شمعِ شبستان کے آخری پھول

0

آج چوبیسواں دن تھا، جب مین ہول کے اوپر سے ڈھکن کے ہٹنے کے باعث روشنی اندر داخل ہورہی تھی۔ یہ روشنی انھیں بہت کم عرصے کے لیے میسر ہوتی تھی اور پھر ایک طویل اندھیرے اور تاریکی کا باب وا ہوتا تھا۔ یہ شہر جدید طریقہ پر کچی بستی کے ساتھ بنایا گیا تھا۔ روشنی کے داخل ہوتے ہی بےشمار نفوس کے چہرے امید سے جگمگاگئے۔ اندر آنے والے شخص نے بدبو سے بدشکل سا منہ بنایا اور انگوچھا سا اس نے اپنی ناک پر رکھا، پھر چند ثانیے بعد وہ بھی گٹر کے کیڑے کے ایسے اس ماحول کا ہوگیا۔ پُرامید چہرے اسے دانت دِکھا کر مسرت سے تک رہے تھے۔ اس نے اپنی پیٹھ سے بوری کو اتارا۔
”اس میں کیا لائے ہو۔“ داڑھی والے نے اس کی جانب ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ بورے والے شخص نے اس کے ہاتھ پر تھپڑ مارا۔
”ابھی نہیں، صبر رکھو۔“ اس نے گرج دار آواز میں کہا۔

وہ سب پھر سے پُرنور نگاہوں سے مین ہول کی جانب دیکھنے لگے۔
ایک اماں کے کھانسنے کی آواز آئی۔ پھر بھیڑ سے کسی نے گلا کھنگار کر بلغم نگلا۔ یہ آوازیں، سرگوشیاں و چہ مگوئیاں، مکھیوں کی بنبناہٹ میں بدل گئیں۔ یہ منتشر سا ماحول دودھ میں ابال کی طرح اٹھتا چلا گیا، پھر اچانک سے مین ہول کا ڈھکن ہٹا، سب متوجہ ہو گئے۔
ایک بوری بھوس کی مانند اندر کو آگری اور ایک شخص گرد آلود چہرے والا اندر اترا، جس نے اندر ایک بوری پھینکی تھی اور کندھے پر بھی ایک بوری رکھی تھی۔
”تمہارا ساتھی کہاں رہ گیا؟“ پہلے آنے والے شخص نے پوچھا۔
”وہ مارا گیا!“ سب نے ایک لمبی آہ بھری اور ایک دوسرے سے نظریں چرانے لگے۔
”واپس آتے ہوئے ہمیں گشت کرتے دو فوجیوں نے گھیر لیا، وہ ایبٹ یہاں سے مخالف سمت میں بھاگا۔ میں نے زمین پر بیٹھ کر ہار مان لی اور دونوں ہاتھ اپنی پشت پر قیدیوں کے ایسے باندھ لیے مگر وہ دونوں اس کے پیچھے چلے گئے اور مجھے بھاگنے کا موقع مل گیا، پھر چار فائر گولیاں چلنے کی آواز آئی۔“ وہ یہ کہہ کر اپنا چہرہ گھٹنوں میں دے کر افسوس کرنے لگا۔

پہلے آنے والے شخص کا نام چالز تھا اور بعد میں آکر یہ سرگزشت سنانے والے کو سب وکٹر کہتے تھے۔ یہ دونوں فوج کے بھگوڑے تھے جو فوج کی ٹریننگ سے بھاگے اور پھر واپس کبھی نہ گئے۔ آج تیسرا دن تھا، بظاہر دیکھنے میں یہ ملک جنگ ہار چکا تھا، دشمن فوجیں چاروں طرف گشت کررہی تھیں۔ دشمن کی فوجوں نے اعلان کر کے امان کا کہا، لیکن جب بیشتر لوگ باہر چلے گئے تو ان پر فائر کھول دیئے گئے، کتنے گھنٹے زندہ اور نیم زندہ لوگوں پر گولیاں چلتی رہیں۔ یہ تعصب کی جنگ تھی جو دو ملکوں کے درمیان شدید نفرت میں بدل گئی اور دونوں اطراف بھاری جانی نقصان ہوا مگر جنگ ہنوز جاری تھی۔

شہر اور بستی کے لوگ گھروں کے تہہ خانوں میں چھپ گئے تھے۔ کچی بستی کے لوگ شہر کے نیچے بنے سیوریج کے بڑے گٹروں میں پناہ گزین ہوگئے۔ ان میں سے تین لوگوں نے رضاکارانہ طور پر خوراک لانے اور ایک شخص نے پورے پانچ بجے باہر حمام کی دکان سے ریڈیو کی چند سرخیاں سن کر حالات سے باقیوں کو آگاہ کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا۔ یوں آج تیسرا دن تھا، بچ بچا کر یہ چاروں لوگ جاتے اور آتے تھے مگر آج غفلت میں ایک مارا گیا۔

یہاں بس اب پچیس لوگ ہی باقی رہے تھے۔ اتنے میں پچیسواں شخص دوسرے مین ہول سے اندر داخل ہوا۔ آنے والے شخص کا نام البرٹ لوئیس تھا، گو کہ یہ سب سے کمزور اور ڈرپوک تھا لیکن اس نے گٹر سے نکل کر اگلی گلی سے حمام کی دکان تک جانے کے کام کو سر پر لیا ہوا تھا، وہ آیا اور بالکل ایملی کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ ایملی اس کی منگیتر تھی۔
”جنگ ابھی جاری ہے، کسی کو بھی اگر باہر دیکھا گیا تو گولی مارنے کا حکم ہے اس لیے ابھی نکلنا نامناسب ہے۔“ وہ بےترتیب سانسیں درست کرتے ہوئے بولا۔

سب نے سرد آہ لی اور اب جب کہ تمام لوگ پورے ہو گئے تھے وکٹر نے کھانا بانٹنا شروع کیا۔
کھانے میں بیکری کے شیرمال تھے۔
”یہ مجھ سے نہ کھایا جائے گا، خدا شرلی کو پناہ میں رکھے، ایسا بدذائقہ کھانا تو اولڈ ہاؤس میں وہ ناک چڑھا کر کھلاتی تھی۔“ بڑھیا نے پوپلے منہ کو مزید بگاڑ کر کہا۔
”شاید یہ اسی کے ظلم کا بدلہ ہے جس کی پاداش میں ہم سب اس غلاظت میں بیٹھے ہیں۔“ وہ بتدریج خود کلامی کرتی رہی۔
”اماں ہم سب کا بھی یہاں رہنے کا جی نہیں چاہتا، مگر کرنا پڑ رہا ہے ناں؟ تو جو ایسا مل رہا ہے کھا لو، جسم و جان کا رشتہ قائم رہے، ہمیں یہاں بس زندہ رہنا ہے، یہ موئی جنگ ٹل جائے پھر تمہیں اچھے کھانے میں کھلاؤں گی۔“ یہ لڑکی چالز کی پڑوسن تھی۔

سبھی لوگ اپنے پاس بیٹھے ہوئے کو زندگی کی امید دلا رہے تھے۔
”بستی کا کیا حال ہے۔“ جھریوں زدہ چہرے والا کسان بولا۔
”بدحالی کا عالم ہے، جو ہوائی جہازوں کی بم باری ہوئی اس سے کوئی کھیت، کوئی گھر سلامت نہ رہا۔ مٹی کے گھر مٹی میں مل گئے، میلا مٹی سماں، دھول سے اٹے درخت، بارود سے معطر سماں، پل میں دم گُھٹنے لگتا ہے۔ یہ بدبو کیا بدبو ہوگی باہر کی بدبو کے آگے۔“ گھنے بالوں والا خوبرو نوجوان بولا، اس کا چوڑا چکلا شریر دیکھ کر سب اسے دیمنبو کہتے تھے۔ یہ وہ پانچواں نوجوان تھا جو ان پچیس لوگوں میں صحت مند تھا، باقی سب بچے بڈھے اور کمزور تھے۔

”وہ راہ گزر عام دیہاتیوں کی روزمرہ کی گزرگاہ تھی۔ کسانوں اور دیہاتیوں نے اپنی مدد آپ کے تحت یہاں اینٹوں کی پکی سڑک بنائی تھی۔ جہاں پہلے عام ریڑھی اور سائیکل چلتی تھی، وہاں اب چند دنوں سے فوجی گاڑیاں گشت کرتی نظر آتی ہیں۔ دیو قامت ٹینکوں کی قطاریں، پیادے اور بے شمار دھواں چھوڑتے فوجی ٹرک، یہ آخری بستی محفوظ بچی تھی جو اب فوجی بربادی کی نذر ہوگئی۔ فصلوں میں بے لاگ چلتی مشینیں اجناس کو روندتی جاتی ہیں، یہ فصلوں کا قتلِ عام تو تھا ہی مگر یہ ان غریب کے فاقہ کش بچوں کی غذا کا بھی قتل تھا جو اُن کے پورے سال کا رزق تھا۔ یہ اُن بچوں کا بھی قتل تھا جن کو اس جنگ کے بعد بھوک سے مرنا ہے۔“ گزشتہ دنوں کے احوال کو جمع کرنے کے بعد کسان نے غیر مرئی نکتے پر نظر رکھتے ہوئے تبصرہ کیا۔ وہ کسان جس نے یہ ہل چلایا تھا، بیج بویا تھا، وہ کھوئے ہوئے انداز میں بڑبڑا رہا تھا مگر وہ اونچا سنتا تھا تو بولتا بھی اونچا ہی تھا، گویا اس کی یہ بڑبڑاہٹ بھی سب نے صاف صاف سنی تھیں۔

پھر گنتی کی گئی، صرف پچیس لوگ رہ گئے تھے۔ آج ہونے والی ایک فرد کی کمی کے باعث اب بچے بوڑھے اور جوان بس پچیس ہی رہ گئے تھے۔
چار دن پہلے تک گولی چلنے کی، بھاگم بھاگ فوجیوں کے بوٹوں کی آوازیں آتی رہتیں تھی۔ یہ اپنی سپاہ کے لڑنے کی آوازیں تھیں اور زبان بھی اپنی معلوم ہوتی تھی، مگر پھر ایک دل دہلا دینے والا ہوائی جہاز آتا اور بمباری سے سب کو کوئلہ کر جاتا۔ اب اپنے عساکر تمام مارے گئے، اب شہر کی سڑکوں پر چلتا ٹینک محافظوں کا نہیں مخالفوں کا تھا۔ شہر کی سڑکوں پر چلتا ٹینک ان اندھیرے میں پڑے لوگوں کو موت کی ہوک کے ایسے سنائی دیتا۔ اس جنگ کے ماحول میں اتنی بھیڑ کے ہوتے ہوئے بھی سب اکیلے تھے۔ سب کو اپنے مرجانے کا اتنا ہی یقین تھا جتنا باقیوں کے مرنے کا تھا۔ مگر یہ آوازیں کہ ”جنگ دو طرفہ ہو رہی ہے“ بند ہو چکی تھیں۔ اب کوئی شہری یا زخمی فوجی مل جاتا تو مخالف فوجیں اسے چھلنی کر دیتیں۔

جب جہازوں نے بم باری کرنا شروع کی تو پکی عمارتوں والے تو زمین دوز میں جا بیٹھے مگر جھونپڑ پٹی والے کہاں جاتے، سو انھوں نے زیرِ زمین گٹروں میں پناہ لی۔ وہ سیاہ سیاہ شکلوں والے گٹروں کی سیاہ، گدلی اور بدبودار مٹی میں نہا گئے۔ جہازوں کی آوازیں قریب آنے لگتیں تو وہ مین ہول رکھ کر گٹر کے اندر ہو لیتے، پھر لمحوں تک اپنی سانسیں آتی جاتی محسوس کرتے، جسم و جان کا بندھن پا کر پھر باہر کا احوال معلوم کرتے، گٹر سے مین ہول ہٹتے اور کالی شکلیں، بدبودار جسموں والے سر باہر کا جائزہ لینے کو نکلتے۔ باہر کیا قیامت گزری ہے اس کا حال جانتے۔ ہر مرتبہ بم باری کے بعد دھول اُڑتی، حرارت کا درجہ بہت بلند ہوتا، زمین میں شگاف ہوتا اور کوئی عمارت زمین بوس ہوجاتی۔

کتنے دنوں سے ان لوگوں نے غسل تو کیا منہ دھونے تک کا پانی نہ دیکھا تھا۔ ایک غنیمت تھی کہ شہر میں کوئی باقی نہ بچا تھا جس سے گٹر سوکھ چکے تھے، پانی کی نکاسی نہ ہوئی۔ کم نیند سے تمام لوگوں کی شکلیں بگڑی جاتی تھیں۔ ان سب کی جان کسی صدمے سے دوچار نڈھال سی معلوم ہوتی تھی، وہ سب بس ایک دوسرے کو دلاسہ دیتے اور ایک دوسرے کی ڈھارس بندھاتے تھے۔

گلے سوکھ چکے تھے، منہ میں تھوک بننا بند ہو گیا تھا۔ پھر چار لوگ اٹھے، پانی اور کھانے کی تلاش میں باہر کو نکلے۔ کپڑے اور لاشیں عمارتوں کی دھول میں اٹی تھیں۔ ہر سو ٹوٹ پھوٹ کا منظر تھا، ہر جانب موت ہی موت کی داستان بکھری پڑی تھی۔ یہ کیسی عجیب سی بات ہے، کیسی خوفناک نفیر موت جو پھونکی گئی ہے انسانوں کی طرف سے، جو دوسرے انسانوں کی بستی کو زیر و زبر کر گئی ہے۔ خدا کے حکم پر اسرافیل کی پھونکی جانے والی نفیر کا یہ دکھ نہ ہوگا کہ میرا گھر تباہ ہوا دوسرے کا نہ ہوا، میرا عزیز مر گیا اس کا نہ مرا، تب سبھی کا حال بے حال ہوگا۔ ہر کوئی گھر سے بے گھر ہوگا، ہر ایک کو موت آجائے گی۔ مگر یہاں یہ انسانوں کی برپا کی گئی قیامت تو دیکھو چند لوگ مر گئے، جو زندہ ہیں وہ اس زندگی سے مرنے کو ترجیح دے رہے ہیں اور جو ان کو مار رہے ہیں وہ کس ڈھٹائی سے دندناتے پھر رہے ہیں۔ چند لوگ خدا بن گئے ہیں اور چند لوگ مخلوق اور اب یہ مخلوق نا کردہ جرم کی سزا پا رہی ہے۔

پانی کی کھوج میں سپر اسٹور میں دو لوگ داخل ہوئے، ابھی پانچ بجنے میں تین منٹ تھے، البرٹ لوئیس حمام کی جانب چل دیا۔ شہر ویرانی کا راگ الاپ رہا تھا۔ دھرتی کا سینہ چھلنی تھا، بارودی توڑ پھوڑ سے سڑکیں، گھر، دکانیں سبھی کچھ متاثر ہوئے تھے مگر اس توڑ پھوڑ سے جس حد تک انسان متاثر ہوئے تھے وہ کسی طرح الفاظ میں بند نہیں کیا جا سکتا۔
”شہریوں سے التماس ہے ہار نہ مانیں، ہماری مدد کو چند بیڑے چل پڑے ہیں۔ ہمیں جلدی جدید اسلحہ میسر ہوگا اور ہم جنگ کا پانسہ پلٹ دیں گے۔“ ولولہ انگیز تقریر میں جو بات سننے کی تھی وہ اس نے سنی اور واپس ہو لیا۔ سرخیاں جنگ کی ہولناکی کو کم اور اموات کی تعداد کو جان بوجھ کر غلط بتا رہی تھیں کہ لوگوں میں انتشار نہ پھیلے، پہلے تو البرٹ نے دل بہلا لیا اور سوچنے لگا مدد والی بات بھی بس دلاسہ ہی ہے۔

اس نے دور سے دیکھا کہ چار فوجی گٹر کے عین اوپر کھڑے ہیں۔ انھوں نے چالز کو اندر جاتے دیکھ لیا تھا۔ ان حیوان صفت لوگوں نے اندھا دھند اندر کو فائر کھول دیا۔ اب کے مین ہول والا راز افشاں ہو گیا تھا تو سبھی مارے گئے۔ البرٹ کچھ کہہ نہ سکا بس سکتے کے عالم میں یہ منظر دیکھتا رہ گیا۔ چند لمحوں بعد وہ سب وہاں سے دوسری سمت چل دیئے۔ البرٹ وہاں ایک نظر دیکھنے کو گیا، سبھی لوگ مارے گئے تھے۔ مرجھائے چہرے والی بڑھیا اور وہ کسان، بچیاں اور بچے، چالز، وکٹر اور ایملی سبھی لوگ مر چکے تھے۔ بیس منٹ قبل وہ ان سب کو بولتے سنتے اور سانس لیتے محسوس کر چکا تھا۔

وہ ایملی جسے اس نے ہنستا دیکھا تھا، مسکراہٹ جب اس کے رخسار پر بکھرتی تھی تو کُل دنیا محبت سے نہا جاتی تھی۔ ہر منظر میں اس کی دلکش مسکراہٹ نظر آتی تھی۔ پھولوں سے جس کے نقش بنے تھے، جس کا تن بدن عطر سے معطر تھا، جس کا سانچہ گلاب کی پنکھڑی سا تھا۔
”تم ہزاروں رنگوں کے پھولوں میں الجھی سلجھی سی تتلی ہو اور میں سالا رنگودھیا جو تمہارے لال سے گال، سفید دودھیا رنگت اور نیلے نینوں کی کبھی پہچان نہیں کر سکتا، تمہیں شجر کس قدر پسند ہیں۔ تم ان سے باتیں کرتی ہو، تم کیسے جہاں بھر کے حسن کی پرستش کرتی ہو اور میں تم میں کھویا رہتا ہوں۔“ البرٹ یہ بے ربط جملے کسی دھندلے کینوس پر دیکھتا تو اسے ایملی کی بے جان لاش حقیقت میں کھینچ لاتی۔

جب اس نے وہاں اپنی منگیتر کو مردہ دیکھا تو اس کے حلق سے سسکاری نکلی۔ وہ سنبھلا اور رونے لگا۔ اس کی آواز رند گئی اور آنکھوں میں آنسوؤں کا سمندر امڈ آیا۔ ایک پل کو وہ بیٹھ گیا اور سر گھٹنوں میں دے کر تن تنہاء اپنے گرد خودی کا حصار بنا کر بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگا۔ایک نظر اپنی انگلی میں پہنی انگوٹھی کو دیکھنے لگا۔ یہ انگوٹھی ایملی نے اسے پہنائی تھی۔ یہ وہ حسین منظر تھا جب گاؤں کے اس سادہ لوح لڑکے کی منگنی ہوئی تھی، چار چھ لوگوں کی موجودگی میں اس نے شرماتے ہوئے ایملی کو انگوٹھی پہنائی تھی۔ وہ منظر اس کی زندگی کا سب سے حسین ترین منظر تھا، جو وہ بدترین حال میں سوچ سکتا تھا۔ اب وہاں کوئی ایسا باقی نہ رہا تھا جس کو وہ مدد آنے کی خبر سناتا۔

جب تمام شہر اور بستی برباد ہو گئی تو وہ شخص گٹر سے نکلا اور اونچے ٹیلے کی جانب بھاگا۔ جی جان لگا کر وہ بھاگا، دم کو رُکا پھر بھاگا، پھر رُکا پھر بھاگا، وہ رُکتا بھاگتا، پھر رُکتا پھر بھاگتا۔ آخر وہ اونچائی پر جا پہنچا اور ایک سرد آہ بھر کر اس نے لمبے لمبے سانس لینے شروع کر دیئے۔ اس کا خشک گلا اب یوں تھا کہ ایسے ناگ پھنی سے لپٹا ہوا ہو۔ جب حواس بحال ہوئے تو اس نے ایک منظر میں شہر و بستی کو دیکھا جہاں سب کچھ ختم ہو گیا تھا۔
وہ فقط اتنا بڑبڑایا ”یہ سب نہیں ہونا چاہئے تھا۔“

ایک ہفتہ بعد جب امدادی جہاز پہنچے تو جنگ بندی کا اعلان ہو گیا۔ کہیں کہیں معمولی جھڑپیں ہو رہی تھیں، لوگ سہمے ہوئے تھے۔ ریڈیو مصروف رہنے لگے، لوگ ابھی بھی مکمل مطمئن نہ تھے۔ وہ دنیا جہاں کی باتوں میں کھو سکتے تھے مگر ان کا لاشعور اب بھی کسی جنگ میں قید تھا۔ سڑکیں دوبارہ بننے لگیں، گاڑیاں پھر سے چلنے لگیں، عمارتوں کی مرمت ہونے لگی، بستی میں چند لوگ لوٹ آئے، لوگوں نے تہہ خانوں سے نکلنا شروع کیا، مردہ لاشوں کی تدفین ہوئی، بہت سے آنسو بہے، موت کی لٹکتی تلوار سروں سے ٹل گئی، مگر خوف من میں گھر کر گیا تھا۔
البرٹ ہجرت کر کے دوسری بستی چلا گیا تھا، دوسری بستی کے لوگوں نے اس الم ناک حادثہ کے بارے میں اس سے دریافت کیا مگر اس کی گویائی گنگ ہو گئی تھی۔

اس کے پاس ہزاروں درد ناک چشم دید واقعات تھے مگر وہ بولنے سے محروم ہو گیا۔ سننے والوں کی منتظر سماعتیں اور مشتاق نگاہیں جتنا بے صبری سے چند لفظ سننے کو اسے جھنجھوڑ رہی تھیں اسی بے تابی سے وہ بولنے اور کہنے کے لیے مرے جا رہا تھا مگر حادثہ تمام ہوا اور اثرات بھی لوگوں پر چھوڑتا رہا، وہ سہما ڈرا ہوا پسماندہ شخص پھٹی آنکھوں سے وہ سب کچھ ہوتا دیکھتا رہا اور گونگا ہو گیا۔

البرٹ وہیں رہنے لگا اور اب وہ ساز بجانا سیکھنے جاتا تھا۔ اس نے وائلن کو دیکھا ، سنا اور پسند کیا۔البرٹ نے وائلن کو اس لیے اتنا پسند کیا کیونکہ اسے محسوس ہوتا کہ ایسے ہزار محبت کی داستانیں وائلن کے سازوں میں دفن ہیں۔ البرٹ کئی برسوں تک وہیں نئی بستی میں رہا ، چند لوگ اس کے آشنا بھی ہو گئے تھے۔ مگر جب وقت بہت گزر چکا اسے اپنی محبوبہ کا مردہ چہرہ تواتر سے خواب میں آنے لگا تو اس نے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنا رخت سفر باندھا اور یاد ستاتی بستی کی جانب چل پڑا۔

وہ اور پرندے دونوں جب جنگ کے بعد اپنے شہر کو لوٹ کر آئے تو دونوں کے ہی گھر دھول سے اٹے ہوئے تھے۔ کہیں درخت کٹے پِٹے تھے ، کہیں عمارتیں تہہ و بالا ہو چکیں تھیں۔ وہ کسی کی رنگین قباء، مقدس کتاب غلاف میں ادھ جلی ادھ پھٹی، لپٹی لاش کے ایسے بے اماں پڑی تھی، ایک بچے کا جھولا جو جل کر کوئلہ ہو چکا تھا، دفتری کاغذات، فائلیں، سبھی کچھ سیمنٹ، ریت اور جلی اشیاء کی راکھ کے ملے جلے ملگجے سے رنگ میں رنگیں تھیں۔ خاک و خون تمام شہر میں اشتہارات کے ایسے ہر دیوار و در پر چسپاں تھا۔ پرندوں کے پر اور پھوٹے انڈے اور نومولود مرے بچے آگ میں جھلس کر بھن چکے تھے۔ یہ شہر ابنِ آدم نے آباد کیا تھا، اسے درختوں اور پرندوں نے خوبصورت بنایا تھا مگر پھر خدا کی لعنت پڑی اور انسانوں کی ہی آنکھ میں سور کا بال اترا اور وہ آپس میں الجھ پڑے۔ ساری خوبصورتی کو باقاعدہ منصوبہ بندی سے تباہ کر دیا گیا۔ خدا کی سجائی، انسانوں کی بسائی بستی میں بارود کی بو ، ٹینکوں کے نشانات اور بم باری کی باقیات رہ گئی تھی۔ یہ سب انسانوں کے مقام بلند سے گرنے کے اسباب تھے۔

یہ سب منظر اس کے لاشعور پر چھائے تھے مگر جب وہ ہوش کی دنیا میں لوٹ آیا تو وہاں بچے کھیل رہے تھے، سڑکیں عمارتیں سبھی کچھ نیا تھا مگر اس پورے شہر اور بستی میں پرندے نہیں تھے، وہ شہر پرندوں سے ناپید معلوم ہوتا تھا۔ سرکار نے وہاں مصنوعی چڑیا گھر بنا رکھے تھے جہاں پرندوں کی نسلوں کا تعارف و تحفظ کروایا جاتا تھا۔ وہ زیادہ دن اس شہر میں رہ نہ سکا اور جنگی قبرستان گیا، اسے اپنے پہچان کے نام والے بہت سے لوگوں کی قبریں ملیں۔ مگر ایملی نامی کسی کتبہ کی قبر کو البرٹ نے وہاں نہ پایا۔ اس نے سوگ و غم کیا، وہ منظر لوٹ کر اس کی آنکھوں میں اترتے اور آنسو بن کر بہہ جاتے۔ البرٹ سے رہا نہ گیا پھر اسی شام وہ وہاں سے نکل آیا۔

وہ واپس گیا تو اب اس کے پاس جینے کو فقط ایک زندگی تھی، وہ وہیں چوک میں ایک کیفے کے باہر لوگوں کو وائلن سناتا اور اپنے نان نفقہ کے لیے کام کرتا۔ کئی برس اسے وہیں گزر گئے، کب البرٹ کی داڑھی اُگی اور کب سفیدی پکڑنے لگی، اسے گزرتے وقت کا اندازہ نہ ہوا۔

بڈھے البرٹ لوئس کے ہاتھ میں وائلن تھا، وہ دنیا سے لاعلم اپنی دُھنوں کے حقوق پورے کرنے میں مستغرق تھا، دُھن بجتی اور وہ ماضی میں کھو جاتا۔ وہ اس طرح ماضی میں کھو جاتا کہ پھر اسے دنیا کی پرواہ نہ ہوتی، وہ ماضی کا اسیر تھا۔دوسری طرف سارا مجمع اپنی مصروفیات کو چھوڑ کر دو چار ساعت کو سماعت اس جانب موڑتے، دُھن سے مسرور ہوتے اور جیب میں چھن چھن آوارہ گردی کرتے سکے کو اس کے ڈبے میں اچھال دیتے اور چلے جاتے، وہ لوگ بھی البرٹ کی دُھن کو زیادہ دیر نہ سن سکتے کہ ہر ایک غم گین ہو جاتا تھا۔

ایک جانب کھوئے ہوئے انداز میں کھڑی ایک دوشیزہ بھی اس دُھن کو سن رہی تھی۔ کھمبے سے سر لگائے وہ یوں کھڑی تھی ایسے سر کے سائیں کے کندھے پر سر رکھے ہوئے ہو، وہ کسی خیالوں میں قید اس دُھن کی ڈوبتی تیرتی لہروں میں گُم تھی۔ اُس جنگ سے قبل محبت کرنے والوں کے لیے ایک گیت گایا گیا تھا جس کی دُھن البرٹ اپنے وائلن پر بجائے جا رہا تھا۔ چند لوگوں کی آنکھوں میں آنسو اتر آئے۔ بہت دیر تک وہ اسی دُھن کو الاپتا خود بھی رونے لگا مگر وہ رکا نہیں، وہ اسی دُھن کو بجاتا گیا، لوگ وہاں سے اٹھ کر جاتے رہے۔ جب کافی دیر ہو گئی تو کیفے کے مالک نے اسے آکر شاباشی دی اور ساتھ ہی اسے اب جانے کو کہا تو وہ یک دم اس دنیا میں لوٹ کر آیا۔

اس نے جاتے جاتے اس لڑکی کو ایک نظر دیکھا، رُکا مگر کچھ کہے بغیر چل دیا۔ وہ لڑکی سادہ سے لباس میں ملبوس تھی اور وہ اب تین دن سے یہیں آکر اس پول سے سر لگا کر کھڑی ہوجاتی تھی۔ خدا جانے اسے کس غم نے جکڑے رکھا تھا مگر وہ وہاں چپ چاپ کھڑی رہتی تھی، وہاں کوئی کسی سے کچھ نہ کہتا نہ کچھ پوچھتا تھا، سب نے ہی اپنوں کو کھویا ہوا تھا، وہ سب ایک دوسرے کی ڈھارس بندھانے کو ایک دوسرے کے کندھے کو تھپکا دیتے تھے۔ جنگوں کا احوال سب نے ایک ایسا دیکھا تھا اس لیے اب دکھ بھی ایک ساتھ بانٹتے تھے۔

ایسے ہی وہ لڑکی یہاں ہر شام آکر کھڑی ہوتی ایسے ہی البرٹ وہی والی دُھن بجانے لگتا۔ ایک ہفتہ ہوچکا تھا لیکن ان دونوں کے درمیان داد دینے تک کا تعلق نہ ہوا۔ اس لڑکی اور بڈھے البرٹ کے درمیان بس ایک رشتہ تھا کہ وہ دونوں ہی اس دُھن سے بہت لگاؤ رکھتے تھے۔ چار مہینہ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا اور پھر بڈھے کی طبیعت گھٹتی رہی اور وہ بیمار ہو گیا۔

لڑکی نے اس کی کمی کو محسوس کیا اور اس کا پتہ لے کر اس کے گھر پہنچ گئی۔ گھر تھا یا کسی کباڑی کی دکان، ٹوٹی کھڑکی پر اخبار لگا کر روشنی اور ہوا کے راستہ کو بند کیا ہوا تھا۔
چار چھ اخباریں جو بہت پرانی معلوم ہوتی تھیں جگہ جگہ چسپاں کر رکھی تھیں، یہ وہ جنگی اموات کے اعداد و شمار کے حصہ تھے جو خصوصاً باقی سالم اخبار سے نکالے گئے تھے۔ لڑکی نے دستک دی تو بڈھا البرٹ اس جانب متوجہ ہوا، بڈھے نے لڑکی کو دیکھا اور حیران ہوا۔

پھر پُرمسرت مسکراہٹ سے اٹھ کر اس لڑکی کا استقبال کیا اور اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ بڈھے کے مختصر سے کمرے میں کچن بھی تھا، اس نے دو کپ چائے کے چڑھا دیئے۔ بڈھے نے ایک صفحہ پر لکھا ”میری گویائی چلی گئی ہے میں بول نہیں سکتا۔“ اور اس لڑکی کی جانب بڑھا دیا۔
لڑکی نے پڑھا اور اس کے نیچے لکھا ”کوئی بات نہیں! ہم یوں ہی لکھ کر بات کر لیتے ہیں۔“
”مگر میں سن سکتا ہوں۔“ البرٹ نے اشارہ کرتے ہوئے اسے کاغذ دکھایا۔
”دکھ کو بہت قریب سے دیکھا ہے میں نے، آپ کو احساسِ کمتری کے دکھ میں مبتلا نہیں کرنا چاہتی، تو ہم ایسے لکھ کر ہی بات کرتے ہیں۔ اب آپ کی طبیعت کیسی ہے؟“
”بہت بہتر ہوں۔“ بڈھے نے خوش مزاجی سے لکھ کر اُسے دکھایا۔
بڈھے نے پھر سے لکھا ”تمہارا نام کیا ہے؟“
”میرا نام میری ہے۔ اور آپ کا؟“ لڑکی نے سادہ سی مسکراہٹ سے صفحہ اسے دکھایا۔

بڈھے نے لکھا ”میرا نام البرٹ لوئیس ہے۔“
پھر چند ساعت تک کوئی بات نہ ہوئی اور چائے تیار ہو گئی۔
دونوں نے چائے پی اور پھر کافی دیر یوں ہی خامشی رہی۔ بڈھے البرٹ نے اپنا ساز اٹھایا اور وہی والی دُھن ایک گھنٹے تک بجاتا رہا، وہ دونوں ہی اس دُھن کے سحر سے نکلنا نہیں چاہتے تھے۔وقت کافی ہو گیا تو بڈھے نے بادل ناخواستہ دُھن کو تمام کیا۔ لڑکی نے اب جانے کی اجازت مانگی، اٹھی اور ساتھ ہی کاغذ پر لکھا۔

”ہمارا رشتہ جنگ کی نسبت سے بنا ہوا ہے، آپ نے اپنے عزیز کھوئے، میں نے اپنے والدین کھوئے ہیں، مگر آپ جو ساز بجاتے ہیں وہ ہمیں ایک کڑی سے جوڑتا ہے۔ جنگوں کے بعد جو بھی ساز بجتے ہیں وہ سوز و گداز کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اس غم کو برقرار رکھیے، میرے مر جانے تک یا آپ کے مر جانے تک مگر اس کی دہرائی روز کریں۔ مجھے اس کے بنا نیند نہیں آتی۔“
بڈھے البرٹ نے وہ چند سطور پڑھے اور آنکھوں سے آنسو پونچھتے ہوئے کل سے کام پر آنے کی نوید لکھ ڈالی۔ یوں پھر سے وہ وائلن بجنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ انتہائی کمزوری کی حالت میں کام کرنے کی یقین دہانی البرٹ نے صرف میری کی خوشی کے لیے کی تھی۔

یہ سلسلہ چار ماہ تک چلتا رہا، وہ وائلن یونہی بجتا رہا، پھر ایک روز بڈھا البرٹ مر گیا اور اس کے ساز اور دُھنوں کے بہت سے مداحوں نے اس کی آخری رسومات ادا کیں۔ اس کی خواہش کے مطابق اس کا ساز اس کے تابوت میں اس کے ساتھ دفن کیا گیا۔ اس کے ساز کے سحر میں قید میری ایک ہفتے بعد اپنے گھر کے چھت کے پنکھے سے لٹکتی ہوئی مری ہوئی پائی گئی۔

جنگ کےخوف میں مبتلا ان پسماندہ لوگوں کی آخری پیڑھی کانوں میں بم باری کی آواز، نتھنوں میں بارودی بُو، آنکھوں میں قیامت قید کیے، سینوں میں دکھوں اور اپنوں کے غم کو ساتھ لیے تمام ہوئی۔

ازقلم ہادی خان