Advertisement
  • سبق” کچھ جھوٹ کے بارے میں” از ” سید ضمیر جعفری”

سبق کا خلاصہ:

سبق ” کچھ جھوٹ کے بارے میں ” اس سبق میں جھوٹ کے متعلق دلچسپ کہانی بیان کی گئی ہے۔ مصنف کیتے ہیں کہ خوف ہمیشہ سے جھوٹ کا سرچشمہ رہا ہے۔ کیونکہ خوف ہی انسان جو جھوٹ بولنے پہ مجبور کرتا ہے جیسےکہ گھر میں والدین کا خوف سکول میں استاد کا خوف . چھوٹے چھوٹے خوف چھوٹے چھوٹے سادہ سادہ جھوٹ ! اس کے بعد زندگی کا ڈر… بلکہ خود سچ بولنے کا ڈر بڑی بڑی مجبوریاں بڑے بڑے جھوٹ ۔ شروع میں آدمی جھوٹ بول کر دوسروں کو دھوکا دیتا ہے، آخر میں وہ جھوٹ بول کر صرف اپنے آپ کو دھوکا دیتا ہے۔

Advertisement

اپنے بچپن کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ جب گاؤں کے بعد شہر میں ان کی پڑھائی کا وقت آیا تو ان کا دوست جو بچپن سے ہمیشہ ان کا ہم سبق رہا تھا ان دونوں دوستوں کو ان کے گھر والوں نے ہاسٹل میں چھوڑنے کی بجائے ایک کرائے کے مکان میں ایک نوکر کی سر پرستی میں چھوڑا تاکہ وہ دونوں دیسی گھی سے محروم نہ ہوں۔ مصنف بتاتے ہیں کہ کالج کے دوران ہمارے ریاضی کے استاد اور ہماری کلاس کے انچارج لالہ ودھاوا مل بڑے دہشت ناک قسم کے ماسٹر تھے۔ وہ پڑھاتے وڑھاتے تو جو تھے سو تھے البتہ پٹائی بڑے زور کی کرتے تھے۔

لڑکے ان کے نام سے تھر تھر کانپنے لگتے تھے۔ حساب کا پیریڈ قیامت کا عرصہ ہوتا تھا۔اور ہمیں ریاضی بالکل نہ آتی تھی لیکن ہمارے علاوہ بھی کچھ لڑکے تھے جن کو ریاضی نہ آتی تھی۔مگر ہمارے یہ ہم جماعت جمشید سورج پر کاش اور خلیل لالہ جی کے قہر و غضب سے بچے رہتے تھے۔ قصہ اصل میں یہ تھا کہ جمشید لالہ جی کو اپنے گاؤں سے ایک روپے کا ایک سیر خالص گھی لا دیتا تھا۔ سورج پر کاش کے والد کی صدر بازار میں اگر چہ کریانہ کی دکان تھی مگر وہ ایک آنے کے چھ ہری چھال کیلئے روزانہ لالہ جی کو مہیا کرتا تھا۔

اس طرح تازہ بتازہ سبزیاں از قتسم بینگن، ٹماٹر اور توری کی سپلائی خلیل کے باغ سے ہوتی تھی حالانکہ خلیل کا باپ درزی کا کام کرتا تھا اور سرے سے ان کا کوئی باغ تھا ہی نہیں۔ سو اس طرح یہ لوگ لالہ جی کے بید سے محفوظ تھے۔ بلکہ گھی، کیلے اور گوبھی مٹر کے بہانے ہفتے میں دو دو اور تین تین روز کلاس ہی سے غائب رہتے۔ ہم باقی طلبا ان کو بڑے رشک کی نگاہوں سے دیکھا کرتے۔ مصنف بتاتے ہیں کہ ایک روز لالہ پرکاش کا مزاج اچھا تھا اور وہ پڑھائی کی بجائے پرندوں کی باتیں کر رہے تھے اسی دوران انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ وہ اپنی نواسی کے لیے ایک مور کا بچہ پالنا چاہتے ہیں اور وہ چاہتے تھے کہ یہ مور ہم انھیں مہیا کریں۔

اچانک مصنف کے ذہن میں خیال آیا اور مصنف نے لالہ جی کو موروں کے حوالے سے اپنے گاؤں کے بارے میں بتایا کہ جناب ہمارا گاؤں پہاڑ کی ترائی میں واقع ہے۔ (حالانکہ اس وقت ہمیں ترائی کے معنی ہی معلوم نہ تھے ) ور یہ ترائی موروں سے اٹی پڑی ہے۔ حالت یہ ہے کہ چیل کوے کی طرح مور ہمارے مکانوں کی منڈیروں پر بیٹھے رہتے ہیں۔ ہم تو موروں سے سخت عاجز آئے ہوئے ہیں۔ واقعہ ہے کہ موروں سے ہماری ہمیشہ جنگ جاری رہتی ہے۔ وہ ہماری مکئی کی فصل تباہ کرتے ہیں۔یہی نہیں بلکہ ہم تو روزانہ جال لگا کر زندہ بھی پکڑتے ہیں۔

Advertisement

“ساتھ ہی اگلے ہفتے انھوں نے مور لانے کا وعدہ بھی کیا۔ مگرمور ان کے گاؤں میں تو دور پوری مشنری میں دور دور تک موجود نہ تھے۔ اس عرصے تک وہ نہ صرف مار سے بچے رہے بلکہ ہر بار مور لانے کا کہہ کر ٹالتے رہے کبھی یہ بہانہ کہ بچے کی بجائے بڑے مور پکڑے گئے۔ اسی دوران انھوں نے ہرنی اور سبطغین کی کہانی کتاب میں پڑھی۔ اب کی بار جب استاد نے موروں کے متعلق پوچھا تو مصنف نے لالہ جی کو مور نہ لانے کی وجہ یوں بتائی کہ لالہ جی مور کا تو نہایت خوبصورت بچہ پکڑ لیا تھا مگر جب پنجرے کو سائیکل پر ڈال کر شہر کو چلنے لگا تو اس کی ماں مورنی آگئی اور میرے سر پر منڈلاتی ہوئی کئی میل تک چلی آئی۔

لالہ جی مجھ سے اس کی مامتا کا درد نہ دیکھا گیا اور میں نے پنجرے کا دروازہ کھول دیا۔ یہ کہہ کر مصنف نے ڈیسک میں چھپایا ہوا خالی پنجرہ نکال کر لالہ جی کے سامنے کر دیا۔ اس پر لالہ جی سمیت پوری کلاس کھلکھلا کر ہنس پڑی لالہ جی اگر چہ سمجھ چکے تھے کہ ہم نے سفید جھوٹ بولا ہے مگر اس کے بعد ان کے بید میں پٹائی کے لئے وہ شدت نہیں رہی۔

  • مشق:

سبق کے متن کو مد نظر رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات تحریر کیجیے:

مصنف نے خوف کو جھوٹ کا سر چشمہ کیوں قرار دیا ہے؟

خوف جو جھوٹ کا سرچشمہ اس لیے قرار دیا گیا کہ کیونکہ خوف ہی انسان جو جھوٹ بولنے پہ مجبور کرتا ہے جیسےکہ گھر میں والدین کا خوف سکول میں استاد کا خوف . چھوٹے چھوٹے خوف چھوٹے چھوٹے سادہ سادہ جھوٹ ! اس کے بعد زندگی کا ڈر… بلکہ خود سچ بولنے کا ڈر بڑی بڑی مجبوریاں بڑے بڑے جھوٹ ۔ شروع میں آدمی جھوٹ بول کر دوسروں کو دھوکا دیتا ہے، آخر میں وہ جھوٹ بول کر صرف اپنے آپ کو دھوکا دیتا ہے۔

جھوٹ کے بارے میں دانا لوگوں کا کیا کہنا ہے؟

دانا لوگوں کا کہنا ہے کہ جھوٹ کے پیر نہیں ہوتے۔

لالہ ودھاوا مل کس قسم کے اُستاد تھے؟

ہمارے ریاضی کے استاد اور ہماری کلاس کے انچارج لالہ ودھاوا مل بڑے دہشت ناک قسم کے ماسٹر تھے۔ وہ پڑھاتے وڑھاتے تو جو تھے سو تھے البتہ پٹائی بڑے زور کی کرتے تھے۔ لڑکے ان کے نام سے تھر تھر کانپنے لگتے تھے۔ حساب کا پیریڈ قیامت کا عرصہ ہوتا تھا۔

Advertisement

جمشید سورج پر کاش اور خلیل لالہ جی کی پٹائی سے کیونکر بچے رہتے تھے؟

جمشید سورج پر کاش اور خلیل لالہ جی کے قہر و غضب سے بچے رہتے تھے۔ قصہ اصل میں یہ تھا کہ جمشید لالہ جی کو اپنے گاؤں سے ایک روپے کا ایک سیر خالص گھی لا دیتا تھا۔ سورج پر کاش کے والد کی صدر بازار میں اگر چہ کریانہ کی دکان تھی مگر وہ ایک آنے کے چھ ہری چھال کیلئے روزانہ لالہ جی کو مہیا کرتا تھا۔ اس طرح تازہ بتازہ سبزیاں از قتسم بینگن، ٹماٹر اور توری کی سپلائی خلیل کے باغ سے ہوتی تھی حالانکہ خلیل کا باپ درزی کا کام کرتا تھا اور سرے سے ان کا کوئی باغ تھا ہی نہیں۔ سو اس طرح یہ لوگ لالہ جی کے بید سے محفوظ تھے۔ بلکہ گھی، کیلے اور گوبھی مٹر کے بہانے ہفتے میں دو دو اور تین تین روز کلاس ہی سے غائب رہتے۔ ہم باقی طلبا ان کو بڑے رشک کی نگاہوں سے دیکھا کرتے۔

مصنف نے لالہ جی کو موروں کے حوالے سے اپنے گاؤں کے بارے میں کیا بتایا؟

مصنف نے لالہ جی کو موروں کے حوالے سے اپنے گاؤں کے بارے میں بتایا کہ جناب ہمارا گاؤں پہاڑ کی ترائی میں واقع ہے۔ (حالانکہ اس وقت ہمیں ترائی کے معنی ہی معلوم نہ تھے ) ور یہ ترائی موروں سے اٹی پڑی ہے۔ حالت یہ ہے کہ چیل کوے کی طرح مور ہمارے مکانوں کی منڈیروں پر بیٹھے رہتے ہیں۔ ہم تو موروں سے سخت عاجز آئے ہوئے ہیں۔ واقعہ ہے کہ موروں سے ہماری ہمیشہ جنگ جاری رہتی ہے۔ وہ ہماری مکئی کی فصل تباہ کرتے ہیں۔یہی نہیں بلکہ ہم تو روزانہ جال لگا کر زندہ بھی پکڑتے ہیں۔“

مصنف نے مور نہ لا سکنے کی لالہ جی کو کیا کیا وجوہات بتائیں؟

لالہ جی مور کا تو نہایت خوبصورت بچہ پکڑ لیا تھا مگر جب پنجرے کو سائیکل پر ڈال کر شہر کو چلنے لگا تو اس کی ماں مورنی آگئی اور میرے سر پر منڈلاتی ہوئی کئی میل تک چلی آئی۔ لالہ جی مجھ سے اس کی مامتا کا درد نہ دیکھا گیا اور میں نے پنجرے کا دروازہ کھول دیا۔ یہ کہہ کر مصنف نے ڈیسک میں چھپایا ہوا خالی پنجرہ نکال کر لالہ جی کے سامنے کر دیا۔ اس پر لالہ جی سمیت پوری کلاس کھلکھلا کر ہنس پڑی لالہ جی اگر چہ سمجھ چکے تھے کہ ہم نے سفید جھوٹ بولا ہے مگر اس کے بعد ان کے بید میں پٹائی کے لئے وہ شدت نہیں رہی۔

جھوٹ بولنا ایک بُری عادت ہے مگر پھر بھی ہر انسان کو بھی نہ بھی جھوٹ بولنا پڑ جاتا ہے۔ اگر آپ نے بھی کبھی کوئی جھوٹ بولا ہے تو اسے تحریر کیجیے۔

جھوٹ بولنا اگرچہ ایک بری عادت ہے مگر بسا اوقات کچھ ایسے جھوٹ ہوتے ہیں جو کسی کی جان بچانے یا کسی کی مدد کرنے کے لیے بولا جاتا ہے۔ ایسا ہی ایک دفعہ میرے ساتھ ہوا یہ جھوٹ میں نے ایک بے گناہ کی مدد کرنے کے لیے بولا۔ ایک بے گناہ بچہ جس نے میرے گھر پناہ لی تھی اس کے پیچھے کچھ ایسے لوگ تھے جو اس کی جان کے دشمن تھے جب انھوں نے مجھ سے اس کی میرے پاس موجودگی کا معلوم کیا تو جھوٹ بولتے ہوئے میں نے کہا کہ مجھے اس کے متعلق معلوم نہیں ہے۔

مندرجہ ذیل الفاظ و محاورات کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے:۔

الفاظجملے
نو عمری نوعمری میں بچے اکثر غلطیاں کر جاتے ہیں۔
سر پرست ہمارے والدین ہمارے سر پرست ہیں۔
دہشت ناک کل میں نے ایک دہشت ناک منظر دیکھا۔
اختصاربات چیت میں اختصار سے کام لینا چاہیے۔
تھر تھر کانپنابچوں نے مارے خوف کے تھرتھر کانپنا شروع کر دیا۔
تیور بگڑنااستاد صاحب کے تیور بگڑنا شروع ہو گئے۔
سفید جھوٹ احمد نے میرے منھ پر سفید جھوٹ بولا۔
عاجز آنامیں علی سے عاجز آ چکا ہوں۔

سبق کے متن کو مد نظر رکھتے ہوئے درست لفظ چن کر مندرجہ ذیل خالی جگہوں کو پر کیجیے:۔

  • شروع میں آدمی جھوٹ بول کر دوسروں کو دھوکا دیتا ہے۔

الف) دوستوں ب) بڑوں ج) دوسروں

Advertisement
  • پھر ایک دوسری مثال بھی ہے کہ جھوٹ کے پر نہیں ہوتے۔

الف) جھوٹ ب) پرندے ج)انسان

  • لڑکے ان کے نام سے تھر تھر کانپنے لگتے تھے۔

الف) ڈرکر ب) تھرتھر ج)ہی ہی

  • لالہ جی آپ حکم کریں تو دس مور کل ہی لادوں گا؟”

الف)دس مور ب) پانچ مور ج)مور

  • ہمارا گاؤں تو گاؤں ہماری پوری کمشنری میں مور کہیں نہ ملتا تھا۔

الف) ریاست ب) کمشنری ج)بستی

  • لیکن اب بہانے بھی ختم ہو رہے تھے اور لالہ جی کے تیور بھی بگڑ رہے تھے۔

الف) بہانے ب) جھوٹ ج) سوال

Advertisement
  • یہ کہہ کر میں نے ڈسک میں چھپایا ہوا خالی پنجرہ نکال کر لالہ جی کے سامنے کر دیا۔

الف) بستہ ب) ڈبہ ج)پنجرہ

مندرجہ ذیل الفاظ کے متضاد تحریر کیجیے:۔

الفاظمتضاد
جنگامن
زندہمردہ
بچپنجوانی
خالصملاوٹ
خوبیخامی
تازہباسی
دانابے وقوف

مندرجہ ذیل سابقوں کی مدد سے دیئے گئے الفاظ مکمل کیجیے:

  • اہل ، ذی ، عالی ، نیم ، نیک
  • عالی ہمت
  • نیم حکیم
  • اہل دولت
  • نیک سیرت
  • ذی شعور
  • عالی شان
  • نیک فطرت
  • عالی ظرف
  • اہل علم
  • نیم مردہ