غزل کی تعریف، اجزائے ترکیبی، غزل کی روایت ، مسلسل غزل ، قطعہ کی تعریف

0
  • اردو کی ادبی اصناف (ثانوی و اعلیٰ جماعت کے لیے)
  • سبق نمبر02:شعری اصناف

غزل:

اردو شعری اصناف میں غزل کی خاص اہمیت ہے۔ غزل کی مقبولیت کا بڑا سبب اس کا ایجاز و اختصار، اشاراتی اسلوب اور غنائیت ہے۔ غزل میں گوناگوں انسانی جذبوں اور قلبی واردات کوکم سے کم لفظوں میں ادا کیا جاتا ہے۔ غزل کی شاعری بنیادی طور پر عشقیہ اور غنائی ہوتی ہے۔ تاہم یہ صنف عشقیہ موضوعات کی پابند نہیں رہی۔

انسانی جذبوں اور تجربوں کی جیسی رنگارنگلی ہمیں اس صنف میں دکھائی دیتی ہے کسی اور صنف میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ غزل کی مقبولیت کا بہت بڑا سبب مضامین و موضوعات کی یہی رنگا رنگی ہے۔

عام طور پر غزل میں کسی مخصوص موضوع کی پابندی نہیں کی جاتی۔ غزل کا ہر شعر اپنے آپ میں مکمل ہوتا ہے۔ غزل کی ایک مخصوص ہیئت ہوتی ہے۔ اس میں مطلع ،حسن مطلع ، قافیہ اور ردیف وغیرہ کی خاص اہمیت ہے۔غزل کا پہلا شعر مطلع ہوتا ہے جس کے دونوں مصرعوں میں قافیے کی پابندی ضروری ہے۔ مثلاً میر تقی میر کی غزل کا مطلع ہے :

دیکھ تو دل کے جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے

اس شعر کے پہلے مصرعے میں لفظ جاں شعری اصطلاح میں قافیہ ہے۔ جس کی صوتی مناسبت سے دوسرے مصرعے میں کہاں کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ مطلع کے بعد ہر شعر کے دوسرے مصرعوں میں قافیے کی پابندی کی جاتی ہے۔ اس طرح غزل کے تمام اشعار ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ جیسے میر تقی میر کی اس غزل کا ایک اور شعر ہے :

یوں اٹھے آہ اس گلی سے ہم
جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے

اس شعر میں جہاں کا لفظ قافیے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے جو اپنے آہنگ کے لحاظ سے ، جاں اور کہاں سے مماثلت رکھتا ہے۔واب مطلع پردوبارہ غور کریں:

دیکھ تو دل کے جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے

اس شعر میں جاں اور کہاں الفاظ بطور قافیہ استعمال ہوئے ہیں۔ ان کے بعد دونوں مصرعوں کے آخر میں سے اٹھتا ہے کی تکرار ہے۔ شعر کی اصطلاح میں، اسے ردیف کہتے ہیں یعنی قافیے کے بعد ایک لفظ یا لفظوں کا مجموعہ جسے ہر شعر کے دوسرے مصرعے میں قافیے کے بعد دو ہرایا جا تا ہے۔ میر کے اس مطلع میں سے اٹھتا ہے تین پرمشتمل ردیف ہے۔ ایک لفظ کی ردیف کی مثال درج ذیل ہے۔

الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا

شعر میں صوتی مناسبت سے کام اور تمام قافیے ہیں۔ کیا جو صرف ایک لفظ ہے، ردیف کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ کچھ غزلیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں روایف نہیں ہوتی ۔ انھیں غیر مردف کہتے ہیں جیسے غالب کی غزل:

نے گل نغمہ ہوں نہ پردہ ساز
میں ہوں اپنی شکست کی آواز

اس شعر میں ساز اور آواز قافیے ہیں لیکن کوئی ردیف نہیں ہے۔غزل کی ہیئت میں قافیہ اور ردیف کی بنیادی اہمیت ہے۔ یہ دونوں چیزیں غزل میں خوش آہنگی پیدا کرتی ہیں۔ ردیف کی پابندی سے شعر کی مجموعی غنائیت دو بالا ہو جاتی ہے۔

مطلع کے بعد آنے والے شعر کو حسنِ مطلع کہتے ہیں۔مطلع کے بعد اگر ایک اور ایسا شعر کہا جاۓ جس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ یا ہم ردیف ہوں تو ایسے مطلع کو مطلع ثانی کہتے ہیں۔ اگر تیسرا مطلع بھی کہا جائے تو اسے مطلع ثالث کہتے ہیں۔

غزل میں اشعار کی تعداد مقرر نہیں ہے۔ بیش تر اساتذہ نے م سے م 5 اشعار کی پابندی کی ہے۔ اگر اس زمین میں دوسری اور تیسری غزل بھی کہی جائے تو اسے دو غزلہ یا سہ غزلہ کہتے ہیں۔جس کے آخری شعر یا مقطع میں شاعر ایک غزل کو دوسری غزل سے جوڑنے کا ارادہ ظاہر کرتا ہے۔ غزل کا آخری شعر جس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرتا ہے اسے مقطع کہتے ہیں۔مقطع کی ایک مثال ملاحظہ ہو:

میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالب
مفت ہاتھ آئے تو برا کیا

غزل کی ایک مخصوص تہذیب اور روایت رہی ہے۔ اس میں حسن و عشق ، تصوف اور رندی و سرمستی کے مضامین بیان کیے جاتے ہیں۔ تاہم شعرا نے اپنی غزل کو انھیں مضامین تک محدود نہیں رکھا۔ اس میں زندگی کے ہر مضمون کو موضوع بنایا گیا ہے ۔ مثلا

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہہ شیشہ گری کا
(میرتقی میر)
محرم نہیں ہے تو ہی،نواہائے راز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے،پردہ ہے ساز کا
(غالب)
زیر زمیں سے آتا ہے جو گل سوزر بکف
قاروں نے راستے میں لٹایا خزانہ کیا
(آتش)
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن،اپنا تو بن
(اقبال)
توڑ کر عہد کرم نا آشنا ہو جائیے
بندہ پرور جائیے،اچھا خفا ہو جائیے
(حسرت موہانی)
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
(فیض)

غزل کا گلدستہ انھیں رنگا رنگ مضامین سے مل کر تیار ہوتا ہے۔ غزل کی مقبولیت میں غزل کی ہیئت کے ساتھ مضامین کے اس منوع کا بھی بڑا دخل ہے۔ جیسے غالب کی یہ غزل:

کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی
کعبہ کس منہ سے جاوگے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی

اردو غزل کا ارتقا:

اردو میں غزل کی روایت کا آغاز قلی قطب شاہ سے ہوا۔ ولی دکنی نے غزل کی اس روایت کو مستحکم کیا۔ انھوں نے فارسی غزل کے مضامین اور تشبیہات و استعارات کو اپنی غزل میں برتا اور ایک نئی روایت کی بنیاد ڈالی۔ ولی کے ہم عصر سراج اورنگ آبادی کے کلام میں بھی جذب ومستی کی ایک خاص فضا ملتی ہے۔

ولی کے اثر سے شمالی ہند بالخصوص دہلی میں اردو شاعری کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ شمالی ہند کے پہلے دور کے شعرا میں فائز دہلوی ، آبرو، شاکر ناجی ،مضمون ، یک رنگ، آرزو قابل ذکر ہیں۔ ان شعرا کے کلام میں ایہام گوئی کا عنصر غالب ہے جو اس عہد کا خاص رجحان تھا۔ مرزا مظہر جان جاناں اور شاہ حاتم نے زبان کی اصلاح کی طرف توجہ کی اور غزل کو ایہام گوئی سے پاک کرنے میں اہم رول ادا کیا۔

اٹھارھویں صدی کو اردو شاعری کا سنہرا دور کہا گیا ہے۔ اس دور میں میر ، سودا اور درد جیسے باکمال شعرا نے غزل کی روایت کو فروغ دیا۔ میر کی غزل سادگی ، جذبات کی شدت، درد و سوز کی کیفیات اور احساسات کی دل کشی میں اپنی مثال آپ ہے۔

سودا قصیدے کے اہم شاعر ہیں مگر غزل میں بھی وہ ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ ان کی غزلوں کا آہنگ بلند ہے اور لہجہ پرشکوہ۔ خواجہ میر درد کی غزل میں تصوف کا رنگ نمایاں ہے۔ مصحفی ، آتش اور تاریخ نے غزل کو نئے رنگ و آہنگ سے آشنا کیا۔ غالب نے اسے فکر وفن کی نئی بلندیاں عطا کیں۔ اقبال نے غزل کو فکر و فلسفہ سے متعارف کرایا۔

بیسویں صدی میں اقبال کے بعد شاد عظیم آبادی، اصغر گونڈوی، فانی بدایونی ، حسرت موہانی ، یگانہ چنگیزی، فراق گورکھپوری اور جگر مراد آبادی نے ایسے زمانے میں غزل ہی کو اپنے اظہار کا وسیلہ بنایا جب فلموں کا دور دورہ تھا۔ ان شعرا کی غزل کلاسیکی رنگ میں رچی بسی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نئے دور کا پس منظر مہیا کرتی ہے۔بیش تر ترقی پسند شعرا نظم گوئی کی طرف مائل تھے لیکن ان میں مجروح اول تا آخر غزل ہی سے وابستہ رہے۔

فیض اور مخدوم نے بھی نظم کے ساتھ غزل سے اپنا رشتہ قائم رکھا۔ فیض اور مخدوم نے غزل کے نرم و سبک لہجے میں سیاسی لاش کی ترجمانی کی۔ ترقی پسند تحریک کے عروج کے زمانے میں شعرا کا ایک ایسا حلقہ بھی منظر عام پر آیا جس کے لہجے میں نرمی تھی اور جو اپنی غزلوں میں اپنے عہد کی بے چینیوں کا اظہار کر رہا تھا۔

ناصر کاظمی ، خلیل الرحمن اعظمی ، ابن انشا، شاد عارفی اور منیر نیازی اس عہد کے نمائندہ غزل گو ہیں۔ ان شعرا کے بعد احمد مشتاق، شہزاد احمد،ظفر اقبال، محمد علوی ،شہر یار ، حسن نعیم ، عرفان صدای مظفر خفی ، افتخار عارف اور شجاع خاور وغیرہ کی غزل کئی اعتبار سے متوجہ کرتی ہے۔ اردو غزل کا یہ سفر آج بھی جاری ہے اور بہت سے نئے شعرا اس میدان میں طبع آزمائی کر رہے ہیں۔

مسلسل غزل:

عام طور پر غزل کا ہر شعر مختلف مضمون پر مبنی ہوتا ہے۔ اس لیے غزل کے اشعار معنوی اعتبار سے زنجیر کی کڑیوں کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ مربوط نہیں ہوتے۔ بعض شعرا نے ایسی غزلیں بھی کہی ہیں جو ابتدا سے انتہا تک کسی خاص کیفیت کی نمائندگی کرتی ہیں ایسی غزل کو مسلسل غزل کہتے ہیں۔ میر، نظیر، اکبر، حالی ، جوش ، اقبال ، فراق وغیرہ کے یہاں مسلسل غزل کی مثالیں ملتی ہیں۔ نمونے کے طور پر اقبال کی یہ غزل دیکھیے:

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں
یہاں سیکڑوں کارواں اور بھی ہیں
قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں
اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم
مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں
گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں

یا مومن کی یہ غزل:

وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

یا حسرت موہانی کی یہ غزل:

چپکے چپکے رات دن دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے

قطعہ بند:

غزل کے اشعار معنوی اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں یعنی ان میں کوئی مسلسل نہیں ہوتا۔ تاہم بعض اوقات شاعر غزل میں دو یا دو سے زیادہ ایسے اشعار کہتا ہے جن میں معنوی ربط پایا جا تا ہے۔ ان کو قطعہ بند اشعار کہتے ہیں۔ قطعہ بند میں شاعر ایک ہی خیال کو ایک سے زائد اشعار میں بیان کرتا ہے۔ قطعہ بند اشعار کی پہچان کے لیے ان شعروں کے بیچ ’ق لکھ دیا جا تا ہے۔ ق قطعہ کا مخفف یا مختصر ٹکڑا ہے۔ ذیل میں غالب کی غزل کے قطعہ بند اشعار ملاحظہ ہوں:

دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
ہم ہیں مشتاق،اور وہ بیزار
یا الہی! یہ ماجرا کیا ہے
میں بھی منھ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے (ق)
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے
شکن زلف عنبریں کیوں ہے
نگہ چشم سرمہ سا کیا ہے
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
ہاں بھلا کر ترا بھلا ہوگا
اور درویش کی صدا کیا ہے
جان تم پر نثار کرتا ہوں
میں نہیں جانتا دعا کیا ہے
میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالبؔ
مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے (ق)