ادھوری سوچ

0

ہواؤں کا رخ یوں مڑ،ا جیسے بجلی کی رفتا ہو….ایک وقت میں اندھیرا اور دوسرے وقت میں روشنی….جیسے زندگی کسی مضبوط دیوار پہ ضرب لگا رہی ہو۔اس ضرب کی گونج تو تھی، لیکن سنائی نہیں دیتی…… شاید وہ بہرہ تھا۔

زندگی کے پیچ وخم سے وہ بیزا ہوا سورہاتھا….. سکون بھری سانس لیتے ہوئے وہ سہانے سپنے کی لطف لے رہاتھا،تبھی اچانک سہراب کی ماں اسے اٹھنے کو کہتی ہے، اور اس سکون کی نیند میں جو لطف اندوز سپنے تھے، وہ اسی کمرے میں گھٹ میں کے رہ گئے۔ اور ہر روز کی طرح وہ سودا لینے کے لیے بازار کو نکلا، تبھی اس کی نظر مالتی پہ پڑی اور اس کے چہرے پہ خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی…… وہ خود کو سنبھالتے ہوئے اور مالتی کو نظر کرتے ہوئے دوسری جانب چلنے لگا، تبھی مالتی اسے آواز دیتی
ہے۔

ارے….. سنو تو….. ہوا کیا ہے؟
سہراب… تمہیں کیوں لگا کہ کچھ ہوا ہے؟
مالتی…… بس لگا…..
سہراب….. تو پتہ کرلو۔
مالتی…… کچھ دیر خاموش ہوگئی……. اور اسے دیکھنے لگے۔
سہراب…… مسکراتے ہوئے چلنے لگا اور چلتے چلتے اسے دھیمی آواز میں کہا…… مالتی پتہ ضرور لگا لینا۔
سہراب…..گھر پہونچتے ہی ماں،ماں کی آواز لگانے لگا….
سہراب….. ماں سنتی نہیں ہو کیا؟
ماں…. سن رہی ہوں…. بولنا ضروری ہے کیا؟
سہراب…. بالکل۔
ماں….. اچھا بتاؤ کھانا دوں……تھوڑی دیر بعدبولی…. دوں کیا لگا ہی دیتا ہوں۔
سہراب… ہاں۔
سہراب….. تم بھی آجاؤ ماں، ساتھ میں کھاتے ہیں…. پھر موقع ملے نہ ملے۔
ماں…. ہنستے ہوئے بولی…. کیوں تو شادی کررہاہے کیا؟
سہراب …. اف…..نہیں ماں….. تو آبیٹھ میرے پاس۔
ماں….. آتی ہوں تھوڑا صبر کر۔

سہرا ب اور اس کی ماں ساتھ میں کھانا کھاتے ہیں اور بہت ساری باتیں کرتے ہیں اور بات کرتے کرتے سہراب اپنی ماں سے پوچھتا ہے…… اچھا ماں یہ بتا تجھے مالتی کیسی لگتی ہے؟…تبھی ان لوگو ں کا کھانا ختم ہوجاتا ہے اور ماں ہنستے ہوئے کہتی ہے….. ہاں
سہرا ب اس ہاں کا مطلب نہیں نکال پاتا ہے اور گہری سوچ میں ڈوب جاتا ہے۔
تبھی اچانک اس کی ماں کی آواز آئی اور یہ آواز پھر سے ایک بار اس کی سوچ کو حقیقت میں لا کھڑا کیا۔

ماں….. چل اب تو بھی سو جا، میں بھی سوتی ہوں۔
سہراب ٹھیک ہے ماں۔
سہر اب کمرے میں گیا اور بستر پہ لیٹ کہ پھر سوچنے لگا اور سپنوں کی دنیا میں غوطہ لگانے لگا۔مالتی کیسی ہوگی؟….. کیا کررہی ہوگی؟
اور مسکراتے ہوئے خود کو بولا…ارے وہ صرف دوست ہے…. اور پھر سے ایک مرتبہ اس کی مسکراہٹ نے اس کی سوچ کو کچل کر رکھ دیااور ہر بار کی طرح اس کی سوچ ادھوری رہ گئی۔
لیکن اس بار سہراب نے اپنی مسکراہٹ کو مات کو دے کر اپنی سوچ مکمل کرنے کی کوشش کرنے لگا اور خود سے کہنے لگا۔

کل صبح اٹھ کر وہ سارے کام کروں گا، جو میں برسوں سے سوچ رہاہوں… ہر کام جو محض میرے سپنوں کا ایک حصہ بن کررہ گیا……. میں اسے حقیقت کا جامہ پہناؤں گا….ان شاء اللہ ضرور پہناؤں گا۔
تبھی اچانک سہراب کی نظر دیوا پہ لٹکی گھڑی پر گئی۔ ٹک… ٹک..ٹک.. ٹک.. کی آواز سہراب کے پورے کمرے میں گونج رہی تھی۔
پر یہ آواز ہر دن کی آواز سے علیحدہ معلوم ہورہی تھی، مانو اس آواز میں ایک کشش ہوں اور دیکھتے دیکھتے سہراب کی آنکھوں کے سامنے ہزار پہلو نمودار ہوگئیں۔ جیسے کوئی طوفان چلتے چلتے رک سی گئی، جیسے کوئی معصوم بچہ ضد کرتے کرتے خاموش ہوگیا۔ ہزاروں دروازے بند ہوتے نظر آنے لگے، ان سب کے باوجود بھی میلوں دور ایک کھڑسے روشنی کی ہلکی سی چمک نظر آرہی تھی اور یہ ہلکی سی روشنی ہزار بند دروازوں کو مات دیتی نظر آرہی تھی اور اسی روشنی کی امید کے سہارے سہراب کی آنکھ لگ گئی۔
مالتی…. آنٹی سہراب اٹھ گیا….؟

سہراب کی ماں…. نہیں.. بیٹی وہ سویا ہے ابھی تک… دیکھو ذرا…. صبح کہ ۹/ بج گئے پر بیٹی تم اتنی پریشان کیوں لگ رہی ہو……؟ لمبی سانس لو…آرا م سے بیٹھو بیٹی۔
مالتی…… ذرا دیکھئے تو آنٹی…..
سہراب کی ماں….. دیکھتی ہوں….. تم پانی پیوجب تک۔
سہراب کی ماں…… سہراب…. بیٹا ۹/ بج گئے ہیں، اٹھو نہ جلدی..
سہراب….. اٹھتا ہوں ماں…. تھوڑی دیر اور سونے دو
سہراب کی ماں…. ٹھیک ہے، پر تھوڑی دیر میں اٹھ جانا یہ کہتے ہوئے جانے لگتی ہے۔
پھراچانک کہتی ہے، لو دیکھ لو میں بھی بوڑھی ہوتی جارہی ہو،جس بات کے لیے آئی تھی وہ تو بولنا ہی بھول گئی۔
سہراب…. نیند بھری آواز میں کہتا ہے….. کون سی بات ماں

ماں….. باہر مالتی آئی ہے… تیرا پوچھ رہی تھی… وہ آنگن میں ہی بیٹھی ہے۔
سہراب….. ارے ماں، اف پہلے کیوں نہیں بولامجھے….. اور اندر کیوں بیٹھایا،اسے… تم بھی نہ ماں کیا کرتی ہو، سچ میں بوڑھی ہوگئی ہوں۔
ماں… ہنستے ہوئے….. ارے بابا وہ سب تو ٹھیک ہے،پر تجھے کیا ہوگیا… مالتی ہی تو آئی ہے، کوئی فلم اسٹار تھوڑی آئی ہے۔

سہراب….. ماں سنو میں منہ دھوتا ہوں… تم پاس والے دوکان سے کچھ کھانے کے لیے لے آؤ مالتی کے لیے۔
ماں… اچھا جاتی ہوں بیٹا….
مالتی… کہاں جارہی ہو آنٹی۔
سہراب کی ماں…. بس یہی پاس کی دوکان میں…. کچھ سامان کے لیے۔
مالتی… نہیں آپ یہی بیٹھیے….. اس کی ضرورت نہیں ہے۔

سہراب کی ماں….. نہیں بیٹا تم بیٹھو میں بس ابھی آتی ہوں۔
مالتی کے نہیں نہیں کہنے پر بھی سہراب کی ماں دوکان کی جانب چل دیتی ہے۔
سہراب….. تبھی بھاگتا ہوا آنگن میں آیا اور مالتی سے پوچھا…پتہ لگا کیا؟

مالتی…. چونکتے ہوئے بولی….کیا؟ پھر اچانک سے کہہ پڑی ”ہاں“
سہراب… تو پھر مجھے بھی بتاؤ
سہراب کی ماں… بھاگتی ہوئی اچانک آنگن میں آئی اور ہانپتی ہوئی آواز میں کہنے لگی بیٹا آج تو سارا بازار بند پڑا ہے۔
سہراب…..نامعلوم انداز میں ’کیوں‘؟
سہراب کی ماں….پتا نہیں بیٹا۔
سہراب اور اس کی ماں سوچ ہی رہے تھے.. تبھی مالتی بول پڑی آج سے پورے ملک میں ”لاک ڈان“ ہے…. میں یہی بتانے آئی تھی۔
سہراب کی ماں…. بیٹا یہ لاک ڈاؤن کیا ہوتا ہے؟
مالتی اور سہراب خاموش ہوگئے اور ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔

پر اس خاموشی میں بجلی سے کڑک اور طوفان سی لہر تھی،مانو سمندر میں تیز لہریں آگئی ہوں۔
تینوں خاموش ہوجاتے ہیں…..ایک لمحے میں زندگی کو پلٹتے دیکھا… کوششوں کو ہارتے دیکھا… امیدوں کو دم توڑتے دیکھا۔
اچانک مالتی، اٹھ کر اپنے گھر کی جانب چل پڑی اور سوچتے ہوئے سہراب بھی واپس اپنے کمرے کی طرف جانے لگا۔ اور خود سے کہنے لگا کاش میں اپنے سپنوں کو حقیقت کے دروازے پہ کھڑا کرسکتا۔ اپنی ناامیدی کو امید کے سمندر میں سنہرے موتیوں سے سجا سکتا۔ کاش وقت رہتے اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنا سکتا۔
اور پھر سہراب مسکراتے ہوئے ایک دھن گنگناتا ہو اچلا جاتا ہے۔i

اور بھی دکھ ہے زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
٭٭٭٭