اب بھاگتے ہیں سایۂ عشقِ بتاں سے ہم تشریح

0

حالی کی غزل کی تشریح:

اب بھاگتے ہیں سایۂ عشقِ بتاں سے ہم
کچھ دل سے ہیں ڈرے ہوئے کچھ آسماں سے ہم

تشریح:

یہ شعر الطاف حسین حالی کی غزل سے لیا گیا ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ میں حسین محبوب کے سائے سے بھی اب دور بھاگ رہا ہوں۔میری حالت بالکل آسماں سے ڈرے ہوؤں جیسی ہے۔قدیم شعری روایت کے مطابق اس دنیا میں موجود تمام تبدیلوں کا موجب آسمان ہی ہے اور اگر آسمان کسی کا دشمن ہو جائے تو اس پر پہ در پہ مصیبتیں ہی نازل ہوتی ہیں اور ایسے انسان کو مزید کسی دشمن کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ ایسے ہی حسین لوگوں کے عشق سے بھی خوفزدہ ہو رہا ہوں کہ جب آدمی ان کے حسن سے گھائل ہو کر ان کے عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے تو یہ بھی اپنے محبوب پر بے طرح کے مظالم اور ستم ڈھانے سے باز نہیں آتے ہیں۔اس وقت میں یہ بھی گردش آسماں کی طرح بے رحم ہو جاتے ہیں۔

خود رفتگیِ شب کا مزا بھولتا نہیں
آئے ہیں آج آپ میں یارب کہاں سے ہم

تشریح:

اس شعر میں شاعرنے صنعت تضاد کے خوبصورت استعمال سے شعر کے حسن کو دوبالا کیا ہے اور لکھتے ہیں کہ اس شب کی بے خودی یا خود رفتگی کا مزا نہیں بھولتا۔یہ بے خودی کی کیفیت انسان کو ہوش و خرد سے بیگانہ کر دیتی ہے اور وہ ہر طرح کی پریشانیوں،فکروں اور غموں کو بھول جاتا ہے۔مگر آج جو یہ ہم اپنے آپ میں یعنی کہ ہوش میں آئے ہیں یا رب ایسا کیوں ہوا ہے کیونکہ اپنے آپ میں واپس لوٹنے یعنی ہوش میں آنے سے بہتر وہ بے خودی کی دنیاتھی۔ یہاں شاعر نے خودرفتگی اور آئے ہیں آج آپ میں کے استعمال سے تضاد کی کیفیت پیدا کی ہے۔

اب شوق سے بگاڑ کی باتیں کیا کرو
کچھ پا گئے ہیں آپ کی طرزِ بیاں سے ہم

تشریح:

اس شعر میں شاعر گفتگو کا سا انداز پیدا کرتے ہوئے اپنے محبوب کو مخاطب کرکے کہتے ہیں کہ اب ہم نے تمہارے انداز بیاں کو پوری طرح سے پا لیا ہے۔اب ہم تمہارے مزاج سے آشنا ہو چکے ہیں کہ اگر تم ہم کو کچھ بولتے ہو اگرچہ وہ بگاڑ یا خرابی کی ہی کوئی بات کیوں نہ ہو اس انداز میں تمہاری ہمارے لیے محبت پوشیدہ ہے۔اس لیے ہم تمہارے اس انداز کو بخوبی سمجھنے لگے ہیں۔ اب تم پورے شوق سے ایسی باتیں کرسکتے ہو۔ یعنی تمہاری بے رخی بھی اگر چہ تہمارا ہم سے لگاؤ دکھانے کا طریقہ کار اور انداز محبت ہے۔

دلکش ہر ایک قطعۂ صحرا ہے راہ میں
ملتے ہیں جا کے دیکھیے کب کارواں سے ہم

تشریح:

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میں اپنے سفر یا منزل کی جانب رواں دواں ہوں مگر میری منزل کے راستے میں موجود ہر ایک قطعہ صحرا یعنی کہ ہر ایک پڑاؤ اس قدر حسین ہے کہ میں اس کی دلکشی میں کھو سا جاتا ہوں یہی وجہ ہے کہ میں اپنے قافلے یا کارواں سے کافی مسافت پر ہوں اور اب خدا جانے کے میں کب جا کر ان سے ملتا ہوں۔مجازی معنوں میں سفر کی یہ دلکشیاں شاعر کا محبوب بھی ہوسکتی ہیں اور محبوب کی محبت میں اسے مجنوں کی طرح صحرا کا ہر ٹکڑا بھی دلکش معلوم ہو رہا ہے اور وہ اپنی منزل سے بھٹک رہا ہے۔ شعر کے بین السطور شاعر نے یہ پیغام دیا ہے کہ اگر ہم کسی بھی سفر یا کسی منزل کو پانے کا اردادہ کرتے ہیں یا کسی چیز کو حاصل کرنے کی جستجو پالتے ہیں تو اس کے راستے میں کئی طرح کی مشکلات کے ساتھ دلکشیاں بھی آتی ہیں اور یہ دلکشیاں اکثر اوقات ہمیں اپنی اصل منزل سے بھٹکا کر ہمارے کارواں سے یا منزل سے دور بھی کردیتی ہیں۔

لذّت ترے کلام میں آئی کہاں سے یہ
پوچھیں گے جا کے حالیِ جادو بیاں سے ہم

تشریح:

یہ شعر غزل کا مقطع یعنی آخری شعر ہے۔جس میں شاعر نے اپنا تخلص استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ شاعرانہ تعلی کا استعمال کیا ہے۔شاعرانہ تعلی سے مراد ہے کہ جہاں شاعر اپنی تعریف بیان کرتا ہے۔اس شعر میں شاعر شاعرانہ تعلی استعمال کرتے ہوئے خود سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ تمہارے کلام یا شاعری میں اتنی لذت کہاں سے آئی ہے کہ میں جا کے حالی جو کہ اک جادوبیاں ہے، سے معلوم کروں گا۔یعنی شاعر خود کو جادو بیاں اور اپنے کلام کو لذت سے بھرپور شاعری یا کلام قرار دیتا ہے۔

سولات:-

سوال نمبر 1:شاعر،دل سے اور آسمان سے کیوں ڈرا ہوا ہے؟

شاعر اپنے دل سے ڈرا ہوا ہے کہ یہ حسین چہروں کے عشق میں مبتلا نہ ہو جائے کیوں کہ حسین محبوب ہمیشہ اپنے عاشق پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھاتا ہے۔ جبکہ آسمان سے ڈرنے کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں ہونے والے اکثر مظالم کی وجہ گردشِ آسمان ہوتی ہے۔پرانی شعری روایت کے مطابق اکثر پیش آنے والی تمام مصبیتیں بس آسمان سے ہی نازل ہوتی ہیں۔یوں حسین محبوب کے مظالم اور آسمان سے نازل ہونے والی آفتوں کے خوف کے باعث شاعر دل اور آسمان دونوں سے ڈرا ہوا ہے۔

سوال نمبر 2:خود کلامی کا مطلب کیا ہے؟

خود کلامی کا مطلب خود سے بات کرنا ہے۔ خود کلامی ایک انداز گفتگو ہے جس میں ایک شخص خود سے ہی ہم کلام ہوتا ہے۔یعنی کسی شخص کا خود سے بات کرنا خود ہی سوال اور خود ہی اس کا جواب دینا یہ اندازِ گفتگو خود کلامی کہلاتا ہے۔

سوال نمبر 3:اس غزل کے مقطعے کا مقابلہ غالب کے درج ذیل مقطعے سے کیجیے اور بتایئے کہ دونوں میں کون سی بات مشترک ہے؟

ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور

اس غزل کے مقطعے کا شعر اور غالب کی غزل کے مقطعے دونوں میں ایک قدر مشترک ہے کہ دونوں شاعرانہ تعلی کے شعر ہیں یعنی دونوں میں شعراء نے اپنے اپنے انداز میں اپنی تعریف بیان کی ہے۔

عملی کام:

سودل: حالی کے “مقدمہ شعر و شاعری” کا نسخہ حاصل کیجیے اور اس میں شعر کی جو خوبیاں بیان کی گئی ہیں اور شاعری کے لئے جو شرطیں بتائی گئی ہیں انھیں اپنے استاد سے پوچھ کرلکھیے۔

مقدمہ شعر و شاعری الطاف حسین حالی کی تنقیدی کتاب ہے جس میں مصنف نے شاعری کے تنقیدی اصولوں پر بحث کی ہے۔ اس میں حالی نے شعر کی جو خوبیاں بیان کی ہیں وہ سادگی،جوش اور اصلیت ہیں جبکہ حالی نے شاعری کے لئے مقصدیت اور افادیت کو شرط بتایا ہے۔