محترمہ فاطمہ جناح کی خدمات ، سوالات و جوابات

0
  • نیشنل بک فاؤنڈیشن “اردو” برائے آٹھویں جماعت
  • سبق نمبر: 09
  • سبق کا نام: مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح

خلاصہ سبق:

پاکستان کی تعمیر و ترقی میں جن خواتین نے کردار ادا کی ان میں محترمہ فاطمہ جناح قابل ذکر ہیں۔آپ قائد اعظم رحمۃ علیہ کی بہن تھیں۔قائد اعظم فرماتے تھے کہ فاطمہ روشنی اور امید کی کرن ہیں۔محترمہ فاطمہ جناح 31 جولائی1893ء کو پیدا ہوئیں۔محترمہ فاطمہ جناح سات بہن بھائیوں میں سب چھوٹی تھیں۔

سینئر کیمبرج کا امتحان پاس کرنے کے بعد 1919ء میں ڈاکٹراحمد ڈینٹل کالج سے ڈگری حاصل کر کے پریکٹس شروع کر دگی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان میں لڑکیوں بالخصوص مسلمان لڑکیوں کی تعلیم کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی جاتی تھی۔ پابندیوں کے اس دور میں محترمہ فاطمہ جناج نے بہت حوصلے اور جذبے کا مظاہرہ کیا اور دندان سازی کی تعلیم حاصل کر کے عملی زندگی میں قدم رکھ کر کلینک قائم کر کے پر کیکٹس شروع کر دی۔

اپنے اخلاق اور نرم خوئی کے سبب جلد ہی آپ اردگرد کے علاقوں میں ایک انسان دوست خاتون کی حیثیت سے مشہور ہو گئیں۔آپ کے والدین بچپن میں ہی فوت ہو گئے اس لیے آپ اپنے بھائی کی طرح کام ،کام اور بس کام کے جذبے پر یقین رکھتی تھیں۔

قائد اعظم کی شریک حیات کے انتقال کے بعد محترمہ فاطمہ جناح مستقل طور پر اپنے بھائی کے پاس آئیں اور اُن کی گونا گوں سیاسی مصروفیات میں اُن کا خیال رکھا۔ قائد اعظم کا حوصلہ اورسیاسی طاقت انھی کی مرہون منت تھی۔ قائد اعظم نے خود اعتراف کیا کہ وہ کوئی بھی سیاسی فیصلہ اپنی بہن کے مشورے کے بغیر نہیں کرتے تھے ۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ عظیم مقصد کے حصول کے لیے ان تھک محنت لگن اور کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔

قائد اعظم کی مصروف ترین زندگی میں محترمہ فاطمہ جناح ایک گھنے سایہ دار درخت کی مانند تھیں، جو ہر وقت اپنے پیارے بھائی کی راحت و آرام کا باعث بنی رہیں۔ محترمہ فاطمہ جناح اپنی ساری زندگی میں جذبہ خدمت سے سرشار ہیں۔ مشکل سے مشکل وقت میں بھی اپنے بھائی قائد اعظم کے شانہ بہ شانہ کھڑی رہیں اور ان کے عزم و ہمت میں اضافے کا باعث بنتی رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بابائے قوم نے ایک آزاد اور خود مختار ملک پاکستان کے قیام کو ممکن بنانے کے لیے ان تھک جدوجہد جاری رکھی۔

محترمہ فاطمہ جناح آل انڈیا مسلم لیگ کی صوبائی ورکنگ کمیٹی کی رکن رہیں۔ محترمہ فاطمہ جناح نے خواتین کے حقوق ، خواتین کی بیداری اور ملکی امورمیں ان کی شمولیت کے حوالے سے شان دارخدمات سر انجام دیں (۲۲ فروری ۱۹۴۹ء کو آل پاکستان ویمنز ایسوی ایشن (اپل) کا قیام عمل میں لایا گیا تو بیگم خواجہ ناظم الدین کے ہمراہ محترمہ فاطمہ جناح اس کی پہلی سر پرست اعلی قرار پائیں۔ ایوا کا مرکزی دفتر کراچی میں قائم کیا۔اس تنظیم نے پاکستانی خواتین کی فلاح و بہبود صحت تعلیم اور قانونی و مالی امداد کے لیے سرگرم اس ادارے نے خواتین کو مختلف سہولتیں دینے دلچسپیوں اور ضروریات کا خیال رکھنےاور ان کے ہنر کو اجاگر کرنے میں بھی ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔

انھوں نے خواتین کو اس امر سے آگاہ کیا کہ انھیں ملکی ترقی کے لیے میدان میں اترنا ہو گا۔آپ نے اپوا کے پلیٹ فارم سے ملک کے طول وعرض میں خواتین کے حقوق کے لیے آوازبلند کی۔ اُن میں تعلیم ، شعور کی بیداری کی اہمیت کی غرض سے ایک مہم بھی چلائی ۔ یہ آپ کی کوششوں کا ہی ثمر ہے کہ آج پاکستانی معاشرے کا کوئی ایسا شعبہ یا پیشہ نہیں ہے جس میں خواتین اپنا بھرپوراور نمایاں کردارادا نہ کررہی ہوں۔

محترمہ فاطمہ جناح نے ۱۹۲۵ء میں صدارتی امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں بھی حصہ لیا۔ آپ کا کردار پاکستانی خواتین کے لیے مشعل راہ ہے۔ قائد اعظم کے آخری ایام میں آپ نےان کی خدمت کی۔ آپ کی تمام خدمات کے سلسلے میں قوم کی طرف سے آپ کو مادر ملت کا لقب دیا گیا۔

محترمہ فاطمہ جناح نے اپنے بھائی کے شانہ بشانہ ملک کی تعمیر و ترقی میں نہ صرف حصہ لیا بلکہ خواتین کے لیے عملی جدوجہد کی ایک مثال بھی قائم کی ۔انھوں نے “میرا بھائی” کے نام سے کتاب لکھ کر قوم کو قائد کی زندگی کے کئی پہلوؤں سے روشناس کرایا اور ہماری زندگی پر بھی انمٹ نقوش چھوڑے۔آپ قائد اعظم کے پہلو میں سپردِ خاک ہیں۔

مشق:

مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات لکھیں:

قائد اعظم اپنی بہن کے متعلق کیا کہا کرتے تھے؟

قائد اعظم فرماتے تھے کہ فاطمہ روشنی اور امید کی کرن ہیں۔

محترمہ فاطمہ جناح کس فلسفے پر یقین رکھتی تھیں؟

محترمہ فاطمہ جناح اپنے بھائی کی طرح کام ،کام اور بس کام کے جذبے پر یقین رکھتی تھیں۔

محترمہ فاطمہ جناح نے اپنے بھائی قائد اعظم کا خیال کس انداز میں رکھا؟

قائد اعظم کی شریک حیات کے انتقال کے بعد محترمہ فاطمہ جناح مستقل طور پر اپنے بھائی کے پاس آئیں اور اُن کی گونا گوں سیاسی مصروفیات میں اُن کا خیال رکھا۔ قائد اعظم کا حوصلہ اورسیاسی طاقت انھی کی مرہون منت تھی۔ قائد اعظم نے خود اعتراف کیا کہ وہ کوئی بھی سیاسی فیصلہ اپنی بہن کے مشورے کے بغیر نہیں کرتے تھے۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ عظیم مقصد کے حصول کے لیے ان تھک محنت لگن اور کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔ قائد اعظم کی مصروف ترین زندگی میں محترمہ فاطمہ جناح ایک گھنے سایہ دار درخت کی مانند تھیں، جو ہر وقت اپنے پیارے بھائی کی راحت و آرام کا باعث بنی رہیں۔ محترمہ فاطمہ جناح اپنی ساری زندگی میں جذبہ خدمت سے سرشار ہیں۔ مشکل سے مشکل وقت میں بھی اپنے بھائی قائد اعظم کے شانہ بہ شانہ کھڑی رہیں اور ان کے عزم و ہمت میں اضافے کا باعث بنتی رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بابائے قوم نے ایک آزاد اور خود مختار ملک پاکستان کے قیام کو ممکن بنانے کے لیے ان تھک جدوجہد جاری رکھی۔ محترمہ فاطمہ جناح آل انڈیا مسلم لیگ کی صوبائی ورکنگ کمیٹی کی رکن رہیں۔

آل پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن (اپور) کے قیام کا کیا مقصد تھا؟

یہ ایک ایسی تنظیم تھی جس میں کسی کا کوئی ذاتی مفادنہ تھا اور نہ ہی یہ ایک منافع بخش ادارہ تھا کہ جس کے ذریعے کوئی مالی فائدہ اٹھایا جاسکتا۔بلکہ اس تنظیم نے پاکستانی خواتین کی فلاح و بہبود صحت تعلیم اور قانونی و مالی امداد کے لیے سرگرم اس ادارے نے خواتین کو مختلف سہولتیں دینے دلچسپیوں اور ضروریات کا خیال رکھنےاور ان کے ہنر کو اجاگر کرنے میں بھی ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔

محترمہ فاطمہ جناح کو مادرملت کا لقب کیوں دیا گیا ؟

آپ کی تمام خدمات کے سلسلے میں قوم کی طرف سے آپ کو مادر ملت کا لقب دیا گیا۔

خواتین کے حوالے سے محترمہ فاطمہ جناح کی خدمات پر روشنی ڈالیں۔

محترمہ فاطمہ جناح نے خواتین کے حقوق ، خواتین کی بیداری اور ملکی امورمیں ان کی شمولیت کے حوالے سے شان دارخدمات سر انجام دیں (۲۲ فروری ۱۹۴۹ء کو آل پاکستان ویمنز ایسوی ایشن (اپل) کا قیام عمل میں لایا گیا تو بیگم خواجہ ناظم الدین کے ہمراہ محترمہ فاطمہ جناح اس کی پہلی سر پرست اعلی قرار پائیں۔ ایوا کا مرکزی دفتر کراچی میں قائم کیا۔اس تنظیم نے پاکستانی خواتین کی فلاح و بہبود صحت تعلیم اور قانونی و مالی امداد کے لیے سرگرم اس ادارے نے خواتین کو مختلف سہولتیں دینے دلچسپیوں اور ضروریات کا خیال رکھنےاور ان کے ہنر کو اجاگر کرنے میں بھی ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔

انھوں نے خواتین کو اس امر سے آگاہ کیا کہ انھیں ملکی ترقی کے لیے میدان میں اترنا ہو گا۔آپ نے اپوا کے پلیٹ فارم سے ملک کے طول وعرض میں خواتین کے حقوق کے لیے آوازبلند کی۔ اُن میں تعلیم ، شعور کی بیداری کی اہمیت کی غرض سے ایک مہم بھی چلائی ۔ یہ آپ کی کوششوں کا ہی ثمر ہے کہ آج پاکستانی معاشرے کا کوئی ایسا شعبہ یا پیشہ نہیں ہے جس میں خواتین اپنا بھرپوراور نمایاں کردارادا نہ کررہی ہوں۔ محترمہ فاطمہ جناح نے ۱۹۲۵ء میں صدارتی امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں بھی حصہ لیا۔ آپ کا کردار پاکستانی خواتین کے لیے مشعل راہ ہے۔

فاطمہ جنا ح کی شخصیت نے ہماری قومی زندگی پر ان مٹ نقوش چھوڑے۔ وضاحت کریں۔

محترمہ فاطمہ جناح نے اپنے بھائی کے شانہ بشانہ ملک کی تعمیر و ترقی میں نہ صرف حصہ لیا بلکہ خواتین کے لیے عملی جدوجہد کی ایک مثال بھی قائم کی ۔انھوں نے “میرا بھائی” کے نام سے کتاب لکھ کر قوم کو قائد کی زندگی کے کئی پہلوؤں سے روشناس کرایا اور ہماری زندگی پر بھی انمٹ نقوش چھوڑے۔

طب کے شعبے میں محترمہ فاطمہ جناح کی کیا خدمات ہیں؟

سینئر کیمبرج کا امتحان پاس کرنے کے بعد 1919ء میں ڈاکٹراحمد ڈینٹل کالج سے ڈگری حاصل کر کے پریکٹس شروع کر دگی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان میں لڑکیوں بالخصوص مسلمان لڑکیوں کی تعلیم کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی جاتی تھی۔ پابندیوں کے اس دور میں محترمہ فاطمہ جناج نے بہت حوصلے اور جذبے کا مظاہرہ کیا اور دندان سازی کی تعلیم حاصل کر کے عملی زندگی میں قدم رکھ کر کلینک قائم کر کے پر کیکٹس شروع کر دی۔ اپنے اخلاق اور نرم خوئی کے سبب جلد ہی آپ اردگرد کے علاقوں میں ایک انسان دوست خاتون کی حیثیت سے مشہور ہو گئیں۔

سبق کو غور سے پڑھ کر مندرجہ ذیل خالی جگہ پر کریں :

  • محترمہ فاطمہ جناح 31 جولائی1893ء کو پیدا ہوئیں۔
  • محترمہ فاطمہ جناح سات بہن بھائیوں میں سب چھوٹی تھیں۔
  • آل پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن ( اپوا ) کا قیام 22 فروری 1949 میں عمل میں لایا گیا۔
  • محترمہ فاطمہ جناح نے ۱۹۶۵ء میں صدارتی امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا۔
  • قومی خدمات کے صلے میں محترمہ فاطمہ جناح کو مادرِ ملت کا لقب دیا گیا۔

درج ذیل جملوں کو لفظوں کی تکرار کے حوالے سے درست کر کے لکھیں:

کوہ مری کے پہاڑ سر سبز و شاداب ہیں۔ مری کے پہاڑ سر سبز و شاداب ہیں۔
آب زم زم کا پانی میٹھا ہوتا ہے۔ زم زم کا پانی میٹھا ہوتا ہے۔
ماہ رمضان کا مہینا با برکت ہے۔ ماہ رمضان با برکت ہے۔
آپ کی خیریت نیک مطلوب چاہتا ہوں۔ آپ کی خیریت چاہتا ہوں۔

دو دوستوں کے درمیان یوم پاکستان” کے حوالے سے مکالمہ تحریر کریں۔

  • تمام بچے ملی نغمے گا رہے ہیں ایسے میں احمد اور آج کے دن کی مناسبت ے آپس میں بات کرتے ہیں۔)
  • احمد: اسلام علیکم!
  • علی : وعلیکم سلام!
  • احمد: علی سے اس کا حال چال پوچھنے کے بعد کہتا ہے کہ علی کیا تم نے آج کے دن کی مناسبت سے ملی نغمہ تیار کیا ہے؟
  • علی: ملی نغمے تو مجھے یاد ہیں مگر ملی نغمے تو یوم آزادی کے دن پر پڑھے جاتے ہیں۔
  • احمد: ارے دوست آج بھی تو ملک سے محبت کا دن ہے یعنی کہ “یومِ پاکستان”
  • علی: یومِ پاکستان کی اہمیت پر روشنی ڈالو تاکہ میں اس دن کے بارے می۔میں کچھ جان سکوں۔
  • احمد: یوم آزادی تو وہ دن ہے جب ہمارا ملک آزاد ہوا مگر اس آزادی کو حاصل کرنے کا عہد جس دن کیا گیا تھا اس دن کو ہم یومِ پاکستان کی مناسبت سے مناتے ہیں یعنی 23 مارچ 1940ء۔
  • علی: ہاں مجھے یاد آیا ہماری استانی صاحبہ نے بتایا تھا کہ اس دن پاکستان کی قرارداد منظور ہوئی تھی۔
  • احمد: بالکل اس دن کی بھی اہمیت وہی ہے جو یوم پاکستان کی ہے یہی وجہ ہے کہ ہم اس دن کو بھی بھرپور ملی جوش وجذبے سے مناتے ہیں۔
  • علی : شکریہ دوست میری معلومات میں اضافے کے لیے۔
  • احمد : نوازش۔
  • اس کے ساتھ ہی استاد کمرہ جماعت میں آتے ہیں اور بچے ان کی جانب متوجہ ہوتے ہیں۔

ذیل میں درج پاکستان کی چار نام ور خواتین کی شخصیت اور خدمات پر پچاس پچاس الفاظ پرمشتمل اقتباس لکھیں:

بانو قدسیہ ، مریم مختار، بلقیس ایدھی ، بیگم شمشاد احمد

باںو قدسیہ:

28 نومبر 1928ء اردو کی مشہور ناول نویس، افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار محترمہ بانو قدسیہ کی تاریخ پیدائش ہے۔ 1950ء میں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا اور مشہور افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس اشفاق احمد سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئیں۔ بعدازاں انہوں نے اپنے شوہر کی معیت میں ادبی پرچہ داستان گوجاری کیا۔

بانو قدسیہ کا شمار اردو کے اہم افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے افسانوی مجموعوں میں ناقابل ذکر، بازگشت، امر بیل اور کچھ اور نہیں کے نام شامل ہیں۔ انہوں نے کئی ناول بھی تحریر کیے۔ ان کا ناول راجہ گدھ اپنے اسلوب کی وجہ سے اردو کے اہم ناولوں میں شمار ہوتا ہے جبکہ ان کے ناولٹس میں ایک دن، شہر بے مثال، پروا،موم کی گلیاں اور چہار چمن کے نام شامل ہیں۔انہوں نے ٹیلی ویژن کے لیے بھی کئی یادگار ڈرامہ سیریلز تحریر کیے۔ جن کے متعدد مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ حکومت پاکستان نے آپ کو ستارۂ امتیاز کا اعزاز عطا کیا ہے۔

مریم مختار:

مریم مختار ایک 22 سالہ پاکستانی پائلٹ تھی، 24 نومبر 2015ء کو میانوالی کے قریب ایک ایئرکرافٹ کریش میں شہید ہوئی۔ مریم پاک فضائیہ کی پہلی خاتون جنگجو پائلٹ تھی۔
بلقیس ایدھی: بلقیس بانو ایدھی عبد الستار ایدھی کی بیوہ، ایک نرس اور پاکستان میں سب سے زیادہ فعال مخیر حضرات میں سے ایک تھیں۔ ان کی عرفیت مادر پاکستان تھیں۔

وہ 14 اگست 1947ء میں بانٹوا میں پیدا ہوئیں۔ تقسیم ہند کے بعد والدین کے ساتھ کراچی منتقل ہوئیں، وہ بلقیس ایدھی فاؤنڈیشن کی سربراہ تھیں اور اپنے شوہر کے ساتھ انہوں نے خدمات عامہ کے لیے 1986ء رومن میگسیسی اعزار حاصل کیا۔ حکومت پاکستان نے انہیں ہلال امتياز سے نوازا تھا۔ بھارتی لڑکی گیتا کی دیکھ بھال کرنے پر بھارت نے انہیں مدر ٹریسا ایوارڈ 2015ء سے نوازا تھا۔ 15 اپریل 2022ء کو وفاتِ پا گئیں۔

بیگم شمشاد:

شمشاد بیگم (ولادت: 14 اپریل 1919ء – وفات: 23 اپریل 2013ء) ایک ہندوستانی گلوکارہ تھیں جو ہندی فلم انڈسٹری کے پہلے پس پردہ گلوکاروں میں سے ایک تھیں۔ شمشاد بیگم ہندوستانی فلموں میں پس پردہ گلوکاروں کی صف اول کی کلاسیکل گلوکارہ تھیں اور وہ اپنی منفرد آواز کے لیے جانی جاتی تھیں۔

وہ 1919ء میں ‘پنجابی مان جاٹ مسلم’ خاندان میں پیدا ہوئی تھیں انہوں نے ہندی، بنگالی، مراٹھی، گجراتی، تمل اور پنجابی زبانوں میں 6000 سے زیادہ گانے گائے تھے اور ان میں سے 1287 گانے ہندی فلمی گانے تھے۔ 1940ء کی دہائی سے لے کر 1970ء کی دہائی کے اوائل تک کے ان کے گانے کافی مقبول رہے۔

انٹرنیٹ کی مدد سے مندرجہ ذیل شعبوں میں نمایاں خدمات سر انجام دینے والی پاکستانی خواتین کا نام لکھیں۔

سیاست: محترمہ فاطمہ جناح ،محترمہ بے نظیر بھٹو ، بیگم شائستہ اکرام اللہ اور بیگم جہاں آرا شاہنواز۔
مذہب: ڈاکٹر فرحت ہاشمی۔
ادب: بانو قدسیہ ، فہمیدہ ریاض ، پروین شاکر ، کشور ناہید ،جمیلہ ہاشمی، خدیجہ مستور ، حاجرہ مسرور ، ڈاکٹر حمیرا اشفاق وغیرہ۔
خدمت خلق: بلقیس ایدھی ، رتھ لیوس ، ڈاکٹر روبینہ جیلانی۔
کھیل: شازیہ ہدایت ، سدرہ صدف ، نسیم حمید۔