مدتوں بعد

0

لاک ڈاؤن لگنے کے بعد میرا کالج کا مانو آج پہلا دن تھا- تیسرے سمسٹر کے ایڈمیشن کے لئے کالج جانا تھا دو سمسٹر تو مائیک اور کیمرہ بند کرتے ہوئے نکل گیا خاکہ نگاری کو کلاس میں پڑھا تھا مگر آن لائن کلاس کے دوران نا جانے کتنوں کا خاکہ ذہن میں بنتا اور بگڑتا کبھی کبھی تو ذہن میں میڈم کی تصویر یں مونچھوں کے ساتھ آتی اور بے ساختہ ہنسی آجاتی کلاس کے دوران اگر کسی کا کیمرہ غلطی سے آن ہو جاتا تو جلد اسکرین شاٹ لے لیے جاتے۔

سال بھر کے بعد آج کالج کامنہ دیکھنا نصیب ہو گا ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ نئی نویلی دلہن کا دولہا سعودی عرب سے واپس آ رہا ہوں جس کی شادی لاک ڈاؤن کے دوران آن لائن ہوئی تھی کسی طرح تیار ہو کر باہر نکلی بس اسٹاپ جاتے جاتے سارے پاؤڈر پسینےکے ساتھ مل کر لیکوئیڈ فاؤنڈیشن بن کر پگھلنےلگے تھوڑے انتظار کے بعد بس آئ بس میں بیٹھ کر ایسا محسوس ہوا جیسے میرے جیسے مخلوق بھی دنیا میں موجود ہیں۔

چند لمحوں بعد کنڈیکٹر کرائے کے لیے میرے پاس آیا کرایا سن کر کلیجہ منہ کو آیا کافی بحث کے بعد کنڈیکٹر نے پانچ روپے کا احسان مجھ پہ کیا ۔ پانچ روپے بچتے ہی گول گپپے کی خوشبو اردگرد آنے لگی اور دل خوشی سے جھوم اٹھا۔ آخر کار کالج پہنچی گیٹ میں داخل ہوتے ہی کتوں کے ہجوم میں بڑے ہی خوفناک انداز میں میرا ویلکم کیا۔ جھٹ یاد آیا امی نے کہا تھا کتے دیکھتے ہیں قطمیر قطمیر پڑھنا اب قطمیر قطمیرکی رٹ سانسوں سے تیز ہوگی اللہ کا کرم کسی طرح ان کی خاطر داری سے بچ کر گیٹ سے آگے بڑھی۔

دو گھنٹے مسلسل دوڑنے کے بعد ایڈمیشن کاونٹر کا صحیح پتہ ملا ایڈمیشن کا کام ہوتے ہی میں نے جلدگھر جانے کا فیصلہ کیا اور تیز تیز قدموں سے باہر کی طرف چلنے لگی کیونکہ بس اسٹاپ کالج سے لگ بھگ پندرہ بیس منٹ کی دوری پر تھا تو میں نے سواری لینے کا بڑا سنگین فیصلہ کیا۔ لیکن دس روپے چھن جانے کے خوف نے میرے قدم ایسے روکے کہ جیسے اگر آج میں یہ دس روپے دے دیتی تو کل جمعہ کے مبارک دن میں مسجد کے باہر ملتی۔ آخرکار میں نے 11 نمبر والی گاڑی سے سفر کرنے کا فیصلہ کیا۔ راستے میں چلتے چلتے جب گرمی لگتی تو دس روپے کا خیال آتا اور اچانک ہلکی ٹھنڈی ہوا چہروں کو چھوتے ہوئے گزرنے لگتی اور حوصلہ دوگنا ہو جاتا ہے اسی حوصلے کے سارے بس اسٹاپ پہنچی ۔۔ وہاں پہنچتے ہی میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی کیوں کہ میری منزل تک پہنچنے والی ایک بھی سواری وہاں موجود نہیں تھی۔

یہ منظر تو پھر بھی قابل برداشت تھا ۔ غصہ تو تب آتا جب دوسری جگہ جانے والی سواریوں کے مالک میرے چہرے کے سامنے آکر مجھے دوسری سواری لینے پر آمادہ کرتے اور بار بار نہیں جانا ہے نہیں جانا ہے بول کر میرے منہ میں چھالے پڑ گئے۔ اس چھالے کو ٹھیک کرنے کا ایک ہی طریقہ تھا۔ اور وہ طریقہ تھاگول گپے کا کھٹا سیرپ جو منہ میں جاتے ہیں سارے چھالے جادوئی انداز میں ختم ہونے لگتے ہے۔۔ جیسے جیسے ایک ایک گول کپے میرے پیٹ میں جاتے ساری تھکاوٹیں دھیرے دھیرے یوں ختم ہوتی جیسے میرے ہاتھوں میں جو کٹوری ہے اس میں آب حیات ہے اور اسے کھا کر میں امر ہو جاؤں نگی۔

میں اور میرا مخلص ساتھی گول گپے دونوں خیالوں کی دنیا میں سنہرے خواب کے ساتھ گوا کے بیچ میں سمندر کی لہروں سے لطف اندوز ہو ہی رہے تھے تب ہی دو لوگ میرے سامنے آ کھڑے ہوئے ان میں ایک بزرگ اور ایک نوجوان لڑکا تھا دونوں میری منزل تک پہنچنے والی سواری کے کنڈیکٹر تھے جیسے ہی انہیں پتہ چلا کہ میں ان کی سواری کے ذریعے اپنی منزل تک پہنچ سکتی ہو دونوں آپس میں لڑنے لگے دونوں کی آواز اتنی تیزی سے میرے کانوں میں ٹکرائی کے میں گوا کے بیچ سے سیدھے کیچڑ والی سڑک پر کھڑی ملی لیکن ہاتھوں میں گول گپے دیکھ کر کیچڑ میں کھڑے ہونے کا افسوس ذرا کم ہو اجہاں مجھے کچھ دیر پہلے اپنی منزل کو جانے کے لیے ایک بھی سواری نہیں مل رہی تھی اب دو دو سواریاں موجود تھیں اور دونوں سواریوں کے کنڈیکٹر مجھے اپنی سواری میں لے جانے کے لیے ایک دوسرے سے جھگڑ رہے تھے۔

یہ سنہرا منظر دیکھ کر میں اپنی قسمت پر رشک کر رہی تھی اور اتراتے ہوئے ایک سواری پہ دو گول گپے لے کر چڑھی چڑھتے ہی دیکھا کہ میری ایک سہیلی پہلے سے موجود ہے اسے دیکھ کر خوشی تو بہت ہوئی لیکن میں نے جلد دونوں گول گپے اپنے منہ میں یوں ٹھوسا جیسے لکشمی بھنڈار کا فارم جمع کرنے کے لیے عورتیں گیٹ کے اندر داخل ہوتی ہیں چند لمحے بعد سانس آی اور میں اس کے قریب بیٹھ کر اس کا حال احوال دریافت کرنے لگی۔ تب ہی ایسا لگا کہ کسی نے سواری کے سینے پر زور دار تھپڑ رسید دیے ہوں میں نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو وہی کنڈیکٹر تھا میں نے جب اسے دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ مجھ سے ہی مخاطب ہے وہ تیز آواز میں کہہ رہا تھا کہ میری سواری پہلے جائےگی۔

یہ سننا تھا کہ میرے جسم میں آگ سی لگ گئی اور من ہی من میں بولنے لگی کمبخت پہلے بول دیتا یہ بات تو کچھ دیر پہلے میری سانسیں تو نہ روکتی چند لمحے تو میں اسے کوستی رہی پھر سیٹ پر آرام سے آنکھیں بند کر کے سواری کے چلنے کا انتظار کرنے لگی یہ انتظار تو عاشق و معشوق کے انتظار سے بھی دردناک محسوس ہو رہا تھا روکی ہوئی سواری، گرمی اور لوگوں کی بھیڑ سب مل کر نہایت ہی خوفناک منظر کی تکمیل کر رہے تھے غرض کے وقت کیسا بھی ہو اللہ تعالی کے حکم سے گزر ہی جاتا ہے اور یہ وقت بھی دھیرے دھیرےگزر رہا تھا اور جیسے ہی انجن چالو ہوا اس کی آواز کانوں سے ٹکرائی اور ایسا لگا جیسے میں مشاعروں میں بیٹھی غزل سن رہی ہوں غزل تھوڑی طویل تھی لیکن کچھ دیر میں تیز ہواؤں نے غزل کی آواز کو مات دے دی اور تیز ہواؤں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے میں اپنی منزل مقصود تک پہنچی۔

تحریر گل افشا ں ناز ویسٹ بنگال( درگا پور )