ہر حال میں رہا جو ترا آسرا مجھے تشریح

0
  • نیشنل بک فاؤنڈیشن “اردو” برائے آٹھویں جماعت
  • سبق نمبر:۔ 13
  • نظم کا نام: غزل
  • شاعر کا نام: حسرت موہانی

اشعار کی تشریح:

ہر حال میں رہا جو ترا آسرا مجھے
مایوس کر سکا نہ ہجوم بلا مجھے

یہ شعر حسرت موہانی کی غزل سے لیا گیا ہے اس شعر میں شاعر کا مخاطب اس کا محبوب ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ میرے محبوب کی محبت کا سہارا مجھے ہر حال میں رہا یہی وجہ ہے کہ میرے گرد لوگوں کا ہجوم بھی مجھے مایوس نہ کر سکا۔ یہاں محبوب سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذاتِ باری تعالیٰ ہے کہ جس نے کسی صورت اور کبھی اپنے بندے کو نہ تو تنہا چھوڑا اور نہ ہی مایوس ہونے دیا۔

ہر نغمے نے انھی کی طلب کا دیا پیام
ہر ساز نے انھی کی سنائی صدا مجھے

اس شعر میں شاعر اللہ کی ذات سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہر لمحہ ہر نغمے نے مجھے اس ذات کی طلب کا پیام دیا ہے اور میرے گرد موجود ہر ساز اور صدا محض اللہ تعالیٰ کی ذات کی عظمت بیان کرتے سنائی دیتی ہے۔

رہتا ہوں غرق ان کے تصور میں روز و شب
مستی کا پڑ گیا ہے کچھ ایسا مزا مجھے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میں رات اور دن محض اپنے محبوب کے تصور میں غرق رہتا ہوں۔ اس کی محبت کا تصور مجھے مست کیے دیتا ہے اور اب اس مستی میں مجھے سرور ملنے لگا اور مزا آنے لگا ہے۔

ہر بات میں انہیں کی خوشی کا رہا خیال
ہر کام سے غرض ہے انہیں کی رضا مجھے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ مجھے ہر قدم اور لمحہ اپنے محبوب کی خوشی کا خیال رہا اور کوئی بھی کام کرنے اور کوئی بھی قدم اٹھانے میں مجھے میرے محبوب یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا ہی مقدم رہی۔

حسرت یہ کس کے حسنِ محبت کا ہے کمال
کہتے ہیں جو شاعرِ رنگین نوا مجھے

اس شعر میں شاعر نے اپنے لیے شاعرِ رنگیں کی ترکیب استعمال کی اور شاعر کہتا ہے کہ نجانے حست یہ کس کی محبت کے حسن کا کمال ہے کہ لوگوں نے مجھے رنگین مزاج شاعر کہنا شروع کر دیا ہے۔شاعری کی اصطلاح میں اس خوبی کو صنعتِ حسنِ تعلی کہا جاتا ہے جس میں شاعر خود اپنی تعریف کرتا ہے۔

  • مشق:

دیے گئے سوالات کے جوابات لکھیں۔

ہجوم بلا سے کیا مراد ہے؟

ہجومِ بلا سے مراد لوگوں کی بھیڑ یا لوگوں کا ہجوم ہے۔

شاعر کو ہجوم بلا مایوس کیوں نہ کر سکا؟

شاعر کو ہجومِ بلا اس لیے نہ مایوس کر سکا کیوں کہ ہر لمحہ اس کے ساتھ اس کے محبوب کا آسرا موجود تھا۔یہاں شاعر کے محبوب سے مراد اللّٰه تعالیٰ کی ذات ہے۔

شاعرکس کے تصورمیں روز و شب غرق رہتا ہے اورکیوں؟

شاعر اپنے محبوب کے تصور میں روز و شب غرق رہتا ہے۔ کیوں کہ شاعر کو مستی کا مزا پڑ چکا ہے۔

ہر نغمے اور ساز کی صدا شاعر کو کس طرف کھینچتی ہے؟

ہر نغمے اور ساز کی صدا شاعر کو اس کے محبوب کی طرف کھینچتی ہے۔

شاعر نے اپنے لیے رنگیں نوا کی اصطلاح کیوں استعمال کی؟

یہ ترکیب شاعر نے خود اپنے لئے استعمال کی ہے۔شاعری کی اصطلاح میں اس خوبی کو صنعتِ حسنِ تعلی کہا جاتا ہے جس میں شاعر خود اپنی تعریف کرتا ہے۔

ایک طالب علم غزل کا نامکمل مصرعہ پڑھے اور دوسرے طلبہ منا سب الفاظ دیکھ کر مصرع مکمل کر لیں۔

  • ہر نغمے نے انھی کی طلب کا دیا پیام
  • ہر ساز نے انھی کی سنائی صدا مجھے
  • رہتا ہوں غرق ان کے تصور میں روز و شب
  • ہر کام سے غرض ہے انہیں کی رضا مجھے
  • کہتے ہیں جو شاعرِ رنگین نوا مجھے

مندرجہ ذیل شعر کا مرکزی خیال اپنے الفاظ میں تحریر کریں:

ہر نغمے نے انھی کی طلب کا دیا پیام
ہر ساز نے انھی کی سنائی صدا مجھے

اس شعر میں شاعر نے محبوب کی طلب کی تڑپ کو بیان کیا ہے کہ ہر صدا اور ساز اسی کا پیغام سناتی محسوس ہوتی ہے۔

درج ذیل غزلیہ اشعار کی مختلف اشعار کے حوالوں کے ساتھ تشریح کریں:

ہر بات میں انہیں کی خوشی کا رہا خیال
ہر کام سے غرض ہے انہیں کی رضا مجھے
  • اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ مجھے ہر قدم اور لمحہ اپنے محبوب کی خوشی کا خیال رہا اور کوئی بھی کام کرنے اور کوئی بھی قدم اٹھانے میں مجھے میرے محبوب یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا ہی مقدم رہی۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
  • سر بسر یار کی مرضی پہ فدا ہو جانا
  • کیا غضب کام ہے راضی بہ رضا ہو جانا
حسرت یہ کس کے حسنِ محبت کا ہے کمال
کہتے ہیں جو شاعرِ رنگین نوا مجھے

اس شعر میں شاعر نے اپنے لیے شاعرِ رنگیں کی ترکیب استعمال کی اور شاعر کہتا ہے کہ نجانے حست یہ کس کی محبت کے حسن کا کمال ہے کہ لوگوں نے مجھے رنگین مزاج شاعر کہنا شروع کر دیا ہے۔شاعری کی اصطلاح میں اس خوبی کو صنعتِ حسنِ تعلی کہا جاتا ہے جس میں شاعر خود اپنی تعریف کرتا ہے۔محبوب کی محبت انسان کو مست کر دیتی ہے اور اسے اپنا محبوب ہی سب سے حسین دکھائی دیتا ہے جیسے کہ فیض احمد فیض ںے کیا خوب کہا ہے۔

وہ تو وہ ہے تمہیں ہو جائے گی الفت مجھ سے
اک نظر تم مرا محبوب نظر تو دیکھو

زبان سیکھیے:

تلمیح کسی قرآنی آیت ، حدیث مبارکہ یا مذہبی تاریخی واقعے کی طرف اشارہ کرنا تلمیح کہلاتا ہے۔ تلمیح کے لغوی معنی اشارہ کرنا کے ہیں۔ مثلاً: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالی کے حکم سے لوگوں کو نیکی اور سچائی کے رستے کی طرف بلانا چاہا۔ نمرود کو یہ بات پسند نہ آئی اور اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ختم کرنے کے لیے آگ بھڑکائی ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام بالکل بھی خوف زدہ نہ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آگ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا کچھ نہ بگاڑا:

بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی

درج ذیل تلمیحات جن اشعار میں استعمال ہوئی ہیں، طلبہ اپنے استاد کی رونمائی میں ان اشعار کو تلاش کر کے لکھیں اور ان تلمیحات کی وضاحت کریں۔

ابن مریم:

ابن مریم بنواسرائیل کے آخری پیغمبرحضرت عیسی کی کنیت ہے۔ حضرت عیسی بنواسرائیل کی ایک پاکبازاورباعصمت خاتون کے بیٹے تھے۔ حضرت عیسی کوخدا نےعام انسانوں کے برعکس اپنی قدرت کے اظہاراورشان اعجازی کے مظہرکے طورپربن باپ کے پیدا کیا۔ جبرئیل نے حضرت مریم کے گریبان میں پھونک ماری اوروہ حاملہ ہو گئیں۔ اس طرح حضرت عیسی کی ولادت ہوئی۔ اسی وجہ سے حضرت عیسی کو ان کی ماں کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ اس پورے واقعہ کا ذکرقرآن میں ملتا ہے۔
مندرجہ ذیل شعر میں یہ تلمیح مستعمل ہے۔

ابن مریم ہوا کرے کوئی
مرے دکھ کی دوا کرے کوئ

آبِ بقا:

آب حیات سے مراد پانی کا وہ چشمہ ہے جس کی نسبت یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کا پانی پی لینے سے حیات جاودانی حاصل ہو جاتی ہے۔ اساطیر میں حضرت خضرکی دائمی زندگی کا راز بھی یہی ملتا ہے کہ انہوں نے آب حیات پی کر دائمی زندگی حاصل کرلی تھی، وہ قیامت تک عام انسانوں کی نظروں سے پوشیدہ رہیں گےاوربھٹکے ہوئے لوگوں کی رہبری کرتے رہیں گے۔ یہ تلمیح اساطیری نوعیت کی ہے۔آب حیات متعدد ناموں سے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ آب بقا، آب حیواں، آب خضر، آب زندگانی، چشمۂ زندگی، چشمۂ حیواں، زلال خضر، زلال بقا، زلال زندگانی، چسمۂ ظلمات۔ یہ سارے مرکبات مذکورہ اساطیری واقعے کا تلمیحی اشارہ ہیں۔
کہانیاں ہیں حکایات خضر وآب بقا
بقا کا ذکر ہی کیا اس جہاں فانی میں

جامِ جمشید:

جمشید حضرت عیسی سے تقریبا آٹھ سوسال قبل پیش دادی خاندان کا چوتھا تاجدار، قدیم ایران کا بادشاہ اورطہمورث کا بیٹا تھا۔ اس کا عہد قدیم ایران کا عہد زریں کہا جاتا ہے۔ جمشید نے اپنے زمانے کے سائنسدانوں کی مدد سے ایک ایسا پیالہ تیارکرایا تھا جس میں وہ دنیا کے مختلف حصوں کا مشاہدہ کرتا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جمشید کی دولت وامارت اورعظمت وشوکت کے پیچھے اس جام کا بڑا دخل ہے۔ جمشید کے بعد یہ جام خسرو(کیخسرو کی سہل صورت) کے ہاتھوں ہوتا ہوا دارا کے دربارکی زینت بنا۔ اسی وجہ سے اس جام کو مخلتف ناموں سے پکارا گیا۔ جام جمشید، جام جہاں بیں، جام گیتی نما، جام جم، جام خسرووغیرہ۔

اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
ساغر جم سے مرا جام سفال اچھا ہے