Advertisement

ختم شور طوفان تھا دور تھی سیاہی بھی
دم کے دم میں افسانہ تھی مری تباہی بھی

Advertisement

التفات سمجھوں یا بے رخی کہوں اس کو
رہ گئی خلش بن کر اس کی کم نگاہی بھی

اس نظر کے اٹھنے میں اس نظر کے جھکنے میں
نغمۂ سحر بھی ہے آہ صبح گاہی بھی

یاد کر وہ دن جس دن تیری سخت گیری پر
اشک بھر کے اٹھی تھی میری بے گناہی بھی

پستی زمیں سے ہے رفعت فلک قائم
میری خستہ حالی سے تیری کج کلاہی بھی

Advertisement

شمع بھی اجالا بھی میں ہی اپنی محفل کا
میں ہی اپنی منزل کا راہ بر بھی راہی بھی

گنبدوں سے پلٹی ہے اپنی ہی صدا مجروح
مسجدوں میں کی میں نے جا کے داد خواہی بھی