خواجہ حیدر علی آتش کی غزلیں

0

تعارفِ غزل

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی غزل سے لیا گیا ہے۔ اس غزل کے شاعر کا نام خواجہ حیدر علی آتش ہے۔

تعارفِ شاعر

خواجہ حیدر علی آتش دلی میں پیدا ہوئے۔ شاعری میں آپ مصحفی کے شاگرد بنے تھے۔ بادشاہ آپ کو ازرہِ قدردانی اسی روپے ماہانہ دیتے تھے۔ ان کی شاعری میں زبان کالطف اور الفاظ کی چاشنی ہے۔ آپ کا کلام دیوانِ آتش کے نام سے موجود ہے۔

(غزل نمبر ۱)

یہ آرزو تھی تجھے گل کے رو بہ رو کرتے
ہم اور بلبل بیتاب گفتگو کرتے

اس شعر میں شاعر اپنے محبوب سے مخاطب ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم چاہتے تھے کہ ہم تجھے گل کے روبرو کریں اور پھر ہم اپنے محبوب سے اور بلبل اپنے محبوب یعنی گل سے گفتگو کرے۔ شاعر اس شعر میں اپنے آپ کو ایک بے تاب بلبل اور اپنے محبوب کو گل سے تشبیہ دے رہے ہیں۔

یہ آرزو تھی تجھے گل کے رو بہ رو کرتے
ہم اور بلبل بیتاب گفتگو کرتے

اس شعر میں شاعر اپنے محبوب سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ اگر ہمیں تم تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے کوئی شخص نہ ملا، تو اچھا ہوا۔ کیونکہ ہم تم تک اپنا پیغام کسی اور کی زبانی کیسے پہنچا سکتے تھے، کوئی اور تمہارے سامنے ہمارے جذبات کی ترجمانی نہیں کر سکتا۔ اس لیے ہم خود اپنے جذبات کی ترجمانی تمہارے سامنے کریں گے اور کسی اور کی مدد حاصل نہیں کریں گے۔

مری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہ
کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے

اس شعر میں شاعر اپنے آپ کو سورج اور چاند سے ملا رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ جس طرح میں اپنے محبوب کی یاد میں ہمیشہ یہاں وہاں پھرتا رہتا ہوں اور آوارہ گردی کرتا ہوں، اسی طرح مجھے لگتا ہے کہ یہ سورج اور چاند بھی اپنے محبوب کی جستجو میں دن اور رات کی مانند ہر وقت تک آوارہ گردی کرتے رہتے ہیں۔

جو دیکھتے تری زنجیر زلف کا عالم
اسیر ہونے کی آزاد آرزو کرتے

اس شعر میں شاعر اپنے محبوب کی زلفوں کی تعریف کرتا ہے اور کہتا ہے کہ جو بھی تیری زُلفوں کی زنجیر دیکھتا ہے، وہ ان کا اسیر ہو جاتا ہے اور اس سے آزاد ہونے کی آرزو کرتا ہے۔ شاعر کے مطابق جو بھی اس کے محبوب کی زلفوں کی زنجیر کو دیکھتا ہے وہ اس میں قید ہو جاتا ہے اور ہمیشہ اسی میں قید رہتا ہے۔

نہ پوچھ عالم برگشتہ طالعی آتشؔ
برستی آگ جو باراں کی آرزو کرتے

اس شعر میں شاعر اپنے آپ سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ ہماری حالت نہ پوچھ کیونکہ اگر ہم بارش کی آرزو کرتے ہیں تو بھی آگ برستی ہے۔ یعنی اگر ہم کوئی اچھا کام کرنا چاہتے ہیں تو وہ کام الٹا ہوجاتا ہے اور سب کچھ خراب ہو جاتا ہے اور ہمارا محبوب ہم سے راضی نہیں ہوتا۔ اس لیے ہمارے حالات بہت خراب ہیں۔

(غزل نمبر ٢)

ہوائے دور مے خوش گوار راہ میں ہے
خزاں چمن سے ہے جاتی بہار راہ میں ہے

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ خوشگوار موسم آنے والا ہے، یعنی ہم اپنے محبوب سے ملنے والے ہیں۔ اور ہمارے دل میں موجود بے چینی جانے والی ہے۔ بہار راہ میں ہیں کیونکہ ہمارا محبوب آرہا ہے اور اب ہم اس سے مل سکیں گے اور اپنے تڑپتے دل کو تسکین پہنچا سکیں گے۔

عدم کے کوچ کی لازم ہے فکر ہستی میں
نہ کوئی شہر نہ کوئی دیار راہ میں ہے

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ اگر ہمارا محبوب نہ آیا تو ہمیں اس دنیا سے جانے کی فکر رہے گی۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ہمارا اس دنیا میں اپنے محبوب کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ نہ ہی ہمارا کوئی اپنا اس شہر میں موجود ہے اور نہ ہی پردیس میں ہمارا کوئی اپنا موجود ہے جس کے سہارے ہم زندگی گزار سکیں۔

سمندر عمر کو اللہ رے شوق آسائیش
عناں گستہ وبے اختیار راہ میں ہے

اس شعر میں شاعر نے سمندر کا ذکر کیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ سمندر کو تو آسائشوں کا شوق ہے۔ لیکن ہمیں ایسا کوئی شوق نہیں ہے اور ہماری راہ میں بہت ساری مشکلات اور رکاوٹیں موجود ہیں، جب کہ ہم اپنے راستے پر چل رہے ہیں اور ہم کسی کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کرتے ہیں۔

نہ بدرقہ ہے نہ کوئی رفیق ساتھ اپنے
فقط عنایت پروردگار راہ میں ہے

اس شعر میں شاعر اپنی خستہ حالی بیان کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اپنے سفر پر رواں دواں ہیں، لیکن ہمارے ساتھ کوئی موجود نہیں ہے۔ ہمارے پاس اللہ تعالی یعنی ہمارے رب پروردگار کی عنایت و رحمتیں موجود ہیں اور اس کے علاوہ ہمارا کوئی ساتھی نہیں ہے جو سفر میں ہمارا ساتھ دے۔

سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجر سایہ دار راہ میں ہے

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ اگر ہمارے ساتھ ہمارے سفر میں کوئی موجود نہیں ہے، تو کیا ہو؟ اس سفر کی یعنی زندگی گزارنے کی شرط یہ نہیں ہے کہ مسافر کے ساتھ کوئی اور انسان بھی موجود ہو بلکہ اللہ تعالی نے ہماری آسانی کے لئے راستے میں ہزاروں سایہ دار درخت بھی موجود رکھے ہیں۔ یعنی ہمیں زندگی میں بہت سے اچھے لوگ ملتے ہیں جو سایہ دار درختوں کی مانند ہوتے ہیں۔ جو ہمارے لئے آسانی پیدا کرتے ہیں۔

مقام تک بھی ہم اپنے پہنچ ہی جائیں گے
خدا تو دوست ہے دشمن ہزار راہ میں ہے

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ ہم نے اپنا سفر جس مقصد کے تحت شروع کیا ہم وہ مقصد حاصل کرلیں گے اور اپنی زندگی میں آنے کا مقصد بھی پورا کر لیں گے کہ خدا تو ہمارا دوست ہے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ ہمارے بہت سارے دشمن بھی ہیں اور ہمارے ان دشمنوں سے لڑنے کے لیے ہمارا ایک دوست یعنی خدا ہی کافی ہے۔

تھکے جو پاؤں تو چل سر کے بل نہ ٹھہر آتش
گُلِ مراد ہے منزل میں خار راہ میں ہے

اس شعر میں شاعر اپنے آپ کو مخاطب کرتے ہیں اور نصیحت کرتے ہیں کہ اگر تم سفر طے کرتے کرتے تھک جاؤ، تو سر کے بل چلنا شروع کر دو یعنی آہستہ آہستہ اپنے سفر کو جاری رکھو۔ لیکن کہیں رکو مت، کیونکہ تمہارا مقصد گُل ہے یعنی بہار ہے۔ تمہارا مقصد لوگوں کو محبت فراہم کرنا ہے اور تمہاری منزل بھی یہی ہے۔ جب کہ راستے میں تمہیں سوائے کانٹوں کے سوا کچھ اور نہیں ملے گا، اس لیے اس لیے ان کانٹوں کے ساتھ رُکنے کے بجائے یہ بات زیادہ اچھی ہے کہ تم آہستہ آہستہ اپنے سفر کو جاری رکھو اور اپنی منزل کے قریب پہنچتے رہو۔

سوالوں کے جوابات

سوال نمبر ۱ : ذیل کے اشعار کی تشریح کیجیے :

یہ آرزو تھی تجھے گل کے رو بہ رو کرتے
ہم اور بلبل بیتاب گفتگو کرتے

اس شعر میں شاعر اپنے محبوب سے مخاطب ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم چاہتے تھے کہ ہم تجھے گل کے روبرو کریں اور پھر ہم اپنے محبوب سے اور بلبل اپنے محبوب یعنی گل سے گفتگو کرے۔ شاعر اس شعر میں اپنے آپ کو ایک بے تاب بلبل اور اپنے محبوب کو گل سے تشبیہ دے رہے ہیں۔

نہ پوچھ عالم برگشتہ طالعی آتشؔ
برستی آگ جو باراں کی آرزو کرتے

اس شعر میں شاعر اپنے آپ سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ ہماری حالت نہ پوچھ کیونکہ اگر ہم بارش کی آرزو کرتے ہیں تو بھی آگ برستی ہے۔ یعنی اگر ہم کوئی اچھا کام کرنا چاہتے ہیں تو وہ کام الٹا ہوجاتا ہے اور سب کچھ خراب ہو جاتا ہے اور ہمارا محبوب ہم سے راضی نہیں ہوتا۔ اس لیے ہمارے حالات بہت خراب ہیں۔

سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ اگر ہمارے ساتھ ہمارے سفر میں کوئی موجود نہیں ہے، تو کیا ہو؟ اس سفر کی یعنی زندگی گزارنے کی شرط یہ نہیں ہے کہ مسافر کے ساتھ کوئی اور انسان بھی موجود ہو بلکہ اللہ تعالی نے ہماری آسانی کے لئے راستے میں ہزاروں سایہ دار درخت بھی موجود رکھے ہیں۔ یعنی ہمیں زندگی میں بہت سے اچھے لوگ ملتے ہیں جو سایہ دار درختوں کی مانند ہوتے ہیں۔ جو ہمارے لئے آسانی پیدا کرتے ہیں۔

سوال نمبر ۲ : اب آپ تلاش کر کے پانچ مطلعے اور پانچ مقطعے لکھیے۔

  • مطلع

١) ( احمد فرازؔ )
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں

٢) (مرزا غالبؔ)
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

٣) (فیض احمد فیضؔ)
گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

٤) (بہادر شاہ ظفرؔ )
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی

٥) (حسرت ؔموہانی)
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانا یاد ہے

  • مقطع

١) ( احمد فرازؔ )
اب اس کے شہر میں ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں
فرازؔ آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں
٢) (مرزا غالبؔ)
کہاں مے خانہ کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے

٣) (فیض احمد فیضؔ)
مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

۴) (بہادر شاہ ظفرؔ )
کیا سبب تو جو بگڑتا ہے ظفرؔ سے ہر بار
خو تری حور شمائل کبھی ایسی تو نہ تھی

۵) (حسرت ؔموہانی)
باوجود ادعائے اتقا حسرتؔ مجھے
آج تک عہد ہوس کا وہ فسانا یاد ہے