔ مگر یہ دنیا تو تب بھی آباد تھی بس رہی تھی اب بھی بس رہی ہے۔بس اس میں خوشی اور سکون مفقود ہے۔

آنسو تھے سو خشک ہوئے جی ہے کہ امڈا آتا ہے
دل پہ گھٹا سی چھائی ہے کھلتی ہے نہ برستی ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ جو آنسو میری آنکھوں میں تھے وہ اب سوکھ چکے ہیں۔مگر اس کے باوجود دل ہے کہ وہ بار بار رونے کو امڈ آتا ہے۔دل پہ اداسی کی ایک ایسی گھٹا سی چھائی ہوئی ہے کہ نہ تو یہ اداسی مٹتی ہے اور نہ ہی یہ گھٹا کھل کر برستی ہے۔

دل کا اجڑنا سہل سہی بسنا سہل نہیں ظالم
بستی بسنا کھیل نہیں بستے بستے بستی ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اے ظالم محبوب دل کا اجڑنا تو بہت آسان ہے مگر اس دل کا بسنا یا کسی کو دل میں بسانا آسان نہیں ہے۔نہ۔ہی اجڑے دل کو دوبارہ سے آباد کرنا آسان ہے۔اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ جیسے کسی بستی کا بسانا کوئی کھیل یا آسان کام نہیں ہوتا ہے بلکہ نہ جانے کتنے ہی عرصے میں بستے بستے یہ بستی آباد ہوتی ہے۔

فانیؔ جس میں آنسو کیا دل کے لہو کا کال نہ تھا
ہائے وہ آنکھ اب پانی کی دو بوندوں کو ترستی ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میری وہ آنکھیں جن میں آنسوؤں تو کیا دل کے ارمانوں کا لہو بھی آنسو بن کر برسا کرتا تھا۔اب میری وہی آنکھیں پانی کی دو بوندوں کے لیے بھی ترس رہی ہیں۔

سوالوں کے جواب لکھیے:

سوال نمبر01:شاعر نے دل کو نرالی بستی کیوں کہا ہے؟

شاعر نے دل کو نرالی بستی اس لیے کہا ہے کہ انسانی دل وہ ایک نرالی بستی ہے کہ اگر وہ ایک بار اجڑ جائے تو اسے دوبارہ بسانا ایک ناممکن سی بات ہوتی ہے۔

سوال نمبر02:’ہستی کی کیا ہستی ہے’ سے شاعر کی کیا مراد ہے؟

اس سے شاعر کی مراد ہے کہ کسی ہستی کی بھلا کیا اہمیت ہے۔

سوال نمبر03:’بستی بسنا کھیل نہیں،بستے بستے بستی ہے’ اس مصرعے میں پہلے لفظ بستی اور دوسرے لفظ بستی کے فرق کو واضح کریں۔

اس مصرعے میں پہلے لفظ بستی سے مراد چھوٹا سا علاقہ گاؤں یا گھر ہے۔جبکہ دوسری بستی سے مراد بسنا یا آباد ہونا ہے۔

عملی کام:

اس غزل کے قافیوں کی نشاندہی کیجیے۔

سستی،ہستی،بستی، برستی،ترستی، وغیرہ۔

ذیل کے الفاظ کو جملوں میں استعمال کیجیے۔

جگ اللہ اس سارے جگ کا خالق و مالک ہے۔
بستی احمد شہر سے دور ایک بستی میں رہتا تھا۔
گھٹا دیکھتے ہی دیکھتے آسمان پر کالی گھٹا چھا گئی۔
سہل نت نئی مشینوں نے انسانی زندگی کو بہت سہل بنا دیا ہے۔
کال تھر کے علاقے میں ہر سال پانی اور خوراک کا کال پیدا ہو جاتا ہے۔
لہو شہیدوں کا لہو کبھی رائیگاں نہیں جاتا ہے۔