آج بھی قافلۂ عشق رواں ہے کہ جو تھا

0

غزل

آج بھی قافلۂ عشق رواں ہے کہ جو تھا
وہی میل اور وہی سنگِ نشاں ہے کہ جو تھا
منزلیں گرد کی مانند اُڑی جاتی ہیں
وہی انداز جہان گزراں ہے کہ جو تھا
ظلمت و نور میں کچھ بھی نہ محبت کو ملا
آج تک ایک دھندلکے کا سماں ہے کہ جو تھا
جو بھی کر جور و ستم جو بھی کر احسان و کرم
تجھ پہ اے دوست! وہی وہم وگماں ہے کہ جو تھا
جان دے بیٹھے تھے اک بار ہوس والے بھی
پھر وہی مرحلۂ سود و زیاں ہے کہ جو تھا
دیکھ سکنے کی الگ بات، مگر حسن ترا
دولت دیدۂ صاحب نظراں ہے کہ جو تھا
تیرہ بختی نہیں جاتی دل سوزاں کے فراقؔ
شمغ کے سر پہ وہی آج دھواں ہے کہ جو تھا

تشریح

آج بھی قافلۂ عشق رواں ہے کہ جو تھا
وہی میل اور وہی سنگِ نشاں ہے کہ جو تھا

غزل کے مطلع میں شاعر کہتا ہے کہ عشق کا کارواں کوئی نیا نہیں ہے۔ یہ صدیوں پُرانا ہے اور یہ پہلے کی ہی طرح آج بھی رواں دواں ہے وہی اس کی منزل ہے اور وہی راستہ کہ مُدتیں گزرنے پر بھی اس کے کاروبار اور فعل و عمل میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔

ظلمت و نور میں کچھ بھی نہ محبت کو ملا
آج تک ایک دھندلکے کا سماں ہے کہ جو تھا

شاعر کہتا ہے کہ محبت کے ہاتھ ہمیشہ ناکامی لگتی ہے۔اندھیرے اُجالے میں اس سے کچھ حاصل نہیں ہوا ہے۔اس کے مقدر میں ہمیشہ ہی سے ایک دھندلکے کا عالم رہا ہے۔نور کے تڑکے کا کہ جس میں سب صاف صاف نہیں دِکھائی دیتا ہے۔

جو بھی کر جور و ستم جو بھی کر احسان و کرم
تجھ پہ اے دوست! وہی وہم وگماں ہے کہ جو تھا

شاعر محبوب سے مخاطب ہے کہتا ہے کہ اے محبوب تو چاہے عاشق پر ظلم و ستم روا رکھتا ہے۔وہ وہم و گُمان ہرگز جانے کا نہیں ہے۔

جان دے بیٹھے تھے اک بار ہوس والے بھی
پھر وہی مرحلۂ سود و زیاں ہے کہ جو تھا

عشق و محبت میں بڑی کشش ہے۔یہ بڑی دلفریب چیز ہے اور حسن کی دلفریبی کا تو یہ عالم ہے کہ کوئی بھی اس کے دھوکے میں آ جائے۔اب شاعر کہتا ہے کہ ایک بار تو حسن کے فریب میں اہل ہوس یعنی حرص و ہوس کے بندے بھی آ گئے اور اس کے دھوکے میں اپنی جان پر کھیل گئے بلآخر وہ سنبھل گئے اور وہی نفع نقصان کا معاملہ جو ہمیشہ ان کے پیش نظر رہا ہے سامنے آگیا ہے۔

دیکھ سکنے کی الگ بات، مگر حسن ترا
دولت دیدۂ صاحب نظراں ہے کہ جو تھا

شاعر کہتا ہے کہ کوئی اسے دیکھ سکے یا نہیں یہ دوسری بات ہے مگر اے محبوب تیرا حسن صاحب نظر لوگوں یعنی عشاق کی نِگاہوں کی دولتِ ہے اور یہ صورت جب بھی تھی اور اب بھی ہے۔

تیرہ بختی نہیں جاتی دل سوزاں کے فراقؔ
شمغ کے سر پہ وہی آج دھواں ہے کہ جو تھا

شاعر کہتا ہے کہ اے فراقؔ دل جلوں کی سیاہ بختی کبھی نہیں جاتی۔سیاہ بختی گویا عشاق کا مقدر ہوگئی ہے۔