نظم ایک لڑکا کا خلاصہ

0

اختر الایمان کی نظم “ایک لڑکا” ان کے شعری مجموعے “یادیں” سے لی گئی ہے۔چار غیر مساوی بندوں پر مشتمل اس نظم کی ہیت “نظمِ معری” ہے۔ یہ نظم دسمبر 1954ء میں لکھی گئی۔ جس میں شاعر نے اپنے بچپن اور ماضی کے خیالات کو یکجا کرکے پیش کیا ہے۔بچپن میں اخترالایمان کوجس طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا پڑا اور اپنی پسندیدہ فضا اور اشیاء کو ترک کرنا پڑا،اس سے لاشعوری طورپروہ بے حد متاثر ہوئے اورعمربھروہ واقعات انھیں یادآتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نظم میں ان کا ذاتی عکس پایا جاتا ہے۔

اس نظم میں شاعر نے اپنے بچپن اور ماضی کے واقعات کو موضوع بنایا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اس کا بچپن مشرق کی طرف کی کچھ اونچی آبادیوں کے ٹیلوں پہ گزرا۔جہاں وہ بچہ کبھی آموں کے باغات ، کبھی کھیتوں کے مینڈوں، جھیل کے پانی اور اپنی بستی کے ادھ ننگے بچوں کے ساتھ اپنا وقت گزارتا تھا۔یہ بچہ کبھی تتلیوں کا تعاقب کرتے کرتے ویران راستوں کی جانب نکل جاتا تھا تو کبھی پرندوں کے گھونسلوں کی طرف اور کبھی جلتی ریت یا ٹھنڈی ہوائیں اس کی منزل ہوتیں۔کم سن حسینوں کے ساتھ یہ اچھا وقت گزارتا اور کبھی یہ بگولے کی مانند خود کو ہوا میں اڑتا ہوا محسوس کرتا تھا۔

یہ آوارہ و آزاد منش لڑکا پرندوں کی طرح درختوں کی شاخوں میں جھومتا اور چھپتا پھرتا تھا۔شاعر کہتا ہے کہ اب مجھے اکثر ویڈا ایک لڑکا دکھائی دیتا ہے جیسے تیز چشموں کا بہتا ہوا پانی ہو۔ یہ لڑکا اب کسی بلا کی طرح سے میرا پیچھا کرتا ہے۔یوں لگتا ہے کہ جیسے ہر موڑ پر میراچکوئی ہم زاد ساتھی موجود ہو۔اسے کسی سائے کی مانند میں ہر جگہ اپنے ساتھ موجود پاتا ہوں۔یہ لڑکا کسی مفرور ملزم کی طرح سے میرے تعاقب میں ہے اور مجھ سے ایک سوال پوچھتا ہے کہ کیا اختر الایمان تم ہی ہو؟

شاعر اللہ تعالیٰ کی عطا کی گئی نعمتوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اللہ نے زمین کو کسی مخمل کے بستر کی طرح بچھایا ہے۔میں اس بات کا بھی اقرار کرتا ہوں کہ اس زمین پہ اللہ تعالیٰ نے آسمان کے ذریعے ایک سایہ کیا ہے جس کو سورج اور تاروں سے بخشا گیا ہے۔ اس دنیا کو سنوارا اور اسے ایک مقررہ حد کا پابند کیاگیا۔اللہ تعالیٰ نے خاک اور پتھر کی چٹانوں کو چیر کر اس میں سے رواں دریا جاری کیے۔انسان کو اپنا نائب بنا کر اس دنیا پر حکمرانی کے لیے تخلیق کیا۔یہاں کے سمندر اور کانوں کو موتیوں اور ہیرے جواہرات سے بھر دیا۔

اس دھرتی کی ہوائیں مست کر کے خوشبو سے بھر دی گئیں۔اللہ کی ذات ہم سب پہ حکمران اور قادر و مطلق اور واحد ذات ہے۔ اللہ کی ذات کو ہی قدرت حاصل ہے کہ وہ اندھیرے سے اجالے کو جدا کرتا ہے۔اس ذات کی سخاوت کو پہچانتے ہوئے میں اس بات کا معترف ہوں کہ اس نےکنجوسوں کو بھی بادشاہت سے نوازا ہے اور مجھے مفلسی عطا کی۔اس نے فضول لوگوں کو دولت عطا کرکے غریبوں کو اس دولت کا خزانچی بنایا۔لیکن وہ لڑکا جس کی شبیہ شاعر کا تعاقب کر رہی ہے شاعر کہتا ہے کہ میں جب بھی کسی کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہوں تو وہ لڑکا مجھ سے پوچھتا ہے کہ کیا اختر الایمان تم ہی ہو؟ یعنی وہ لڑکا اپنی خوداری مار کر دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہے۔

اللہ تعالیٰ نے معیشت یعنی پیسے کا تمام لین دین دوسرے لوگوں کے قبضے میں دے رکھا ہے جبکہ میرے پاس فقط ایک ذہانت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اور تمام عمر مجھے یہی بار ڈھونا ہے۔یہ سلسلہ تمام عناصر کے بکھرنے اور چلتی نبض کے رکنے تک جاری رہے گا۔ صبح کا گیت یا رات کا نغمہ کچھ بھی دولت مندوں کے آگے دولت کے حصول کی خاطر گانا ہے۔ کبھی اپنے ہی گیت کو ان کا کہہ کر ان کے سامنے مسکرانا ہے۔ تمام عمر لکھ کر اور راتوں کو جاگ کر کی گئی محںت کو ایک کھوٹے سکے کی طرح ان کے سامنے پیش کرنا ہے۔

شاعر کہتا ہے کبھی فرصت کے کسی لمحے جب میں اپنے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے اپنی حیثیت ایک آبلے کی طرح محسوس ہوتی ہے کہ جس نے ابھی پھوٹ جانا ہے۔ المختصر میں کسی صبح گاہی کی طرح گردش میں ہوں اور ہمیشہ جب کبھی میں صبح کی امید میں رات کا دامن پکڑتا ہوں تو یہ لڑکا مجھ سے پھر سے وہی سوال دہراتا ہے کہ تم کون ہو کیا تم اختر الایمان ہی ہو۔یہاں شاعر کے بچپن کی خوداری آ کر اسے بار بار جھنجھوڑتی ہے۔شاعر کہتا ہے کہ جب یہ لڑکا دوبارہ مجھ سے یہ سوال کرتا ہے کہ تم کون ہو تو میں تنگ آ کر اسے کہتا ہوں کہ دیوانہ، سر پھرا اور بے چین لڑکا جس کی تمھیں تلاش ہے اور تم ہر وقت پوچھتے ہو وہ تو کب کا مر چکا ہے۔اسے فریب اور دھوکے کا کفن دے کر خود میں نے اپنے ہاتھوں سے خواہشات اور آرزوؤں کی قبر میں اتارا ہے۔

شاعر کہتا ہے کہ میں اس لڑکے کو کہتا ہوں کہ وہ لڑکا مر چکا ہے جو ایک ایسے شعلے کی مانند تھا کہ جس کی خواہش تھی کہ وہ اس دنیا کو کسی تنکے یا گھاس پھوس کی طرح سے جلا کر اڑا دے گا۔مگر وہ لڑکا جو شاعر کے تعاقب میں ہے مسکرا کر شاعر سے کہتا ہے یہ سب تو جھوٹ ہے دیکھومیں تو زندہ ہوں اور تمھارے ساننے موجود ہوں۔ یوں شاعر نے اس نظم میں اپنی جوانی کی زندگی کی بے بسی اور مجبوریوں کی ایک تصویر کو پیش کیا ہے۔