Advertisement
Advertisement

تعارف

معروف ناول نگار، ڈراما نویس اور کہانی کار، اردو ادب کا بہت بڑا نام فاطمہ ثریا بجیا ہندوستان کے شہر حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئیں۔ ان کی تاریخ پیدائش 1 ستمبر 1930ء ہے۔ اس دور میں عوررتیں باقائدہ اسکول نہیں جایا کرتی تھیں تو بجیا نے اسکول سے تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ مگر انھوں نے جو کام کیا اس سے وہ دنیائے ادب میں چمکتے ستارے کی مانند چمکنے لگیں۔

Advertisement

ادبی سفر

تقسیم پاکستان کے وقت جب وہ کراچی اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کر رہی تھیں تو ان کے پاس 80 ہزار کتابوں کا ذخیرہ موجود تھا۔ بجیا نے 14 برس کی عمر میں 250 صفحات پر مشتمل ایک مکمل ناول تحریر کیا تھا، جس کی 1000 کاپیاں چھپیں تھیں۔ پھر جس دور میں انہوں نے ٹی وی کے لئے لکھنا شروع کیا اس وقت ڈرامے کی ایک قسط کے صرف ڈھائی سو روپے انہیں ملا کرتے تھے۔

ڈرامہ نگاری

1960 میں وہ پاکستان ٹیلی وژن سے منسلک ہوئیں اور لازوال ڈرامے لکھے جو کہ ناقابل فراموش ہیں۔ 1966ء میں بجیا نے ہدایت کار آغا ناصر کے ڈرامے سے اداکاری کا آغاز کیا۔ ان سے ان میں ڈرامے لکھنے کا شوق بیدار ہوا اور وہ ڈرامہ نگاری کی دنیا میں قدم رکھنے کو تیار ہوگئیں۔ بجیا کا لکھا گیا طویل دورانیے کا پہلا ڈرامہ ”مہمان“ تھا۔

Advertisement

جاپانی شاعری


بجیا کی اردوادب کے لیے کی گئی ایک اور خدمت جاپانی طرز کی شاعری کو 11 پاکستانی زبانوں میں متعارف کروانا بھی ہے، جس کے لیے انھوں نے جاپانی طرز کی شاعری ’ہائیکو‘ اور ’واکلا‘ کا انتخاب کیا۔ بجیا نے اپنے ڈراموں میں کردار نگاری، مکالمہ نگاری اور جزئیات نگاری پر خاصی توجہ دی۔ ان کے ڈراموں میں نئے خیالات، نئے اسالیب اور موضوعات کا انتخاب، خونی رشتوں کے درمیان تعلق اور رویوں کو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ پیش کرنے کی صلاحیت اور قلب و روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی ناظرین کو بجیا کے ڈراموں کے سحر میں مبتلا کردیتی تھی۔

Advertisement

ان کے لکھے گئے ڈراموں نے بے حد مقبولیت حاصل کی۔ ان کے ڈرامے جو پی ٹی وی نے نشر کیے نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں بھی کافی مقبول ہوئے۔ فاطمہ ثریا بجیا کے حلقہ احباب کہتے ہیں کہ بجیا تہذیب، شفقت اور خلوص کا پیکر تھیں، علم و ادب کے لئے فاطمہ ثریا بجیا کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ بجیا نے بہت سارا ادب تخلیق کیا۔ 300 کے قریب ڈرامے انھوں نے تخلیق کیے اور لازوال ناول لکھے جو آج بھی قدر و قیمت رکھتے ہیں۔

تصانیف

  • ان کی لکھی تصانیف میں؛
  • اوراق ،
  • انارکلی،
  • سسی پنوں،
  • اساوری،
  • تصویرکائنات،
  • پھول رہی سرسوں قابلِ ذکر ہیں۔ انھوں نے ادب کی دنیا میں بچوں کو بھی فراموش نہ کیا اور بچوں کے پروگرامز کے لیے بھی بہت لکھا۔

اعزازات

علم و ادب کے حوالے سے غیر معمولی خدمات پر فاطمہ ثریا بجیا کو حکومت نے تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ہلال امتیاز سے نوازا۔
جب کہ جاپان نے بھی اپنا اعلیٰ ترین شہری اعزاز عطا کیا۔

Advertisement

آخری ایام

فاطمہ ثریا بجیا علالت کے بعد 10 فروری 2016 کو انتقال کر گئی تھیں۔

Advertisement