Ek Makda Aur Makkhi Tashreeh | نظم ایک مکڑا اور مکھی کی تشریح

0
  • کتاب” اپنی زبان”برائے ساتویں جماعت
  • سبق نمبر16:نظم
  • شاعر کا نام: علامہ اقبال
  • نظم کا نام: ایک مکڑا اور مکھی

نظم ایک مکڑا اور مکھی کی تشریح

اک دن کسی مکھی سے یہ کہنے لگا مکڑا
اس راہ سے ہوتا ہے گزر روز تمہارا
لیکن مری کٹیا کی نہ جاگی کبھی قسمت
بھولے سے کبھی تم نے یہاں پاؤں نہ رکھا
غیروں سے نہ ملیے تو کوئی بات نہیں ہے
اپنوں سے مگر چاہیے یوں کھنچ کے نہ رہنا
آؤ جو مرے گھر میں تو عزت ہے یہ میری
وہ سامنے سیڑھی ہے جو منظور ہو آنا
مکھی نے سنی بات جو مکڑے کی تو بولی
حضرت کسی نادان کو دیجے گا یہ دھوکا
اس جال میں مکھی کبھی آنے کی نہیں ہے
جو آپ کی سیڑھی پہ چڑھا پھر نہیں اترا

یہ بند علامہ محمد اقبال کی نظم”ایک مکڑا اور مکھی” سے لیا گیا ہے۔اس بند میں شاعر نے ایک مکڑے اور مکھی کی گفتگو کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک دن ایک مکھی سے ایک مکڑا مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ میں روزانہ تمھیں یہاں سے گزرتے ہوئے دیکھتا ہوں۔لیکن کبھی میرے گھر کی قسمت نہیں جاگی اور نہ کبھی بھولے سے بھی تم نے یہاں قدم رکھا ہے۔ تم غیروں سے ملتی ہو چلو کوئی بات نہیں مگر ہم تو ایک برادری کے ہیں اور اپنوں سے یوں کھنچ کر رہنا اچھی بات نہیں ہوتی ہے۔اگر تم کبھی میرے گھر پہ آؤ تو یہ میرے لیے عزت اور اعزاز کی بات ہو گی۔ اگر میرے گھرآنا چاہتی ہو تو سامنے سیڑھی موجود ہے وہاں سے چڑھ کر آ جانا۔مکڑے کی بات سن کر مکھی کہنے لگی کہ مکھی تمھارے فریب کے جال میں بالکل نہیں آئے گی کیوں کہ تمھارے گھر کی سیڑھیوں پہ جو ایک بار قدم رکھ لے وہ پھر کبھی اتر نہیں پاتا ہے۔

مکڑے نے کہا واہ فریبی مجھے سمجھے
تم سا کوئی نادان زمانے میں نہ ہوگا
منظور تمہاری مجھے خاطر تھی وگرنہ
کچھ فائدہ اپنا تو مرا اس میں نہیں تھا
اڑتی ہوئی آئی ہو خدا جانے کہاں سے
ٹھہرو جو مرے گھر میں تو ہے اس میں برا کیا
اس گھر میں کئی تم کو دکھانے کی ہیں چیزیں
باہر سے نظر آتا ہے چھوٹی سی یہ کٹیا
لٹکے ہوئے دروازوں پہ باریک ہیں پردے
دیواروں کو آئینوں سے ہے میں نے سجایا
مہمانوں کے آرام کو حاضر ہیں بچھونے
ہر شخص کو ساماں یہ میسر نہیں ہوتا
مکھی نے کہا خیر یہ سب ٹھیک ہے لیکن
میں آپ کے گھر آؤں یہ امید نہ رکھنا
ان نرم بچھونوں سے خدا مجھ کو بچائے
سو جائے کوئی ان پہ تو پھر اٹھ نہیں سکتا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ مکھی کی بات سن کر مکڑا جواب میں یوں گویا ہوا کہ واہ تم نے مجھے دھوکے باز سمجھا۔ تمھارے جیسا بے وقوف کوئی نہیں ہو گا جبکہ میں تو محض تمھاری خاطر داری کے کیے تمھیں بلا رہا تھا وگرنہ اس میں میرا کوئی فائدہ نہ تھا۔تم نجانے کہاں کہاں سے اڑتی ہوئی آتی ہو اگر میرے گھر ٹھہر بھی جاؤں گی تو اس میں برائی کیا ہے۔ میرا یہ گھر جو باہر سے ایک چھوٹی سی کٹیا دکھائی دیتی ہے اس کے اندر تمھیں دکھانے کے لیے بہت سا سامان تھا۔اس کے دروازوں پہ باریک پردے جبکہ درودیوار شیشے کے ہیں۔ان دیواروں کو آئینے سے سجا رکھا ہے اور مہمانوں کے واسطے یہاں پہ نرم بستر موجود ہیں۔ مکھی سن کر یہ کہنے لگی کہ یہ سب ٹھیک ہے مگر میں تمھارے گھر آؤں گی یہ امید کبھی نہ رکھنا۔کیوں کہ تمھارے بچھائے نرم بستروں پہ جا ایک بار بیٹھ جاتا ہے پھر ان سے اٹھ نہیں سکتا ہے۔

مکڑے نے کہا دل میں سنی بات جو اس کی
پھانسوں اسے کس طرح یہ کم بخت ہے دانا
سو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں
دیکھو جسے دنیا میں خوشامد کا ہے بندا
یہ سوچ کے مکھی سے کہا اس نے بڑی بی
اللہ نے بخشا ہے بڑا آپ کو رتبہ
ہوتی ہے اسے آپ کی صورت سے محبت
ہو جس نے کبھی ایک نظر آپ کو دیکھا
آنکھیں ہیں کہ ہیرے کی چمکتی ہوئی کنیاں
سر آپ کا اللہ نے کلغی سے سجایا
یہ حسن یہ پوشاک یہ خوبی یہ صفائی
پھر اس پہ قیامت ہے یہ اڑتے ہوئے گانا
مکھی نے سنی جب یہ خوشامد تو پسيجي
بولی کہ نہیں آپ سے مجھ کو کوئی کھٹکا
انکار کی عادت کو سمجھتی ہوں برا میں
سچ یہ ہے کہ دل توڑنا اچھا نہیں ہوتا
یہ بات کہی اور اڑی اپنی جگہ سے
پاس آئی تو مکڑے نے اچھل کر اسے پکڑا
بھوکا تھا کئی روز سے اب ہاتھ جو آئی
آرام سے گھر بیٹھ کے مکھی کو اڑایا

اس بند میں شاعر نے نظم کے خیال کا نچوڑ پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مکڑا مکھی کی بات سن کر سوچنے لگا کہ یہ کمبخت تو بہت ہوشیار ہے لہذا اس کو کس طرح پھانسا جائے۔سو اس نے مکھی کو پھسانے کے لیے اس کی خوشامد کرنے کا سوچا کہ آج کل دنیا میں بہت سے کام خوشامد سے باآسانی نکل آتے ہیں۔یہ سوچ کر اس نے مکھی سے کہا کہ بڑی بی اللہ نے آپ کو بڑا رتبہ بھی دیا ہے۔جو آپ کو ایک نظر دیکھ لے اسے آپ کی صورت سے محبت ہو جائے گی۔آپ کی آنکھیں یوں روشن ہیں کہ جیسے ہیرے کی کنیاں ہوں اور سر پہ بھی تاج کی طرح ایک کلغی سجا رکھی ہے۔اس پہ آپ کا خوبصورت لباس اس کی صفائی اور آپ کا حسن اور آپ کا اڑتے ہوئے گانا ان تمام پہ قیامت بن کہ ٹوٹتا ہے۔اپنی خوشامد سن کر مکھی کا دل پسیجا اور وہ کہنے لگی کہ مجھے تم سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔میں نے انکار کیا اسے برا سمجھتی ہوں کیوں کہ کسی کا دل توڑنا اچھی بات نہیں ہے۔ یہ کہہ کر وہ جیسے ہی اپنی جگہ سے اڑی مکڑے نے اچھل کر اسے پکڑ لیا وہ کئی دن سے بھوکا تھا اس نے خوب مزے سے یہ مکھی کھائی ۔ سچ ہے خوشامد بری بلا ہے۔

سوچیے اور بتایئے:

مکڑا مکھی کو اپنے گھر کیوں بلانا چاہتا تھا ؟

مکڑا مکھی کو اپنے گھراس لیے بلانا چاہتا تھا کہ کئی دنوں سے بھوکا تھا اور وہ مکھی کو کھانا چاہتا تھا

”جو آپ کی سیڑھی پر چڑھا پھر نہیں اترا‘ سے کیا مراد ہے؟

اس سے مراد یہ ہے کہ جو بھی مکڑے کے گھر میں جاتا تھا وہ بھی واپس نہیں آتا تھا۔

مکھی نے مکڑے کو فریبی کیوں کہا؟

کیونکہ مکھی مکڑے کی فطرت سے واقف تھی کہ وہ دھوکے سے بلا کر دوسروں کو کھا جاتا ہے۔

مکڑے نے اپنے گھر کی کیا کیا خوبیاں بیان کی ہیں؟

مکڑے نے مکھی سے کہا کہ اس نے اپنے گھر میں باریک پردے لگا رکھے ہیں، دیواروں پر شیشے لگے ہیں اور مہمانوں کے لیے نرم بچھونے بھی ہیں۔

مکھی مکڑے کی باتوں میں کس طرح آگئی ؟

مکڑے نے مکھی کی تعریفیں شروع کر دیں اور اس کی خوشامدیں کیں جس کی وجہ سے وہ اس کی باتوں میں آگئی۔

مصرعوں کو مکمل کیجیے:

اس راہ سے ہوتا ہے گزر روز تمہارا
اپنوں سے مگر چاہیے یوں کھنچ کے نہ رہنا
اڑتی ہوئی آئی ہو خدا جانے کہاں سے
مکڑے نے کہا دل میں سُنی بات جو اس کی
مکھی نے سنی جب یہ خوشامد تو پسیجی
آرام سے گھر بیٹھ کے مکھی کو اڑایا

ان لفظوں کے متضاد لکھیے:

عزت ذلت
انکار اقرار
خوبی خامی
محبت نفرت
حاضر غائب/غیر حاضر
آرام بے آرامی
فائدہ نقصان
نادان عقل مند
منظور نامنظور

املا درست کیجئے:

کسمت قسمت
آدت عادت
کیامت قیامت
سفائی صفائی
ھسن حسن
کلگی کلغی
کھاتر خاطر
منجور منظور
اجت عزت

اشعار مکمل کیجیے:

اک دن کسی مکھی سے یہ کہنے لگا مکڑا
اس راہ سے ہوتا ہے گزر روز تمہارا

مکھی نے سنی بات جو مکڑے کی تو بولی
حضرت کسی نادان کو دیجے گا یہ دھوکا

یہ حسن یہ پوشاک یہ خوبی یہ صفائی
پھر اس پہ قیامت ہے یہ اڑتے ہوئے گانا

مکھی نے کہا خیر یہ سب ٹھیک ہے لیکن
میں آپ کے گھر آؤں یہ امید نہ رکھنا

بھوکا تھا کئی روز سے اب ہاتھ جو آئی
آرام سے گھر بیٹھ کے مکھی کو اڑایا

نیچے دیے ہوئے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجیے:

گزر پرسوں رات ہمارا گزر ایک جنگل کے قریب سے ہوا۔
منظور ہمیں آپ کی تمام شرائط منظور ہیں۔
نادان چھوٹے بچے نادان ہوتے ہیں۔
فریبی اللہ پاک ہمیشہ فریبی لوگوں سے بچائے۔
خاطر اس نے اپنے مہمانوں کی خوب خاطر کی۔
باریک یہ کپڑا بہت باریک ہے۔
آرام ڈاکٹر نے مریض کو آرام کی تلقین کی۔
خوشامد اکثر لوگ دوسروں کی جھوٹی خوشامد کرتے ہیں۔

محاوروں کو جملوں میں استعمال کیجیے:

قسمت جاگنا احمد سے رشتے کے بعد آمنہ کی تو گویا قسمت جاگ اٹھی۔
کھنچ کے رہنا میری غربت کی وجہ سے اکثر رشتے دار مجھ سے کھنچ کر رہتے ہیں۔
دل پسیجنا یتیم بچوں کو دیکھ کر اس کا دل پسیجنے لگا۔
پاؤں رکھنا جیسے ہی ہم نے نئے گھر میں پاؤں رکھا قسمت ہم پر مہرباں ہونے لگی۔
دل توڑنا کسی کا دل توڑنا بہت بری عادت ہے۔