Advertisement
Advertisement

کتاب”گلزارِ اردو”برائے نویں جماعت۔

Advertisement
  • سبق نمبر13:نظم
  • شاعر کا نام:شوق قدوائی۔
  • نظم کا نام:پھول کی فریاد۔

تعارف مصنف:

آپ کا پورا نام احمد علی تھا جبکہ شوق تخلص تھا۔1853ء میں ضلع،بارہ بنکی اتر پردیش میں پیدا ہوئے۔انھوں نے اپنی تعلیم بد ایوں اور رام پور سے حاصل کی۔لکھنو سے ایک اخبار “آزاد ” نکالا۔ پرتاب گڑھ اور بھوپال میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ شوق قدوائی فطری شاعر تھے۔ زبان و بیان پر قدرت حاصل تھی۔ انھوں نے زیادہ تر مثنویاں لکھیں جن میں قدرتی مناظر مثلاً درختوں،پھولوں ،پہاڑوں کے مناظر بہت عمدگی سے بیان کیے گئے۔

نظم پھول کی فریاد کی تشریح:

کیا خطا میری تھی ظالم ،تو نے کیوں توڑا مجھے
کیوں نہ میری عمر تک شاخ پر چھوڑا مجھے

یہ شعر شوق قدوائی کی نظم ‘پھول کی فریاد’ سے لیا گیا ہے اس نظم میں شاعر نے ایک پھول کے اس کی شاخ سے جدا ہونے اور اس کی تکلیف کو روداد بنایا ہے۔ اس شعر میں پھول شاعر سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ اے ظالم میری کیا غلطی تھی جو تم نے مجھے میری شاخ سے توڑ لیا میری عمر تمام ہونے تک تم نے مجھے میری شاخ سے جڑا کیوں نہ رہنے دیا۔

Advertisement
جانتا گر اس ہنسی کے دردناک انجام کو
میں ہواکے گدگدانے سے نہ ہنستا نام کو

اس شعر میں پھول شاعر کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ میری خوبصورتی اور میرے کھلنے اور کلی سے خوش ہو کر پھول بننے والی ہنسی کے انجام کو جانتا ہوتا تو میں کبھی مجھے ہوا کے گدگدانے سے نام کو بھی نہ ہنستا کھلنا تو دور کی بات تھی۔

Advertisement
شاخ نے آغوش میں کس لطف سے پالا مجھے
تو نے ملنے کے لیے بستر پہ ہے ڈالا مجھے

اس شعر میں پھول شاعر کی زبانی کہتا ہے کہ جس شاخ پر میں موجود تھا اس شاخ نے مجھے بہت لطف اور محبت سے اپنی گود میں پالا تھا۔مگر تم نے مجھے محض اپنے بستر کی سجاوٹ اور مسل کر پھینک ڈالنے کے لیے توڑ لیا۔

میری خوشبو سے بساۓ گا بچھونا رات بھر
صبح ہوگی تو مجھے تو پھینک دے گا خاک پر

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ پھول یہ کہتا ہے کہ میری شاخ سے مجھے جدا کرنے کے بعد رات بھر تو تم مجھے اپنے بستر پر بجھا کر اپنے بستر کی زینت بنا لو گے۔مگر اگلی صبح ہوتے ہی میرا انجام یہ ہو گا کہ تم پھر سے مجھے مٹی پر پھینک کر اسی خاک کا حصہ بنا دو گے۔

Advertisement
پتیاں اڑتی پھریں گی منتشر ہوجائیں گی
رفته رفتہ خاک میں مل جائیں گی کھو جائیں گی

پھول اس شعر میں شاعر کی زبانی کہتا ہے کہ جب تم مجھے اپنے استعمال میں لانے کے بعد خاک میں ملا دو گے تو میری یہ پتیاں ادھر ادھر ہوا میں بکھری ہوئی ملیں گیں۔اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ بھی میری طرح مٹی میں مل کر گم ہو جائیں گیں۔

تو نے میری جان لی دم بھر کی زینت کے لیے
کی جفا مجھ پرفقط تھوڑی سی فرحت کے لیے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ پھول یہ کہتا ہے کہ اے انسان تم نے اپنے کچھ لمحات کی خوبصورتی کے لیے میری جان لی مجھے میری شاخ سے الگ کیا۔ اگر تم نے مجھ پر اپنی نظر یا پیار لٹایا بھی ہے تو محض اپنی ذرا سی اور وقتی خوشی کے لیے تم نے مجھ پر کرم کیا۔

دیکھ میرے رنگ کی حالت بدل جانے پر ہے
پتی پتی ہو چلی، بے آب مرجانے پہ ہے

پھول اس شعر میں شاعر کی زبانی کہتا ہے کہ اب جبکہ تم نے مجھے شاخ سے جدا کرلیا ہے تو میرے بدلتے رنگ کو دیکھو میری پتیاں مجھ سے ٹوٹ کر بکھر رہی ہیں اور میری پتیوں کا پانی سوکھنے کے قریب ہے۔

پیڑ کے وہ سبنر پتے رنگ میرا ،ان میں لال
جس طرح کا ہی دوپٹے میں کسی گل رو کے گال

پھول یہ شکوہ کرتا ہے کہ میں جس شاخ اور جس پیڑ کا حصہ تھا اس پر موجود سر سبز پتے ہی میری پہچان تھےاور میں ان میں لال رنگ میں کھلتا تھا۔ وہاں میرا کھکنا یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے کسی نے ہرے دوپٹے میں اس کے لال گال دکھائی دے رہے ہوں یعنی میں ان ہری شاخوں کا گال تھا۔

Advertisement
جس کی رونق تھا میں بے رونق وہ ڈالی ہوگئی
حیف ہے بچے سے ماں کی گود خالی ہوگئی

پھول یہ کہتا ہے کہ جس شاخ یا ڈالی کی میں رونق ہوا کرتا تھا میرے نہ ہونے کی وجہ سے وہ بے رونق ہوگئی ہے۔ اس ڈالی کا خالی اور بے رونق ہونا ایسا ہی ہے کہ جیسے کسی ماں کی گود کو خالی کر کے اجاڑ دیا گیا ہو۔

تتلیاں بے چین ہوں گی جب نہ مجھ کو پائیں گی
غم سے بھونرے روئیں گے اور بلبلیں چلائیں گی

پھول شکوہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میرے باغ میں موجود نہ ہونے کی وجہ سے باغ کی تتلیاں مجھے نہ پا کر بے چین ہوں گیں۔ اس باغ کے بھونرے میں غم میں آنسو بھا رہے ہوں گے جبکہ باغ کی بلبلیں بھی مجھے نہ پا کر بے چین ہوں جائیں گیں۔

دودھ شبنم نے پلایا تھا ملا وہ خاک میں
کیا خبرتھی یہ کہ ہے ، بے رحم گل چیں تاک میں

شاعر کی زبانی پھول یہ کہتا ہے کہ مجھے شبنم نے ہمیشہ صبح کے وقت تازہ دم کیا اور روز شبنم کا مجھ پر گرنا یوں تھا گویا جیسے کوئی اپنی اولاد کو دودھ پلاتا ہے۔ مگر شبنم کو بھی کیا معلوم تھا کہ کوئی پھول توڑنے والا اس پھول کی تاک میں بیٹھا ہے جسے وہ روز سیر کرتی ہے۔

Advertisement
مہر کہتا ہے میری کرنوں کی سب محنت گئی
ماہ کو غم ہے میری دی ہوئی رنگت گئی

پھول کہتا ہے کہ مجھے ڈالی پر نہ پا کر سورج بھی افسردہ ہو گا کہ میرے کھلنے بڑے ہونے میں اس کی کرنوں کی محنت شامل تھی اب اسے اپنی کرنوں کی محنت کے رائگاں ہونے کا افسوس ہو گا۔ جبکہ رات میں چاند کی چاندنی نے میری رنگت کو نکھار بخشا اس لیے چاند بھی میرے لیے غم زدہ ہو گا۔

دیدۂ حیراں ہے کیاری، باغباں کے دل پہ داغ
شاخ کہتی ہے کہ ہے ہے گل ہوا میرا چراغ

شاعر کہتا ہے کہ کیاری بھی حیراں و پریشاں ہے جبکہ گل کی جدائی میں باغباں یعنی اس کے رکھوالے کے دل پر داغ پڑ چکا ہے۔جبکہ وہ شاخ جس پر یہ پھول کھلا تھا وہ بھی پکارتی ہے کہ میرا چراغ کدھر گیا۔

میں بھی فانی تو بھی فانی سب میں فانی دہر میں
اک قیامت ہے مگر مرگ جوانی دہر میں

اس شعر میں شاعر پھول کا انجام بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ اس دنیا میں پھول انسان سب کچھ فنا ہو جانے والا ہے۔موت بر حق ہے مگر جوانی کی موت کسی قیامت سے کم نہیں ہے۔

Advertisement
شوق کیا کہتے ہیں سن لے تو سمجھ لے مان لے
دل کسی کا توڑنا اچھا نہیں تو جان لے

اس شعر میں شاعر خود کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ اے شوق کسی بھی انسان کا دل توڑنا اچھی بات نہیں ہے تم بھی یہ بات سن اور سمجھ لو۔

Advertisement

سوالوں کے جواب کے لکھیے:-

سوال نمبر01:پھول کس کی فریاد کر رہا ہے؟

پھول شاخ سے جدا ہونے کے بعد اپنی زندگی کی فریاد کر رہا ہےاس پر ظلم ہوا ہے اور اس کو توڑ کر بعد ازاں خاک میں ملا دیا گیا۔

سوال نمبر02:پھول پر کیا ظلم ہوا ہے؟

پھول پر یہ ظلم ہوا ہے کہ اس کو توڑ کر اس کی شاخ، پتوں اور اس کے چمن سے جدا کر دیا گیا ہے۔

سوال نمبر03:چمن سے جدا ہو کر پھول پر کیا گزرے گی؟

چمن سے جدا ہوکر پھول مرجھا جائے گا۔ اس کی پتیاں بکھر جائیں گی اور خاک میں مل جائیں گی۔

سوال نمبر04:چمن میں پھول کی جدائی کا کس کس کو رنج ہے؟

چمن میں پھول کی جدائی کا رنج تتلیوں ، بلبلوں، بھونرے، شبنم، سورج اور چاند کو ہے۔

Advertisement

Advertisement