غیروں پہ کھل نہ جائے کہیں راز دیکھنا

0

غزل

غیروں پہ کھل نہ جائے کہیں راز دیکھنا
میری طرف بھی غمزۂ غماز دیکھنا
اُڑتے ہی رنگ رُخ مرا نظروں سے تھا نہاں
اس مرغ پر شکستہ کی پرواز دیکھنا
دشنام یار طبع حزیں پرگراں نہیں
اے ہم نفس! نزاکت آواز دیکھنا
دیکھ اپنا حال زار منجم ہوا رقیب
تھا سازگار طالع ناساز دیکھنا
میری نگاہ خیرہ دکھاتے ہیں غیر کو
بے طاقتی پہ سرزشنِ ناز دیکھنا
کشتہ ہوں اس کی چشم فسوں گر کا اے مسیح
کرنا سمجھ کے دعویٰ اعجاز دیکھنا
ترک صنم بھی کم نہیں سوزِ حجیم سے
مومن غم مآل کا آغاز دیکھنا

تشریح

پہلا شعر

غیروں پہ کھل نہ جائے کہیں راز دیکھنا
میری طرف بھی غمزۂ غماز دیکھنا

شاعر محبوب سے مخاطب ہے۔کہتا ہے کہ دیکھنا کہیں غیروں پہ ہماری محبت کا راز افشا نہ ہوجائے۔ لہذا اگر بزم میں میری جانب دیکھنا ہو تو محض اِشارے ہی سے دیکھ لینا کہ کسی کو خبر تک نہ ہو۔

دوسرا شعر

اُڑتے ہی رنگ رُخ مرا نظروں سے تھا نہاں
اس مرغ پر شکستہ کی پرواز دیکھنا

چہرے کا رنگ اڑنا گویا ایک رنگ آنا ایک جانا۔ اُڑتا چہرے کا رنگ دکھائی نہیں دیتا اور اڑنے کی مناسبت سے شاعر نے مُرغ اور پرواز کے لفظ استعمال کیے ہیں۔ کہتا ہے کہ چہرے کا رنگ اڑا اور اڑتے ہی نظروں سے اوجھل تھا۔ اس ٹوٹے پر کے پرندے یعنی رنگی پرواز کو تو دیکھو کہ ایک لمحے میں نظروں سے غائب ہو گیا۔

تیسرا شعر

دشنام یار طبع حزیں پرگراں نہیں
اے ہم نفس! نزاکت آواز دیکھنا

شاعر محبوب کی آواز کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میرے محبوب کی آواز کی نزاکت کا یہ عالم ہے کہ اس کی گالیاں بھی اس رنجیدہ طبیعت پر نا گوار نہیں گذرتیں۔ حالانکہ نہ ہی گالیاں گوارا ہوتی ہیں اور نہ ہی گالیاں دینے والا۔ مگر اس کی آواز کی نذاکت ناگوار کو گوارا بنا دیتی ہے۔

چوتھا شعر

دیکھ اپنا حال زار منجم ہوا رقیب
تھا سازگار طالع ناساز دیکھنا

شاعر کہتا کہ عشق میں ہمارا حال تباہ ہو گیا۔ ہمارے اس برے حال کو دیکھ کر ہمارے رقیب کو اندازہ ہو گیا کہ ہم کو عشق ہو گیا ہے۔ گویا ہماری تباہ حالت نے ہمارے دشمن کو نجومی بنا دیا۔ اب شاعر کہتا ہے کہ ہمارے اس ساز گار یعنی موافق مقدر کے ہم کو عشق ہوا ناسازی یعنی محالفت دیکھیے کہ سب کو ہمارے عشق کی رازداری کا پتہ چل گیا۔

پانچواں شعر

میری نگاہ خیرہ دکھاتے ہیں غیر کو
بے طاقتی پہ سرزشنِ ناز دیکھنا

شاعر کہتا ہے کہ میں نے محبوب کی جانب دیکھا تو میری نگاہیں خیرہ ہوگئیں۔ محبوب میری حیران آنکھیں دکھاتے ہوئے جیسے رقیب کو کہہ رہا ہے کہ اس کی حالت تو ملاحظہ فرمائیے۔اب شاعر کہہ رہا ہے کہ میری اس پریشانی پر میرے نازوانداز والے محبوب کی پھٹکار دیکھیے کہ کیسے مجھے غیر کے سامنے ذلیل کر رہا ہے۔

چھٹا شعر

کشتہ ہوں اس کی چشم فسوں گر کا اے مسیح
کرنا سمجھ کے دعویٰ اعجاز دیکھنا

شاعر کہتا ہے کہ میں محبوب کی جادو کرنے والی نگاہوں کا قتل کیا ہوا ہوں۔اس لیے میرا زندہ ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔لہذا حضرت مسیح آپ اعجاز کا دعوی ذرا سوچ سمجھ کر کیجئے کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کا اعجاز کام نہ آئے اور آپ کو شرمندگی اٹھانا پڑے۔