ناول فائر ایریا کا خلاصہ | Fire Area Novel Summary In Urdu

0
  • ناول : فائر ایریا
  • مصنف : الیاس احمد

خلاصہ

ناول  فائر ایریا الیاس احمد گدی کی تخلیق  ہے۔ فائر ایریا ١٩٩٤ میں شائع  ہوا۔ فائر ایریا ناول میں الیاس احمد نے دور دراز علاقوں میں جا کر کام  کرنے والے لوگوں کی محنت کشی اور اس کے بدلے ملنے والی معمولی مزدوری کے حال کو بیان کیا ہے۔ ناول فائر ایریا کا مرکزی کردار سہدیو ہے۔  ناول  فائر ایریا کُل تین ابواب  پر مشتمل ہے۔

پہلا باب

پہلے باب میں الیاس احمد نے ناول کی ابتدا میں کول فیلڈ میں ہونے والی چیزوں، لوٹ کھسوٹ کا ذکر کر کے قاری میں آگے پڑھنے کی خواہش پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ست گانواں ضلع گیا، سہدیو کے گھر میں اس کے بھیا بھابھی کے علاوہ اس کا ایک بھتیجا  لڈو  رہتا ہے۔ گاؤں کا ایک رہائشی ننکو پہلے سے ہی جهريا دھنباد کے کول فیلڈ سرسا کولیری میں کام کرتا تھا، اور وہ اس بار اپنے ساتھ گاؤں کے سہدیو، جگشیر، ودسادھ اور رسول پور کے رحمت میاں کو بھی لے گیا۔

ان سب میں صرف سہدیو دسویں پاس تھا، باقی سب ہی ان پڑھ تھے۔ جس صبح سہدیو گاؤں سے دور کمانے کے واسطے جا رہا تھا اسے وہ صبح اور آس پاس کا ماحول سب اداس سا محسوس ہوا۔ نہ جانے یہ اداسی گاؤں اور اپنوں سے دوری کے سبب تھی یا اپنی محبوبہ جلیا سے دوری کے سبب۔ لیکن جليا نے اسے یقین دلایا تھا کہ وہ گردھاری کے کنویں میں کود کر جان دے دے گی مگر اس کے علاوہ کسی اور سے شادی نہیں کرے گی۔ جليا اور اس کے تعلق کے بارے سہدیو کی بھابھی اچھے سے باخبر تھی اور انہوں نے سہدیو سے وعدہ لیا تھا کہ وه اس بارے سہدیو کے بھائی سے ضرور بات کرے گی۔

جهريا میں مزدور جن چھوٹے گھروں میں کرائے پر رہتے تھے انہیں دھوڑا کہا جاتا ہے۔ جیسے ہی سہدیو نے کولیری میں پہلا ہفتہ اٹھایا ویسے ہی جوالا مصر اپنی یونین کے دو تین بندوں کے ساتھ چندے کی کٹوتی کے لئے آ کھڑا ہوا۔ لالو سادھ نے اس ہفتے سہدیو کو بچانے کی بہت کوشش کی لیکن جوالا نہیں مانا اور اس سے ایک روپیہ لے کر ہی دم لیا۔ دھوڑا پہنچتے پہنچتے تین روپے اور نکل گئے۔ دو روپے مائنینگ سردار رام اوتار کے اور ایک روپیہ منشی کا۔

دھوڑے میں ایک ساتھ رہتے اور کولیری میں ساتھ کام کرتے ہوئے سہدیو کی رحمت میاں سے کافی جان پہچان ہو گئی تھی۔ رحمت میاں گاؤں کے زمینداروں کا ستایا ہوا بڑا کمزور اور کم ہمت سا آدمی تھا، اس لئے اب محنت مشقت اس سے بامشکل ہی ہوا کرتی تھی۔ یہ سب دیکھ کر سہدیو کو رحمت میاں پر ترس آتا۔ اس سلسلے میں سہدیو نے مائینینگ سردار سے بات کی کہ وہ رحمت میاں کو آسان کام دے اور  اس کے حصّے کا محنت والا کام سہدیو کر دیا کرے گا۔ مائیننگ سردار بامشکل ہی سہی لیکن اس بات پر راضی گیا۔

ایک روز تنخواہ والے دن سہدیو کا کالا چند کی وجہ سے کپل سنگھ کے آدمیوں سے جھگڑا ہو گیا۔ننکو نے بیچ بچاؤ کیا اور دوسروں کے معاملے میں نہ پڑنے کی سہدیو کو نصیحت کی۔

٨ مہینے بعد جب رحمت میاں چھٹی پر اپنے گاؤں جانے لگا تو سہدیو نے کچھ چیزیں اس کے سنگ اپنے بھیا بھابھی کے لئے بھی بھیجی۔ رحمت کے گھر میں اسکی بیوی ختونیا ، بیٹا عرفان اور بوڑھا باپ رہتا تھا۔ رحمت کی جب کولیری واپسی ہوئی تو اس نے جليا کی شادی کی خبر سہدیو کو دی۔ یہ خبر سن کر سہدیو کو اپنے اندر کچھ خالی خالی سا لگا۔ کپل سنگھ کے آدمیوں سے لڑائی کی وجہ سے سہدیو کولیری میں کافی مشہور ہو گیا تھا۔اسی سلسلے میں سہدیو کی ایک دو بار مجمدار بابو سے بات ہوئی۔ مجمدار کتابیں پڑھنے کا شوقین تھا اور کولیری کے اندھیرے میں کیے جانے والے ظلم و جرم سے پردہ اٹھانا چاہتا تھا۔ مجمدار سہدیو کے دسویں پاس ہونے سے کافی متاثر ہوا۔اب سہدیو  کا کام کے بعد کا وقت زیادہ تر مجمدار کے گھر ہی گزرتا۔ مجمدار ہر مشکل میں سہدیو کے کام آتا۔

سہدیو کو کولیری آئے دو سال ہو چکے تھے، پر اب تک وہ گھر چھٹی پر نہیں گیا تھا۔ شاید اسکا دل جليا کی وجہ سے گاؤں سے اچاٹ ہو گیا تھا۔ اب تو سہدیو نے بھیا کی چٹھیوں کا جواب دینا بھی بند کر دیا تھا۔ یہ ہی پریشانی اس کے بھیا کو کولیری لے آئی اور سہدیو کا بھائی حاضری بابو سے بات کر کے اسے زبردستی پندرہ دن کی چھٹی پر گاؤں لے آیا۔ سہدیو نے بھابھی سے جليا کے بارے میں  پوچھا تو بھابھی نے بتایا کہ تمہارے بھیا نے ان سے رشتے کی بات کی تھی، مگر وہ لوگ چونکہ ذات گواتر میں ہم سے اونچے تھے اس لئے انہوں نے رشتے سے منع کر دیا۔

سہدیو رسول پور رحمت کے گھر پیسے اور بچے کے کھلونے دینے بھی گیا، وہاں اس کی ملاقات ختونیا، عرفان اور رحمت کے باپ سے ہوئی۔ سہدیو کا اس بار گاؤں میں دل نہیں  لگا اور وہ بامشکل ہی 13 دن گاؤں میں ٹھہر سکا اور چھٹی ختم ہونے سے پہلے ہی کولیری چلا آیا۔ اس بار اسے کولیری کا سماع بھی چپ چپ اور کھویا ہوا لگا جیسے ہر سو اک گہری اداسی ہو اور جیسے سب اس سے نظریں چرا رہے ہوں۔ ننكو نے اسے بتایا کہ رحمت میاں تین دن سے لا پتہ ہے، شاید زیادہ کام کے ڈر سے یا کسی عورت کے ساتھ بھاگ گیا ہے۔

سہدیو کا دماغ اپنے اندر اندر سوچنے لگا کہ رحمت میاں جیسا شانت آدمی پوری کولیری میں نہیں ہے اس لئے رحمت ایسا نہیں کر سکتا۔کہیں اندر سہدیو کو ختونیا اور عرفان کا خیال بھی آیا۔ سہدیو نے اس بارے میں مجمدار سے بات بھی کی۔ مجمدار نے اسے کہا کہ حاضری بابو سے بات کرے، اگر رحمت کولیری سے نکلا ہے تو اس کے دستخط حاضری بابو کے کھاتے میں ضرور موجود ہونگے۔ جب سہدیو مجمدار کے گھر سے نکلا تو اسے نشے میں ڈوبا کالا چند ملا۔ اس نے سہدیو کو بتایا کہ اسے مدنا باؤری سے معلوم ہوا ہے کہ رحمت میاں اب اس دنیا میں نہیں رہا۔

یہ بات نشے میں مدنا نے کالا چند کو بتائی تھی۔ مدنا چار روز سے سو نہیں پایا تھا کیوں کہ چھت سے کوئلے کا بڑا ٹکڑا رحمت پر گرنے کے وقت وہ وہیں تھا، لیکن رام اوتار نے اسے یہ بات کسی کو بھی بتانے سے منع کر دیا دیا تھا۔ چار روز خوف اور نشے کی حالت میں گزارنے کے بعد مدنا نے اپنا بوجھ کالا چند کے آگے بےدھیانی میں اتار دیا۔ اور کالا چند بھی زیادہ وقت یہ بوجھ اپنے سر نہ لے سکا۔ اس نے بھی اس راز کو سہدیو کے آگے اگل دیا۔ سہدیو یہ خبر سننے کے بعد سیدھا مدنا کے پاس گیا۔ مدنا نے اسے ساری تفصیل تو بتا دی، لیکن کپل سنگھ کے ڈر سے گواہی دینے سے انکار کر دیا اور صبح سویرے اپنے سامان اور بچوں سمیت گھر چھوڑ کر بھاگ نکلا۔

سہدیو نے رام اوتار سے بھی اس معاملے کی پوچھ گچھ کی کوشش کی لیکن رام اوتار نے اسے دھمکی دے کر خاموش کروا دیا۔لیکن سہدیو نے من بنا لیا کہ وہ اس معاملے کو اتنی آسانی سے ہضم نہیں ہونے دے گا۔ سہدیو نے مجمدار سے ذکر کیا کہ وہ یہ معاملہ یونین کے آگے رکھے۔ مجمدار نے اسے بتایا کہ یونین مزدوروں کے نہیں، صاحب اور بابو لوگوں کے اشاروں پر ناچتی ہے۔ سہدیو نے مجمدار کی مدد سے گمنام چٹھی لکھ کر مائیننگ ڈیپارٹمنٹ کو پوسٹ کی کہ شاید سچ سامنے آجائے اور انکوائیری شروع ہو، پر انکوائری تو شروع ہوئی لیکن بابو لوگوں نے گواہ بھی اپنی مرضی کے رکھے اور بیان بھی۔ سہدیو نے تہیہ کر لیا کہ کسی بھی طرح وہ انسپکٹر کے آگے گواہی ضرور دے گا۔ لیکن صاحب لوگوں نے پہلے ہی اپنی چال چل لی اور اس پر حملہ کروا دیا۔ مجمدار نے سہدیو کی مدد کرتے ہوئے جب گواہی دینے کی کوشش کی تو کپل سنگھ کے آدمی اسے مارتے پیٹتے وہاں سے لے گئے اور اس کی نوکری بھی ہاتھ سے گئی۔ اس واقع پر آکر پہلا باب اپنے اختتام کو پہنچا۔

دوسرا باب

دوسرے باب کے آغاز میں ہندوستان آزاد ہو چکا تھا، لیکن پھر بھی موہنا کولیری کے انگریز  سی ایم ای سمال صاحب اپنی ناک پر مکھی نہ بیٹھنے دیتے تھے۔ وہ اکلوتے افسر تھے، جو اب بھی گھوڑے پر سوار ہو کر کولیری آتے۔ وائٹ صاحب کے پاس فورٹین تھی۔ سمال نے اصغر خان کے بھتیجے کو گالی دی تھی۔ اصغر خان پٹھان دنگل کا مکھیا انعام الخان کا دایاں ہاتھ تھا۔ اصغر خان نے اپنے بھتیجے کا بدلہ لینے کو سمال صاحب کو گھوڑے سے گھسیٹ کر نیچے اتارا، جس کی وجہ سے سمال نے کافی بے عزتی محسوس کی اور اپنے عہدے سے استفعی دے دیا۔

وائٹ صاحب نے سمال کو ٹھنڈا کرنے کی بہت کوشش کی لیکن سمال نہیں  مانا۔ وائٹ نے انعام الخان سے بھی بات کی لیکن وہاں سے بھی کچھ بات بنتی نظر نہ آئی۔ جب مجمدار کی نوکری موہنا  کولیری میں پکّی ہو گئی تو اس نے سہدیو کو بھی یہاں بلوا لیا اور نوکری مل جانے والی خصوصیات اسے ازبر کروا دیں۔ سمال صاحب کے استعفیٰ سے گھوشال بابو بڑے خوش تھے کیوں کہ انہیں انگریزوں سے نفرت تھی۔ وائٹ، سمال اور لوکس بنگلے پر منصوبہ بندی کر رہے تھے کہ انعام الخان بھی چلا آیا۔انعام الخان نے افسروں کو خوش کرنے کی کوشش میں اصغر خان کی طرف  سے معافی بھی مانگی لیکن برف زیادہ پگھلی نہیں۔

ائی این ٹی یوسی والوں نے جب دیکھا کہ کمپنی اور انعام الخان کے بیچ معاملے خراب ہو رہے ہیں تو انہوں نے خفیہ طور پر اپنے ممبر بڑھانے کی کوشش تیز کر دی۔ لالہ دیپ نارائن کی قیادت میں سہدیو سمیت ائی این ٹی یوسی کے چھے لوگوں کا وفد انعام الخان پر غم و غصّہ ظاہر کرنے لوکس کے بنگلے پر پہنچا۔ لوکس نے انہیں ممبر بنانے کی اجازت دے دی اور کہا ہفتہ دس دن بعد نیا سی ایم ائی آجائے گا، تو ایک جلسہ کر کے اپنے لیڈر پی این ورما کو بلائیے اور ایک گرم بھاشن دیجیے۔ انعام الخان کے تابوت میں آخری کیل ہم ٹھونکے گے۔ مجمدار بھی اسی کولیری میں تھا مگر اس کے ممبر ٢٥ ،٣٠ سے زیادہ نہیں تھے۔سہدیو کو لیڈری کا شوق نہیں تھا مگر وہ تبدیلی کے لئے اس یونین کا حصّہ بنا تھا۔

آفس کے لوگوں اور پی این ورما کے بیچ کھچڑی پکی اور پی این ورما نے بظاھر مزدوروں کا ساتھی بن کر ایک جلسے کے بعد مزدوروں کی تنخوا بڑھوا دی۔ اس تبدیلی پر مزدور کافی خوش ہوئے اور اس یونین کو اپنا ساتھی مان کر اس میں شمولیت شروع کر دی۔ مگر سہدیو کو احساس ہو چکا تھا کہ کول فیلڈ میں سچ کہیں بھی نہیں ہے۔ انعام الخان اس نئی یونین میں مزدوروں کی شمولیت پر تنفر کا شکار تھا اور اب حالات ایسے تھے کہ دونوں یونین میں ٹکراؤ لازم تھا۔ یہ سچ بھی ہوا اور دونوں یونین میں مدبھیڑ ہو گئی۔ اور رات کے کسی وقت نئی یونین کے دو آدمیوں کا قتل ہو گیا۔ پی این ورما نے یہ الزام انعام الخان اور اصغر خان وغیرہ  پر لگا کر انہیں جیل کروا دی۔ پٹھان دنگل رو پوش ہو گیا۔

اتوار کے روز مجمدار اپنی منہ بولی ابهاگن بہن  پرتی بالا سے ملنے گیا تو ساتھ میں سہدیو کو بھی لے گیا۔ ناجانے سہدیو کے من میں کیا سمائی کہ اس نے مجمدار سے بات کر کے پرتی بالا سے شادی کرلی۔ ڈیڑھ ماہ بعد سہدیو کا بھائی آیا تو ابهاگن سے شادی کرنے پر کافی برہم ہوا۔ لیکن سہدیو کے سمجھاؤ بجھاؤ کے بعد دونوں کو گاؤں لیتا آیا۔ گاؤں آنے کے بعد سہدیو کی بھابھی نے انکی خوب خدمت کی اور ان کی اس خدمت کرنے کا چکّر جلد ہی سمجھ آگیا، جب سہدیو کے بھائی نے اسے اسکی گاؤں کی زمین لڈو کے نام کرنے کا کہا۔ پرتی بالا جو پہلے ہی گاؤں والوں کے طعنوں سے سخت نالاں تھی۔ اس نے سہدیو سے پہلے ہی حامی بھر دی اور وہ گاؤں سے چلے آئے۔

سہدیو جوناشن کے ساتھ جهريا گیا تو چائے کی دکان پر اسے ختونیا ملی، جس سے باتوں میں معلوم ہوا کہ وہ اب چھ سال سے یہاں ہی کوئلہ بیچ کر اپنا گزارا کر رہی ہے۔ اور عرفان کو یہاں ہی اسکول میں لگایا ہوا ہے۔ اب عرفان بھی کافی بڑا ہوگیا ہے اور ماں کو کوئلہ بیچنے سے منع کرتا ہے۔جب ختونیا سہدیو کے گھر آئی تو اس نے بتایا کہ شروع شروع میں اس نے رحمت کو ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی پھر آہستہ آہستہ اسے سب خبر لگ گئی اور جو کچھ رحمت کے معاملے میں پڑنے  پر سہدیو کے ساتھ ہوا وہ بھی پتہ لگ گیا۔ سہدیو جو ختونیا سے اتنے عرصے اس لئے نہیں ملا تھا کہ اگر اس نے رحمت کے بارے کوئی سوال کیا تو وہ کیا جواب دے گا۔ ختونیا سے یہ سب سن کر اس نے سکون کی سانس لی کہ اس سے کوئی جواب طلبی نہیں ہوئی۔

پی این ورما اب کافی بڑا لیڈر بن چکا تھا۔ اب پچاسوں کولیری تک اسکا جھنڈا لہرا رہا تھا، اب اس کے پاس وقت نہیں تھا اس لئے اس نے ہر کولیری میں اپنے نمائندے چھوڑ رکھے تھے۔ لالہ دیپ نارائن کی بیوی نے بستر سے لگے ہونے کی وجہ سے اپنے بچوں کے لئے سہدیو سے مدد مانگنے کی کوشش کی کہ انہیں کوئی کام دلوا دے۔ سہدیو نے بچوں کی کم عمری کی وجہ سے کہا کہ وہ یونین سے بات کرے گا۔ لالہ کی بیوی نے کہا کونسی یونین جو مزدور کی ہے ہی نہیں۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ لالہ کا قتل انعام الخان نے نہیں پی این ورما نے کروایا تھا کیوں کہ قتل ہوتے وقت اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، پر بچوں کی جان بچانے کی خاطر وہ چپ رہی۔

لالہ دیپ کی بیوی سے مل کر سہدیو گھر آیا تو اسے پی این ورما کا آدمی بلانے آیا۔ سہدیو نے جانے سے انکار کر دیا۔پھر وائٹ صاحب کا سہدیو کو بلاوا آگیا۔ وائٹ صاحب نے اسے ورما سے ملنے اور اسکی یونین کے لئے کام کرنے کو کہا لیکن سہدیو نے منع  کر دیا۔وائٹ صاحب نے اس کا انکار سن کر اس کے خلاف جھوٹے الزاموں کی چارج شیٹ جاری کر دی  اور اسے کہا کہ ورما کے لئے کام کر لو تو یہ الزامات ختم ہو سکتے ہیں مگر وہ نہ مانا اور نتیجہ یہ نکلا کہ اسکی نوکری چلی گئی۔

آمدنی کا ذریعہ بند ہوا تو سہدیو پینے کا عادی ہو گیا۔ ایک دن نشے کی حالت میں اس نے بھرے بازار میں اس راز سے پردہ اٹھا دیا کہ لالہ دیپ کو انعام الخان نے نہیں پی این ورما نے مروایا تھا۔ یہ سن کر پی این ورما کے آدمیوں نے اسے اتنا مارا کہ وہ تین چار ماہ اٹھنے کے قابل نہیں رہا۔ کواٹر سے کمپنی والوں نے اسکا سامان نکال کر باہر پھینک دیا۔ ختونیا کو خبر ملی تو وہ سہدیو اور اس کے سامان کو اپنے گھر لے گئی اور اسکا علاج کروایا۔عرفان اب بڑا ہو چکا تھا اور چاس نالہ کولیری میں کام کیا کرتا تھا۔ بیماری کے اس وقت میں عرفان نے بھی سہدیو کی بہت خدمت کی۔ عرفان مجمدار کے پاس زیادہ آنے جانے لگا تھا۔ مجمدار نے اسی کے زریعے سہدیو کو پیغام بھجوایا کہ پتھر کھیڑا کولیری اک چھوٹی کولیری ہے، اسکا مالک بنیا ہے، وہ پورا اسٹاف نہیں رکھ سکتا مگر اسے ایک مائیننگ سردار کی ضرورت ہے۔ جو حاضری بنائے اور دستخط کرے۔ سہدیو کے پی ایف کے پیسے بھی ختم ہو گئے تھے، اس لئے اس نے اس نوکری کی حامی بھر لی۔ اب مجمدار کے ساتھ بھی پچاس ہزار لوگ جڑ چکے تھے، اسی لئے وہ سہدیو سے ملنے کم ہی آتا تھا، مگر اس نے سہدیو کے بار بار مار کھانے کے باوجود انسانیت نہ چھوڑنے پر داد دی تھی۔ اسی دوران اندرا گاندھی نے تمام کولیری کو نیشنلائز کر دیا اور اسی کے ساتھ ناول کا دوسرا باب اختتام پذیر ہوگیا۔

تیسرا باب

تیسرے باب کے آغاز میں کولیریا نیشنلائیز ہونے کے بعد سہدیو کو بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سہدیو کا نام کھاتے میں ضرور موجود تھا، مگر اسکے نام کا پی ایف جمع نہیں ہوا۔ اس لئے اسکی نوکری پرمننٹ نہ ہو سکی۔ اس نے کافی بھاگ دوڑ کی کہ کسی طرح بات بن جائے مگر سب بے سود۔ کچھ لوگوں نے اسے مشورہ دیا کہ رشوت سے بات بن سکتی ہے، مگر رشوت دینے کو سہدیو راضی نہ ہوا۔ چھ مہینے سہدیو دفتروں میں دھکے کھا کھا کر تھک چکا تھا۔ کسی نے اسے مشورہ دیا کہ وہ نام بدل کر نوکری کر لے، مگر سہدیو اس پر بھی راضی نہ ہوا کہ یہ حرکت اسکے لئے سیدھی سیدھی گالی ہوگی۔

ایسے موقع پر اس کی ملاقات بھاردواج کے آدمی ست نارائن سے ہوئی۔ بھاردواج ایک ابھرتی ہوئی ہستی تھی، جو اپنا کام بندوق کی نال سے نكلوانا اچھے سے جانتی تھی۔ اس نے سہدیو سے وعدہ لیا کہ وہ سہدیو کا کام کر دے گا مگر بدلے میں سہدیو کو بھی اسکا کام کرنا ہوگا۔سہدیو نے اس کا کام کرنے کی حامی بھر لی۔ اور جو کام سہدیو اتنے عرصے میں نہ کر سکا وہ کام بھاردواج کی بندوق کی نال نے ١٥ منٹ میں کر دکھایا۔ پھر سہدیو کی نوکری تو لگ گئی، ساتھ ہی وہ ساری کولیری میں مشہور ہو گیا کہ سہدیو بھاردواج کا آدمی ہے۔

اب کولیری میں سہدیو کا الگ ہی دبدبہ تھا۔ اب کوئی بندہ بھی سہدیو سے پنگے لینے کی کوشش نہیں کرتا تھا، چاہے وہ آفس کا بندہ ہو یا مزدور۔ یہ فتح سہدیو کو بھی کافی اچھی لگ رہی تھی۔ اس لئے وہ ہر برائی پر پردہ ڈالے بهاردواج کے قریب ہوتا گیا۔ اسی دوران کولیری میں بهاردواج کی یونین آنے والی تھی تو سہدیو بھی اس کے لیے سر توڑ کوششیں کر رہا تھا۔ اب تو سہدیو اپنی معاملہ فہمی اور عقل مندی کی وجہ سے آفسروں اور مزدوروں کا چہیتا بن گیا تھا۔

دهرما کولیری میں دلت مزدور سنگھ (بهاردواج کی یونین ) کا آفس کھل گیا۔ جشن بھی ہوا، سہدیو نے بھی تقریر کی، اب وہ آہستہ آہستہ لیڈر بننے لگا تھا۔ بهاردواج نے اب اسے کولیری سے نکال کر پارٹی آفس میں بٹھا دیا تھا، جہاں وہ سارے کیس خود دیکھتا اور مزدوروں  کی فریاد سنتا۔
بھرت سنگھ بهاردواج کا بہت خاص آدمی تھا، اس نے بهاردواج کے کہنے پر ان گنت قتل کیے تھے۔ اس کے نام کتنی ہی ایف آئی آر کٹ چکی تھیں، مگر ہمیشہ پولیس اسے پکڑنے میں ناکام رہتی یا پھر لوگ جان چلے جانے کے ڈر سے گواہی دینے کو ہی نہیں مانتے تھے۔

مجمدار کی یونین میں اب ممبرز کی تعداد لاکھوں میں ہو چکی تھی۔ پر وہ اب سہدیو سے ناراض تھا کہ اس نے اپنے ضمیر کی سننا چھوڑ دی ہے۔ اور وہ غلط لوگوں کے پهندے میں پھنس گیا ہے اور ساتھ ہی ہر برائی سے اپنی آنکھیں بند کر کے بیٹھ گیا ہے۔ اک روز مجمدار بیمار پرتی بالا کو دیکھنے اس کے گھر آیا تو اس نے سہدیو کو احساس دلایا کہ وہ جانے انجانے میں جرم کی دنیا میں قدم رکھ چکا ہے۔ اب کہیں نہ کہیں وہ خود بھی ایک مجرم ہے۔ اب اس کے ہاتھوں پر بھی خون کے چھینٹے لگے ہیں، جو وہ دیکھ نہیں پا رہا ہے۔ مجمدار کی ان باتوں نے سہدیو پر گہرا اثر کیا اور وہ اب سوچتا رہتا کہ کیا سچ میں وہ غلط ہے؟
کیا وہ بھی ہتھیارا ، قاتل ہے؟

ایک میلے میں چوہان کے چار گنڈوں نے کسی لڑائی میں بھرت سنگھ کو مار دیا۔ پولیس نے پانچ لوگوں کو گرفتار کیا جس میں ایک بے قصور شخص مجمدار کی یونین کا بندہ بھی تھا۔ بھرت سنگھ کے قتل کے بعد بهاردواج طیش میں آگیا اور اس نے فیصلہ لیا کہ چوہان کے ان بندوں کے ریلیز ہوتے ہی انہیں اڑا دیا جائے۔ جب مجمدار کو یہ خبر ملی تو اس نے کسی طرح ان کی ریلیز رکوا دی۔کیوں کہ اس میں اسکی یونین کا اک بےقصور مزدور بھی شامل تھا۔ بهاردواج کو جب مجمدار کے ریلیز رکوانے کا علم ہوا تو اس نے مجمدار کے گھر پہنچتے ہی اسکی گاڑی پر حملہ کروا دیا۔مجمدار بری طرح زخمی ہوا اور عرفان کے بازو میں گولی لگی۔ سہدیو مجمدار سے ملنے بھی نہیں جا سکتا تھا کیوں کہ وہ بھی بهاردواج کا آدمی تھا۔ جتنے روز مجمدار ہسپتال میں رہا، اتنے دن سہدیو پر کافی بھاری رہے۔ وہ روز ہسپتال فون کر کے مجمدار کی خیریت معلوم کرتا، مگر ایک ہی جواب ملتا کہ مجمدار کو ہوش نہیں آیا ہے۔ وہ روز اپنے ہاتھوں پر خون تلاشنے کی کوشش کرتا۔ اب روز اسکا ضمیر اسے روز کچوکے لگاتا۔

آخر کار غم کی خبر آگئی اور مجمدار اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ مجمدار کی موت کے بعد اسکی یونین کا جلوس نکلا۔ اتنا بڑا جلوس جتنا کبھی کسی نے نہ دیکھا نہ سنا، یہ جلوس عرفان کی سرپرستی میں نکلا تھا اور ان کی ایک ہی مانگ تھی۔
         ”قاتلوں کو پھانسی دو“
سہدیو کی نظر جلوس میں موجود جس شخص پر اب گئی وہ ختونیا تھی، اس کی آنکھوں میں آگ تھی، وہ بھی نعرے لگا رہی تھی۔ اب سہدیو کے پاس سوچنے کے لئے مزید کچھ نہ بچا تھا۔ آخر کار وہ بھی اپنے قدم بڑھا کر اس جلوس میں شامل ہو گیا اور اسی کے ساتھ ناول کے آخری باب اور ناول کا اختتام ہوگیا۔

از تحریر ہادی خان پاکستان﴿اسلام آباد﴾