ترچھی دنیا

0

مرکزی سڑک سے اندر کو ایک گلی جاتی ہے۔ یہاں پرانے طرز پر چار دکانیں آمنے سامنےبنی ہوئی تھیں۔ یہاں دو دکانیں کبھی کبھی کھلتی تھیں اور تیسری دکان کامالک کہتے ہیں سادھو ہو گیا ہے۔ دنیا ترک کرکے جنگلوں میں جا بیٹھا ہے۔ مگر چوتھی دکان سےبرقی لیمپ کی روشنی باہر کو جھانک رہی تھی جس پر پنکھے کے گہرے سیاہ سائے گردش کر رہے تھے۔ اس روشن دکان میں پیش بند باندھے ایک کاریگر کام میں مشغول تھا۔ یہاں چار میں سے تین دکانیں اس کی اپنی تھیں جہاں اس نے اپناتکمیل شدہ کام محفوظ کر رکھا تھا۔

دیوار پر آوایزاں گھڑی کے عین نیچےایک مکمل تصویر رکھی تھی۔ عکس میں ایک عورت بے سدھ مسہری پر پڑی تھی اور ایک مصور اس کی تصویر بنا رہا تھا۔یورپ کی حسین شامیں بہروپیوں اور رنگارنگ لوگوں کی آمد و رفت سے زندہ رہتی تھیں۔ شام کا وہ منظر جاتا رہا اور سائے لمبے ہوتے گئے۔ شہر کی مصروف ترین سڑک یوں تو خاصی وسیع تھی مگر آج ہفتہ کی شام تھی تو ہجوم میں غیر معمولی اضافہ دکھائی دے رہا تھا۔ ایک جانب نوٹنکی ہو رہی تھی، وہاں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے تماشائیوں میں دھکم پیل ہو رہی تھی۔ یہ سڑک چھاپ آرٹسٹ رومیو جولیٹ پر ایک ادنی سا ناٹک پیش کر رہے تھے۔ آگے ایک مداری سفید چوہے اور کبوتروں کے چھوٹے چھوٹے پنجرے سڑک کنارے رکھ کر بیچ رہا تھا۔

چار موالی نشے میں دھت ایک دوسرے کے سہارے پر تھے۔ ان کے درمیان بلند آواز اسپیکر رکھا ہوا تھا جس کی کان پھاڑ موسیقی سماع خراشی کا باعث بن رہی تھی۔ ان رنگینیوں سے ہٹ کر اندھیری گلی سے روشنی جھانک رہی تھی اور اس پر سیاہ سائے ہند کی کسی درگاہ کے دیوانے کے ایسے ہنوز رقصاں تھے۔ شہر کی اس بے رنگ و تنگ گلی میں بیزاری اور اداسی گشت کرتی تھی۔ بڈھا کام میں مشغول تھا ، اس کی چند ادھ رنگی مورتیاں اسے فریادی نظر سے دیکھ رہی تھیں جیسے اگر ان کو قوتِ گویائی دی جائے تو وہ بول پڑیں۔
”اے سنگ تراش! اے نقاش! ہمارے اوپر خوبصورتی کا رنگ بھر، ہماری چمڑی کو سفید، سانولا یا سیاہ کر دے۔ ہم کسی رنگ میں تو نظر آئیں۔ کسی کی نگاہ ہم پر بھی ٹھہرے، کوئی ہمیں بھی اپنے پرشکوہ گھر میں سجائے۔“ مگر وہ ان کے نالے سننے سے بےنیاز تھا۔

”اے کاش میں روحیں پھونکنے کی قوت رکھتا۔ میں اپنی من پسند کی ایک حور بناتا، اس کی آنکھیں محبت سے پُر رکھتا، اس کے گال اور لب بیگونیا کے پھول کے ایسے بناتا جس میں باقی پھول سفید مگر کنارے گلابی رکھتا، وہ اپسراء سے کم نہ ہوتی۔ ہاں مگر کاش میں روحیں پھونکنے کی مختاری رکھتا۔ کبھی یوں ہوتا کہ میں خاکے میں رنگ بھر کر اسے پورا کرتا اور وہ زندگی پا لیتا۔ اے کاش کبھی خدا میری مراد کو پورا کر دے۔“ وہ کام کے دوران اکثر یہ فریادی جملے کہا کرتا تھا۔

کام کی زیادتی اور جگہ کی کمی سے اسے روز کچھ کینوس اور مورتیاں باہر نکالنی پڑتی اور شام اترتے ہی جب سائے لمبے ہوتے وہ انھیں اندر رکھ لیتا۔ آج وہ ان سے بھی بری الذمہ معلوم ہوتا تھا۔اس شام اس نے دو پریمیوں کےپیار کرنےکی تصویر بنائی تھی۔ جس کامنظر کچھ یوں تھا کہ دونوں اطراف میں پانی کی اِٹھلاتی لہریں ہیں اور یہ دو پریمی لبوں کے رسیلے جام پینے میں مگن ہیں اور ایک بچہ ان دونوں کو شرارت سے دیکھ رہا ہے۔ مصور نے ایک تسلی بخش سانس لیا اور شریر لڑکے کی شرٹ میں لال رنگ بھرنے لگا۔ اس بچے کے سر پر اطالوی ٹوپی رکھی تھی۔

مصور کا نام نوح ڈیویڈ تھا۔ اس کی مصوری اور سنگ تراشی تاجروں میں مشہور تھی۔ جہاں بھی تخلیقات کی نمائش ہوتی وہاں نوح کے فن کی نمائش ہونا بھی لازم بات تھی، مگر نوح گمنامی کی زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتاتھا۔ یونانی یا ہند کے تاجرعموماً آکر اس سے فرمائش پر دیوتاؤں کےمجسمے بنواتےتھے۔ کام مکمل کرکے اس نے لال رنگ کی ڈبیا وہیں اوپر چھوڑ دی، وہ خالی ہو چکی تھی۔ پھر اس نے اپنے برش دھوئے ، باہر رکھے سارے سامان کو اندر منتقل کیا۔ سامان اندر رکھتےہوئے اسےخیال آیا کہ وہ یہ چوتھی دکان بھی کرائےپر خریدلے مگر خیال بے سود تھا۔ اس کے کندھے اندر کو بھینچ چکے تھے، اس پر وقت نے اب بڑھاپے کی چادر ڈال دی تھی۔ نوح نے اب منہ ہاتھ صاف کیے اور بتی بجھا کر، تالا لگاکر خاموشی سے نکل گیا۔

ایک طلسم کے اثرات تھے کہ وہ بچہ پیار میں مستغرق اس جوڑے سے جان بوجھ کر ٹکرایا۔گھنی مونچھوں والے جرمن نوجوان نے اس ہنگامہ خیزی پر بچےکو جرمن زبان میں دوچار گالیاں دیں ؛ اس پر بھی اس کا من نہ بھراتو ہاتھ کو بےجان کرکے اس نے ایک زوردار طمانچہ اطالوی بچے کے منہ پر رسید کیا۔ لڑکی نےجذباتی جرمن نوجوان کو روکنےکی کوشش کی تو کم عمر اطالوی بچے نے جرمن کو اطالوی زبان میں چار گالیاں دیں اور لعنت بھی بھیجی۔ جرمن نوجوان اب لڑکی کی جانب متوجہ ہوا اور دونوں ہاتھ اس کے شانے پر رکھ دیئے۔
”دیکھو یہ ایسےبچے یوں نہیں سمجھتے، ان کو بگڑنےکی اجازت نہیں دی جا سکتی۔“ جرمن نوجوان غصہ پر قابو پا کر خود کو تحمل مزاج ظاہر کرنے کی ناکام کوشش کررہا تھا۔
لڑکی نےاس کا چہرہ اپنی جانب موڑا۔
”چھوڑو نا! کیوں الجھتےہو، اس سہانی شام کا مزہ لو۔“
اطالوی بچہ اب کے شرارتاً اونچا اونچا کہنے لگا۔
”نامرد کہیں کے ، او نامرد حرام زادے جرمن، لڑکی کے پیچھے کیوں چھپتے ہو، اگر تم سے کچھ نہیں ہوتا تو میں کچھ مدد کروں“ ۔وہ اسے لڑائی پر اکسانے لگا۔

اب کےجرمن لڑکی کے روکنے پر بھی نہ رکا۔
”تیری تو۔“ لڑکی کا ہاتھ جھاڑ کر جرمن لڑکے نے اطالوی کو پوری قوت سے دھکا دیا تو وہ اطالوی بچہ سنبھل نہ سکا۔ وہ اس کینوس کی دنیا سے باہر گرگیا۔ بےرنگ کاغذی دنیا سے وہ حقیقت کی اس دنیا میں آگیا۔ اس نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اب تصویر کو دیکھا جہاں نوجوان جوڑا پھر سے محبت کی گنگا میں ڈوبا پہلے کی سی حالت میں نظر آرہا تھا۔ مگر تصویر میں سے اب وہ بچہ غائب تھا۔ اطالوی بچے نے چند لمحے آس پاس کے اس ماحول کو دیکھا پھر اپنے گال پر ہاتھ رکھا تو اسے واقعی احساس ہوا کہ جرمن میں زور تو بلا کا ہے۔
”قریب تھا کہ وہ سانڈ میرے لب ادھیڑ دیتا۔“ اطالوی نے اپنے لبوں کے کنارے سے رستے خون کو انگلی پر چن کر دیکھا۔

اپنی لال شرٹ کی الٹی ہوئی آستین سے اپنے ہونٹ کو صاف کیا۔
پھر وہ مجسموں ، رنگا رنگ شاہکاروں اور بےرنگ خاکوں کو پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتا رہا۔
”یہ کیسی عجیب دنیا ہے، یہاں کتنے رنگ ہیں۔“ گھوم پھر کر وہ اسی خاکے کے سامنے آگیا۔
”تم سالے جرمن! ہو تو کم ذات، مگر اس احسان کا سہرا تمہارے سر جاتا ہے۔“ اطالوی نےایک نگاہ پھرلڑکی پر ڈالی۔
”کاش میں اس حسینہ کویہاں سے چھیڑ سکتا، اور یہ جرمن بدمست بن مانس کی طرح دور سےہی اپنی چھاتی پیٹ پیٹ کر مرجاتا۔“ وہ خیالوں ہی خیالوں میں حسرتوں کےکتنے پل باندھ چکا تھا۔

اطالوی کو خیالات سے باہر، باہر سے آتی تیز روشنی اور تالیوں کی گونج لے کر آئی۔ اس نے چاروں اور ایک چکر لگایا مگر اسے باہر جانے کا کوئی رستہ نہ ملا۔
وہ وہیں کرسی پر بیٹھ کر سوچتا رہا۔ باہر سے آتی تالیوں کی آواز اس کے پھیپھڑوں میں میٹھی میٹھی گدگدی کرنے لگی۔ اس کی ریڑھ کی ہڈی میں تجسس سے بجلی کی سی دوڑ گئی۔

اطالوی نے اب کہ ٹہلنا شروع کر دیا۔ آواز کا تعقب کرتے ہوئے اس نے آتش دان کے اندر اوپر کو جھانکا۔ آتش دان سے چمنی اوپر چھت کی جانب جا رہی تھی ۔اطالوی نے آتش دان کے سکیڑپن کا فائدہ اپنی کم عمری سے اٹھایا۔ اگر وہ نوجوان ہوتا تو شاید ہی یہاں سے نکل سکتا۔ اس نے دیوار کے سہارے سے خود کو باہر نکال لیا۔ اندر کی نسبت اسے باہر کا موسم ٹھنڈا محسوس ہوا۔ وہ چھت سے اترا اوربھیڑ کی جانب بھاگ گیا۔
نوح آدم بیزار تھا؛ وہ لوگوں سے کم، انتہائی کم ملتا اور ہمیشہ ایک سا منہ بنائے رکھتا۔ وہ مہینوں نہ مسکراتا، ماتھے پر شکنیں سدا سے بنی ہوئی تھیں۔ کم گوئی ایسی تھی کہ ہفتوں زبان الفاظ کہنے سے قاصر رہتی۔ زبان ہونٹ تر کرنے کو نکلتی یا کام کرتے جب وہ دقیق سوچوں میں لامتناہی کھویا رہتا تو زبان دانتوں میں داب لیتا۔ وہ اپنے سفید و کالے بالوں کو پونی سے باندھے رکھتا، وہ بلا کا روکھا شخص تھا۔ وہ عموماً من ہی من میں سوچتا ”انسان مخلص نہیں، انسان فقط سودا گر ہے۔ انسان سے کچھ خیر نہیں۔“

مگر نوح کی خاصیت یہ تھی کہ وہ حیوانات و نباتات ، چرند پرند، آسمان کے رنگ، آگ اور پانی سے بہت محظوظ ہوتا۔ وہ ہر قدرتی چیز کا پریمی تھا۔ وہ سمندر سے لائی گئی چھوٹی مچھلیوں کی کم عمری کی موت پرنوحہ کرتا، وہ بادل ناخواستہ ہجرت کرتے پرندوں سے تعزیت کرتا، وہ شہر کا دھواں کھاتے اشجار کے دکھڑے سنتا، وہ سمندر کو انسانی پلیدی سےبھرا دیکھ کر آنسو بہاتا، وہ بلا کا حساس تھا، مگرکئی برس ہو گئے کہ اب وہ رونا بھی بھول گیا تھا۔ انسان کارونا، گریہ و زاری کرنا، تب تک فطری ہوتا ہے جب تک برے حادثات، المناک واقعات اور ناساز حالات اسے کم کم سننے کو ملیں مگر جب یہ سب عام معمول بن جائے تو پھر یہ حادثات ایک خبر کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ نوح ہمیشہ رک کر سڑک کنارے بے اماں کتوں کی پیٹھ سہلاتا اور دیر تک ان سے باتیں کرتا، پھر ان کو دودھ پلاتا اور بسکٹ کھلاتا۔

وہ میلے میں شامل ہوئے بغیر میلہ پسند کیا کرتا تھا۔ اپنی دکان بند کر کے نوح جب اس رنگین شام کو دیکھنے کافی شاپ کے باہر بیٹھا تو ایک بچہ اس کی آنکھوں کے سامنے سے قہقہہ لگا کر بھاگا۔ وہ فوراً چونک گیا۔ اس نے آنکھیں صاف کیں اور پھر دیکھا۔ وہ لال شرٹ والا اطالوی بچہ جسے وہ ابھی رنگ کر آیا تھا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے سے بھاگا جا رہا ہے۔ وہ ششدر ہو کر رہ گیا۔ وہ اس بچے کے پیچھے پیچھے بھاگتا بھیڑ میں گھس گیا۔ انبوہ کے چاروں اطراف ایسا شوروغل تھا کہ اس کے سر میں ہلکی ہلکی سی ٹیسیں اٹھنے لگیں۔ وہ گومگو کی کیفیت میں لوگوں کی صفیں توڑتا ہوا آگے بڑھتا گیا۔
”کیسی انہونی بات ہے، یہ سب ممکن نہیں۔“ نوح اپنےمنہ میں کچھ بڑبڑا رہا تھا۔

لوگ اس طرف ناٹک سےلطف اٹھارہے تھے کہ نوح نے یہاں آکر سب دھرم بھرم کر دیا۔
”کسی نے یہاں لال شرٹ والے اطالوی بچے کو دیکھا ہے؟“ اس کی ان حرکات نے سب کو حیران کر دیا۔
وہ دیوانہ وار سنسنا رہا تھا۔
سب خاموشی سے اسے دیکھ رہے تھے، نوح کے کان پر ایک کمزور سی دستک ہوئی۔
نظر اٹھا کر دیکھا تو اسے لوگوں کی بھیڑ اس بچے کے ایسے نظر آنے لگی۔
وہ بھیڑ سے، انسانوں سے، مجمع اور تماشے سے دور رہنے والا انبوہ کے عین درمیان موجود تھا، جہاں سینکڑوں لوگوں کی نگاہیں اس کو تماشا بنتے دیکھ رہی تھیں۔ وہاں موجود سب لوگ اس بچے کے روپ میں اسے نظر آنے لگے۔

وہ چکرا کر بے ہوش ہو کر گرگیا۔
ہسپتال میں مسیحاؤں نے جب جانچ پڑتال کی تو معلوم ہوا وہ کئی دنوں سے نہ سویا تھا نہ اس نے بہتر کھانا کھایا تھا۔ اسے نیند کی کمی کی بھی شکایت تھی۔ شہرت کے در اس پر ایک کے بعد ایک وا ہوتے گئے اور وہ بےتکان اس سراب کے پیچھے بھاگتا رہا۔
ڈاکٹر کی موٹی موٹی ہدایات پر اس نے سر اثبات میں ہلایا، جیسے وہ سب سمجھ رہاہو۔

تین دن بعد وہ دکان پر واپس گیا۔
روشنی سامنے کینوس پر پڑی تو وہ بےرنگ خاکہ وہیں رکھا تھا۔
جسے اس نےچار دن پہلے ادھوراچھوڑا تھا۔ اس نے رنگوں کی ڈبیا دیکھی تو وہاں لال رنگ تھا اور نہ تصویر کا وہ اطالوی بچہ۔

از قلم ابن ریان (ہادی خان)