فضائل امام حسین علیہ السلام، سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 27:

(الف) مندرجہ ذیل سوالات کے تفصیلی جوابات تحریر کریں:

۱۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے فضائل کے بارے میں حضور کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے کیا فرمایا ہے؟

جواب: سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی سب سے بڑی فضیلت آپ رضی اللہ عنہ کا نبوت والے گھرانہ میں پیدا ہونا ہے کہ جس کے نانا نبی اخرالزمان حضور کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نانی حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا، دادا حضرت ابوطالب بن عبدالمطلب، دادی فاطمہ بنت اسد،والدحضرت علی شیر خدارضی اللہ عنہ، والدہ خاتون جنت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا اور بھائی سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ ہوں، اس سے بڑھ کر کیافضیلت ہو سکتی ہے۔ حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّم کی مبارک زبان سے آپ رضی اللہ عنہ کے فضائل کے بارے میں بہت سی احادیث وارد ہیں۔ حضور اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا جنت کی عورتوں کی سردار ہیں اور حسن و حسین رضی اللہ عنہما جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔ (سنن ترمذی)

حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: جو شخص حسن اور حسین سے محبت کرتا ہے وہ گویا مجھ سے محبت کرتا ہے اور جو ان سے بعض رکھتا ہے وہ گویا مجھ سے بغض رکھتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ)

ایک دفعہ حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ کسی دعوت پر جا رہے تھے کہ مدینہ منورہ کی ایک گلی میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو دیکھا تو آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے بڑھ کر ان کو پکڑنے کے لیے اپنے ہاتھ پھیلائے۔ اس پر وہ ادھر ادھر بھاگنے لگے، آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے اس کو ہنساتے ہوئے آخر میں پکڑ لیا، اور اس کی پیشانی چومتے ہوئے آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے، جس کی حسین سے محبت ہوگی اللہ تعالیٰ اس کو محبوب رکھے گا، میر نواسوں میں سے حسین ایک نواسہ ہے۔ (سنن ابن ماجہ)

سیدنا رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ جب آخری ایام میں علیل ہوگئے تو خاتون جنت حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا اپنے دونوں صاحب زادوں کے ساتھ آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی عیادت کے لیے حاضر ہوئیں اور عرض کیا: ابا جان! آپ میرے ان بیٹوں کو کچھ عنایت کریں۔ تو رسول کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ہم نے اپنی ہیبت وسرداری حسن کو اور جرأت و سخاحسین کو عطا کی۔ حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما سے محبت کرنا رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ سے محبت کرنا ہے اور ان دونوں سے بغض و عناد رکھنا نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ سے بغض وعناد رکھنا ہے۔

۲۔ واقعہ کربلا کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟ اس پر ایک مختصر نوٹ تحریر کریں۔

یزید کی بیعت سے انکار اور سانحہ کربلا:

یزید کی تخت نشینی کے بعد مدینہ منورہ کے گورنر ولید بن عقبہ نے یزید کے حکم سے سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو یزید کی بیعت کرنے کے لیے بلایا، لیکن آپ رضی اللہ عنہ نے بیعت کرنے سے انکار کیا اور مکہ مکرمہ روانہ ہو گئے۔ امام رضی اللہ عنہ نے مکہ مکرمہ میں چار ماہ قیام فرمایا۔ اس دوران کوفہ کے لوگوں نے آپ رضی اللہ عنہ کی طرف خطوط بھیجے کہ آپ رضی اللہ عنہ کوفہ آجائیں تاکہ رضی اللہع نہ کے ہاتھ بیعت کریں، آپ رضی اللہ عنہ کے سوا ہمارا کوئی پیشوا اور امام نہیں اس لیے کہ یزیدی حکومت میں اسلامی اقدار کی پامالی ہورہی ہے اور اسلامی احکامات کا تمسخر اڑایا جارہا ہے۔ اس کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے چچا زاد بھائی حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کوکوفہ بھیجاتاکہ وہ جائز حالات کاجائزہ لیں۔ اس دور ان یزید کو حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کے آنے کے بارے میں اطلاع دی گئی، پھریزید نے کوفہ کے گورنر حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کو معزول کرکے عبیداللہ بن زیاد کو گورنر مقرر کیا اور حکم صادر کیا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے نمائندے مسلم بن عقیل کوقید یاقتل کیا جائے۔

اسی دوران مسلم بن عقیل نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو اطلاع دی کہ آپ رضی اللہ عنہ کوفہ جائیں اور کوفہ کے لوگ میرے ہاتھ پر آپ رضی اللہ عنہ کی بیعت کرچکے ہیں۔ ادھر ابن زیاد نے مسلم بن عقیل کو شہید کروادیا۔ امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے اہل وعیال کے ساتھ ۸ ذہ الحجہ ۶۰ ہجری کو مکہ مکرمہ سے کوفہ کے لیے روانہ ہوئے۔ چوبیس دنوں کا نہایت طویل اور کٹھن سفر طے کرکے ۲محرم الحرام ۶۱ ہجری کو مقام کربلا پہنچے۔ یزیدی لشکر کے کمانڈ عمر بن سعد نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو یزید کی بیعت پر اصرار کیا اور اس بات چیت کا سلسلہ دو محرم الحرام سے دس محرم الحرام تک چلتا رہا، مگر امام حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت اور باطل کے سامنے جھکنے سے صاف انکار کر دیا۔ بالآخر ۱۰ محرم الحرام ہجری کو حق و باطل کا معرکہ ہوا جس میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے اہل وعیال اور جان نثار ان کے ساتھ بھوک اور پیاس کی حالت میں شہید کردیئے گئے۔اسی طرح حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے دین اسلام کی سربلندی اور کلمہ حق کی برتری کے لیے عظیم الشان قربانی دے کر عالم اسلام کے لیے ایک مثال قائم کردی۔

آرام گاہ:
عراق کا شہر”کربلا“ جو آج کل مشہور شہروں میں شمار ہوتا ہے وہاں سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا روضہ مبارک واقع ہے اور وہ آپ رضی اللہ عنہ کی آرام گاہ ہے۔

(ب) مندرجہ ذیل سوالات کے مختصر جوابات تحریر کریں:

۱۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب بیان کریں۔

حسب و نسب:

حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا پورا نام حسین بن علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم رضی اللہ عنہ ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کےوالد شیر خدا حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور والدہ خاتون جنت حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا بنت حضرت محمد رسول اللہ حاتم النبیین صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ یعنی والدہ اور والد دونوں طرف سے آپ ہاشمی اور صاحب شرف و فضیلت ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوعبداللہ اور القاب سیدالشہداء، سید شباب اھل الجنۃ، اور ریحانہ النبی، ہیں جبکہ امت مسلمہ ہیں آپ رضی اللہ عنہ شہید کربلا کے لقب سے بھی یاد کیے جاتے ہیں۔

۲۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کے وضو کو کس طرح درست کروایا۔

جواب: سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ بچپن ہی سے بہت زیادہ ذہین و فطین اور اعلیٰ سیرت و اخلاق کے مالک تھے، جس کا ثبوت درج ذیل واقعہ ہے: ایک دفعہ آپ رضی اللہ عنہ اپنے بھائی سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد میں تھے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ ایک آدمی وضو کررہا ہے لیکن اس کا وضو کرنے کا طریقہ درست نہیں تھا، تو آپ رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا:” اے چچا! ہم چھوٹے ہیں، وضو کررہے ہیں، دیکھنا کہیں وضو میں غلطی تو نہیں کرتے۔“ جب آپ رضی اللہ عنہ نے وضو کیا تو وہ آدمی دیکھ کر متنبہ ہوگیا یہ دونوں تو وضو صحیح کررہے ہیں، مگر میرا وضو درست نہیں۔(بحارالانوار)