نظم حقیقت حسن کی تشریح، سوالات و جوابات

0

نظم حقیقت حسن کی تشریح:

خدا سے حسن نے اک روز يہ سوال کيا
جہاں ميں کيوں نہ مجھے تو نے لازوال کيا

اس نظم کے شاعر نے فطرت کے تغیر کو بیان کیا ہے۔ شاعر نے حسن کو ایک کرادر کی صورت میں پیش کیا ہے۔اس شعر میں شاعر نے حسن کو خدا سے سوال کرتے دکھایا ہے کہ خدا سے ایک روز حسن نے سوال کیا کہ تم نے مجھے لازوال کیوں نہیں تخلیق کیا ہے۔مجھے ہمیشگی کیوں نہ بخشی۔

ملا جواب کہ تصوير خانہ ہے دنيا
شب دراز عدم کا فسانہ ہے دنيا

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ حسن کو خدا کی جانب سے اس کے سوال پر یہ جواب ملا کہ یہ دنیا تو ایک تصویر خانہ ہے۔یہاں پر ہر چیز کی حیثیت عارضی ہے۔ جب کہ اس دنیا کی حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک طویل رات کے افسانے کی طرح ہے۔

ہوئی ہے رنگ تغير سے جب نمود اس کی
وہی حسين ہے حقيقت زوال ہے جس کی

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اس دنیا میں ہر چیز تغیر پذیر ہے۔کچھ بھی ایسا نہیں ہے جو ہمیشہ کے لیے رہے یا اس میں کوئی تبدیلی رونما نہ ہو۔جبکہ اس کائنات میں حسین بھی وہی شے ہے جو تغیر کی زد میں ہے اور اس کو عروج وزوال آتا رہتا ہے۔

کہيں قريب تھا ، يہ گفتگو قمر نے سنی
فلک پہ عام ہوئی ، اختر سحر نے سنی

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ تغیر کی حیثیت ایسے ہی ہے کہ قریب میں ہی آسمان پر موجود کسی چاند نے اس حقیقت کو سن لیا یوں یہ بات سارے فلک پر پھیل گئی۔بات صبح کے ستارے تک بھی جا پہنچی۔

سحر نے تارے سے سن کر سنائی شبنم کو
فلک کي بات بتا دی زميں کے محرم کو

شاعر کہتا ہے کہ صبح کے ستارے نے اس حقیقت کو شبنم تک پہنچایا۔یوں آسمان کی یہ حقیقت زمین تک آ پہنچی۔شبنم جو آسمان سے زمین پر آئی تھی اس نے یہ بات یہاں پہنچائی۔

بھر آئے پھول کے آنسو پيام شبنم سے
کلی کا ننھا سا دل خون ہو گيا غم سے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ آخر شبنم کا پیغام سن کر پھول کے آنسو آگئے۔ یعنی صبح کے طلوع ہونے کے ساتھ ہی شبنم بھی پکھلنے لگی۔ وہ کلیاں جو ابھی کھلی بھی نہ تھیں اس ننھی کلی کا دل غم کے مارے خون کے آنسو رونے لگا۔

چمن سے روتا ہوا موسم بہار گيا
شباب سير کو آيا تھا ، سوگوار گيا

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ تغیر کی یہ حقیقت جان کر بہار کا وہ موسم جو باغ میں پورے جوبن پر تھا اور اپنی رنگینیاں بکھیر رہا تھا یہاں سے روتا ہوا گیا۔یہ موسم یہاں خوشیاں لے کر آیا تھا مگر بہار کے بعد خزاں کی اداسیاں چھوڑ کر رخصت ہوا۔ یہی تغیر اور زوال کی اصل حقیقت ہے۔اسی طرح انسان کا حسن و جمال بھی ڈھل کر اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔

سوالوں کے جواب لکھیے:

سوال نمبر01:حسن نے خدا سے کیا سوال کیا ہے؟

حسن نے خدا سے سوال کیا کہ خدا نے اسے ہمیشگی کیوں نہیں بخشی اسے لازوال کیوں نہ بنایا۔

سوال نمبر02:خدا اور حسن کے درمیان گفتگو کی خبر زمین کے باسیوں کو کس طرح ہوئی؟

خدا اور حسن کے درمیان ہونے والی گفتگو قریب موجود چاند نے سن لی۔جس سے یہ گفتگو سارے فلک پر پھیل گئی۔فلک سے یہ خبر سحر نے سنی۔سحر سے صبح کے ستارے نے یہ خبر سن کر شبنم تک پہنچائی۔یوں شبنم نے فلک کا یہ راز زمین تک پہنچا دیا۔

سوال نمبر03:پھول،کلی،موسم بہار اور شباب کو شاعر نے سوگوار کیوں کہا ہے؟

پھول،کلی،موسم بہار اور شباب اس لیے سوگوار تھے کہ ان تک خدا اور حسن کے درمیان ہونے والے مکالمے کی خبر پہنچ چکی تھی۔ حسن اور دیگر چیزوں کے تغیر اور زوال پذیری نے ان کو افسردہ کر دیا تھا۔

سوال نمبر04:نظم کے آخری شعر کی تشریح کیجیے۔

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ تغیر کی یہ حقیقت جان کر بہار کا وہ موسم جو باغ میں پورے جوبن پر تھا اور اپنی رنگینیاں بکھیر رہا تھا یہاں سے روتا ہوا گیا۔یہ موسم یہاں خوشیاں لے کر آیا تھا مگر بہار کے بعد خزاں کی اداسیاں چھوڑ کر رخصت ہوا۔ یہی تغیر اور زوال کی اصل حقیقت ہے۔اسی طرح انسان کا حسن و جمال بھی ڈھل کر اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔

عملی کام:

قمر کے معنی ہیں چاند۔۔۔۔اردو میں چاند کے لیے اور بھی الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔مثلا ہلال،بدر،ماہ،مہہ، مہہتاب اسی طرح سورج کے لیے جو الفاظ استعمال ہوتے ہیں وہ لکھیے۔

سورج کے لیے استعمال ہونے والے الفاظ یہ ہیں:
شمش،مہر،آفتاب،خورشید وغیرہ۔