غیبت ، منافقت، تکبر، اور حسد کے متعلق سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 19

سوال۱)غیبت و اتہام کا فرق واضح بیان کریں۔

جواب: غیبت اور اتہام میں فرق ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ غیبت سے مراد کسی شخس کی عدم موجودگی میں اس کی ایسی برائی بیان کرنا ہے، جو اس میں موجود ہے، جب کہ تہمت لگانے سے مراد یہ ہے کہ کسی شخص کاایسا عیب بیان کیا جائے جو اس میں موجود نہ ہو اور اس کے دامن عفت کو بلاوجہ داغ دار بنایا جائے۔

سوال۲)منافقت کے متعلق لکھیں۔

جواب:علمائے اسلام نے منافق کی دو اقسام بیان کی ہیں۔ ایک وہ منافق جو دل سے اسلام کی صداقت و حقانیت کا قائل نہیں، لیکن کسی مصلحت یا شرارت کی بناء پر اسلام کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں اور اسلام دونوں کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ اسے اعتقادی منافق کہتے ہیں۔دوسرا وہ منافق ہے جو اگرچہ خلوص نیت سے اسلام قبول کرتا ہے لیکن بعض بشری کمزوریوں کی وجہ سے اسلام کے عملی احکام پر چلنے میں تساہل یا کوتاہی کرتا ہے۔ اسے عملی منافق کہتے ہیں۔ پہلی قسم کا منافق کافروں سے بدتر ہے، جب کہ دوسری قسم کا منافق صاحب ایمان ضرور ہے لیکن اس کی تعلیم و تربیت ابھی ناقص ہے جو کسی معلم و مربی کے فیضان محبت سے اسے حاصل ہو سکتی ہے۔

مسلمانوں کے خلاف منافقوں کی سب سے خطرناک چال یہ ہوتی ہےکہ وہ دین داری کے پردے میں مسلمانوں کو باہم لڑادیں۔ اسی مقصد کے لیے انھوں نے مدینے میں مسجد بنوی ﷺ کے مقابل مسجد ضرار تعمیر کی تھی لیکن اللہ تعالیٰ کے حکم سے نبی کریمﷺ نے اس مسجد کو مسمار کرا کے ان کی سازش کو ناکام بنادیا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: اے نبی! لڑائی کر منکروں سے اور دغابازوں سے اور سختی کر ان پر اور ان کا گھر دوزخ ہے۔ (سورۃ التحریم: ۹)

  • ایک مرتبہ نبی کریمﷺ نے منافق کی پہچان بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا: منافق کی تین نشانیاں ہیں۔
  • ۱)جب بولے تو جھوٹ بولے۔
  • ۲) جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے۔
  • ۳) جب کوئی امانت اس کے سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کرے۔
  • ان نشانیوں کے ہوتے ہوئے چاہے وہ نماز اور روزے کا پابند ہو، وہ منافق ہی ہے۔ قرآن مجید میں ان منافقوں کے انجام کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ دوزخ کے سب سے نچلے اور تکلیف دہ حصے میں رکھے جائیں گے۔

سوال۳:تکبر کے متعلق لکھیں۔

تکبر کے معنی خود کو بڑا اور برتر سمجھنے اور ظاہر کرنے کے ہیں۔ قرآن مجید کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مخلوقات میں سب سے پہلے شیطان نے تکبر کیا اور کہا کہ میں آدم علیہ اسلام سے افضل ہوں۔ اس لیے ان کو سجدہ نہیں کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا :
ترجمہ : تواتر یہاں سے۔ تو اس لائق نہیں کہ تکبر کرے یہاں۔ پیس باہر نکل تو ذلیل ہے۔(سورۃ الاعراف:۱۳)

وہ دن اور آج کا دن ، غرور کا سر ہمیشہ نیچا ہوتا چلا آیا ہے اور فرمان الہی کے مطابق، آخرت میں بھی متکبر انسانوں کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔
ترجمہ : کیا نہیں دوزخ میں ٹھکانہ غرور کرنے والوں کا۔(سورة الزمر :۶۰)

تکبر کی مذمت فرماتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ واصحابہ وسلّم نے ارشاد فرمایا۔ ” جس کے دل میں رائی برابر بھی غرور اور تکبر ہو گا اور وہ انسان جنت میں داخل نہیں ہو گا”۔ مغرور و متکبر انسان دوسروں کو حقیر سمجھ کر ظلم و زیادتی کرتا ہے اور گناہوں پر بے باک ہو جاتا ہے اور یہ خیال کرتا ہے کہ مجھے میرے گناہوں کی سزا کون دے سکتا ہے۔ اس لیے وہ مروت، اخوت، ایثاراور اس قسم کی بھی بھلائیوں سے محروم ہو جاتا ہے۔

سوال۴:حسد کے متعلق لکھیں۔

انسان دوستی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے کسی بھائی کو اچھی حالت میں دیکھیں تو خوش ہوں کہ اللہ تعالی نے اسے اپنی نعمتوں سے نوازا ہے لیکن حسد وہ بری خصلت ہے۔ جو کسی کو خوش حال اور پر سکون دیکھ کر انسان کو بے چین کر دیتی ہے، اور وہ اپنے بھائی کی خوشحالی دیکھ کر خوش ہونے کی بجائے دل ہی دل میں جلتا اور گڑھتا ہے۔ ایسا کرنے سے وہ دوسروں کا تو کچھ نہیں بگاڑ سکتا، خود اپنے لیے پریشانی مول لے لیتا ہے۔

یوں تو حسد ایک اخلاقی بیماری ہے لیکن اس کے نتیجے میں انسان کئی دوسری اخلاقی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ مثلاً جب وہ دوسروں کو بہتر حالت میں دیکھنے کا روادار نہیں ہو تا تو اپنے بہت سے عزیزوں سے ترک تعلق کر لیتا ہے جو ایک نا پسندیدہ بات ہے۔ اسی طرح جس شخص کی طبیعت میں حسد پیدا ہو جائے، وہ کبھی قانع نہیں ہو سکتا۔ وہ ہمیشہ اپنے سے برتر کو دیکھ کر اپنی حالت زار پر کف افسوس ملتا رہتا ہے۔ اس کی وہ صلاحیتیں جو اپنی حالت بہتر بنانے پر صرف ہو سکتی ہیں، ہمیشہ دوسروں کی حالت کو بگاڑنے ہی کی فکر میں ضائع ہوتی رہتی ہیں۔

حاسد اپنی بھڑکائی ہوئی آگ میں خود ہی جلتا رہتا ہے۔ گو اسلام اپنے پیروکاروں کو باہمی محبت اور احسان کی تلقین کرتا ہے، تاکہ معاشرتی اعتبار سے اجتماعی فلاح حاصل ہو سکے لیکن حاسد کے دل میں سوائے نفرت اور جلن کے کوئی شریفانہ جذبہ جگہ نہیں پاسکتا۔اجتماعی فلاح کے معانی یہ ہیں کہ معاشرے کے جملہ افراد معزز اور خوشحال ہوں۔ لیکن حاسد لوگوں کی نیک نامی اور خوشحالی کو ذلت و خواری میں بدلتے دیکھنا چاہتا ہے۔ پس ایک نہ ایک دن وہ معاشرے کی نظروں میں ذلیل ہو کر رہتا ہے۔ مسلمانوں کو ان تمام نقصانات سے بچانے کے لیے نبی کریمﷺ نے حسد سے بچنے کی تلقین فرمائی۔ ارشاد فرمایا:
ترجمہ: دیکھو! حسد سے بچو۔ کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ خشک لکڑی کو۔ (سنن ابی داؤد)

اگر انسان حسد اور اس جیسے دوسرے اخلاق رذیلہ سے بچنا چاہتا ہے تو اسے رسول پاک صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ و سلم ، صحابہ رضی اللہ عنہم اور بزرگان دین کی سادگی و قناعت کی تاریخی مثالوں سے نصیحت حاصل کرنی چاہیے، اور اس کے ساتھ اسے یہ بھی چاہیے کہ دولت واقتدار سے پیدا ہونے والی برائیوں اور مفاسد پر نظر رکھے۔