Advertisement
Advertisement

نظم فرضی لطیفہ اکبر الہ آبادی کی نظم ہے۔ جس کے اشعار کی تعداد 11 ہے۔اس نظم میں شاعر نے دورِ حاضر کے عاشقوں کے عشق پہ چوٹ کی ہے۔نظم میں لیلی مجنوں کی ایک فرضی داستان کو بیان کیا گیا۔ نظم کے پیرائے میں شاعر نے لیلی و مجنوں کی صورت میں دورِ حاضر کے نوجوان کے ناکام عشق کی داستان کو بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اکبر مسلمانوں کا خداحافظ ہے کہ میں نے ان کی خوشحالی اور ترقی کی امید باندھی ہے۔

Advertisement

یہ مسلمان ایک واحد ذات اور حق کہ عاشق ہیں اور مجھے امید ہے کہ یہ کبھی اپنی راہ سے نہ بھٹکیں گے اور نہ کبھی کسی اور کے عشق میں گرفتار ہوں گے۔ مگر آج یہاں میں تمھیں ایک مت گھڑت اور فرضی لطیفہ سناتا ہوں کہ جسے میں نے اپنے طور پہ لکھا ہے کہ ایک روز مجنوں سے لیلی کی ماں نے یہ کہا کہ اگر وہ ایم اے پاس کر لے تو وہ اس کو اپنی بیٹی سے شادی کروادے گی۔

لیلیٰ کی ماں کی یہ انوکھی شرط سن کر مجنوں نے کہا کہ کہاں عشق اور کہاں یہ کالج اور پڑھائی۔ یعنی یہ خواری اس کے مزاج سے میل نہیں کھاتی ہے یہی وجہ ہے کہ مجنوں کو لیلیٰ کی ماں کی یہ بات ہر گز پسند نہ آئی۔ مجنوں نے لیلیٰ کی ماں کو جواب دیا کہ اسے اپنے دل کا خون منظور ہے لیکن دماغ کی مغز ماری کسی صورت بھی نہیں کیونکہ یہ ایک ایسی ہی بات ہے کہ جیسے ہرن پہ گھاس لادی جائے۔ جو کہ ایک نا ممکن بات ہے۔ کیونکہ ہرن اس کام کے لیے تخلیق نہیں ہوا ایسے ہی وہ کالج اور پڑھائی کے لیے نہیں بنا ہے۔

Advertisement

آخر مجنوں نے فیصلہ سنایا کہ اگر لیلیٰ سے ملاپ اور اس کو پانےکی شرط یہی ہے کہ میرا ایم اے پاس ہو نا ضروری ہےتو میں اپنے دل کی اس خوشی اور امید سے بھی دستبردار ہونے کو تیار ہوں۔

Advertisement

Advertisement

Advertisement