نظم حویلی کی تشریح

0

مخدوم محی الدین کی نظم “حویلی” 19 اشعار پر مشتمل نظم ہے جس میں انھوں نے قدیم ہندوستان کی فرسودہ روایات اور افلاس کی منظر کشی کی ہے۔

ایک بوسیدہ حویلی یعنی فرسودہ سماج
لے رہی ہے نزع کے عالم میں مردوں سے خراج

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ یہ (ہندوستان) ایک پرانی حویلی ہے یہاں شاعر اس حویلی کو ایک پرانے (پرانی رسم و رواج کا پابند) سماج کی طرح لیتا ہے۔ یہ حویلی اپنی فرسودگی یعنی موت کے وقت بھی مردوں سے خراج لے رہی ہے۔ یعنی شاعر کے مطابق ہندوستان کی یہ روایات یہاں کے لوگوں سے خراج مانگتی ہیں۔

اک مسلسل گرد میں ڈوبے ہوئے سب بام و در
جس طرف دیکھو اندھیرا جس طرف دیکھو کھنڈر

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ وقت کی ایک مسلسل گرد میں اس حویلی کے تمام دروازے اور کھڑکیاں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اس حویلی کے جس طرف بھی نظر دوڑائی جائے وہاں گرد اندھیرے اور کھنڈر کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا ہے۔

مار و کژدم کے ٹھکانے جس کی دیواروں کے چاک
اف یہ رخنے کس قدر تاریک کتنے ہول ناک

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اس حویلی کی دیواریں اب سانپ اور بچھوؤں کا ٹھکانا بن چکی ہیں۔ اس کے راستے بہت زیادہ تاریک اور خوفناک ہیں۔

جن میں رہتے ہیں مہاجن جن میں بستے ہیں امیر
جن میں کاشی کے برہمن جن میں کعبے کے فقیر

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اس حویلی کے یہ راستے یا سانپ اور بچھوؤں کے وہ رخنے ہندوستان کے پسِ منظر میں اس سے مراد وہ جگہیں ہیں کہ جہاں یہاں کے مہاجن اور امیر لوگ مقیم ہیں۔ یہں پہ کاشی کے مقام کے برہمن بھی رہتے یں اور یہی جگہ کوبے کے فقیروں کا بھی ٹھکانہ ہے۔

رہزنوں کا قصر شوریٰ قاتلوں کی خواب گاہ
کھلکھلاتے ہیں جرائم جگمگاتے ہیں گناہ

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ یہاں رہزنوں یعنی لٹیروں کی مجلسیں بھی ہوتی ہیں اور یہی جگہ قاتلوں کی خواب گاہ بھی ہے۔یہاں پہ لوگوں کے جرائم ہنستے ہیں اور ان کے گناہ چمکتے دکھائی دیتے ہیں۔

جس جگہ کٹتا ہے سر انصاف کا ایمان کا
روز و شب نیلام ہوتا ہے جہاں انسان کا

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ یہ وہ جگہ ہے کہ جہاں پر انصاف اور ایمان کا سر کٹتا ہے۔ اس جگہ پہ دن اور رات میں انسان کی نیلامی اور ہوتی ہے اور وہ بکتا رہتا ہے۔

زیست کو درس اجل دیتی ہے جس کی بارگاہ
قہقہہ بن کر نکلتی ہے جہاں ہر ایک آہ

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ یہاں زندگی کو موت سبق دیتی ہے اور یہاں پہ موت کی بارگاہ میں ہر ایک آہ قہقہہ بن کر نکلتی اور گونجتی ہے۔

سیم و زر کا دیوتا جس جا کبھی سوتا نہیں
زندگی کا بھول کر جس جا گزر ہوتا نہیں

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ یہ حویلی جس سے مراد ہندوستان ہے یہ وہ جگہ ہے کہ جس جگہ پہ دولت اور پیسے کا دیوتا کبھی نہیں سوتا ہے اور جگہ پہ بھولے سے بھی زندگی کا گزر نہیں ہے یعنی اس جگہ کے لوگ مشینی زندگی گزار رہے ہیں۔

ہنس رہا ہے زندگی پر اس طرح ماضی کا حال
خندہ زن ہو جس طرح عصمت پہ قحبہ کا جمال

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ یہاں کا ماضی موجودہ زندگی کے حال پہ اس طرح سے ہنس رہا ہے کہ جیسے عزت و عصمت پہ شراب خانوں کا جمال ہنستا ہے۔

ایک جانب ہیں وہیں ان بے نواؤں کے گروہ
ہاں انہیں بے نان و بے پوشش گداؤں کے گروہ

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اس وطن میں ایک طرف بے نوا لوگوں کے گروہ رہتے ہیں تو وہیں پہ ایسے فقیروں کے گروہ بھی بستے ہیں کہ جو روٹی اور لباس تک کے لیے ترستے ہیں۔

جن کے دل کچلے ہوئے جن کی تمنا پائمال
جھانکتا ہے جن کی آنکھوں سے جہنم کا جلال

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ یہاں کے باسی وہ لوگ ہیں کہ جن کے دل کچلے جا چکے ہیں اور ان لوگوں کی تمناؤں کو پامال کر دیا گیا ہے۔یہاں کے لوگوں کی آنکھوں میں جہنم کا جمال رعب دکھائی دیتا ہے۔

اے خدائے دو جہاں اے وہ جو ہر اک دل میں ہے
دیکھ تیرے ہاتھ کا شہکار کس منزل میں ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اے دونوں جہانوں کے خدا جو کہ ہر ایک کے دل میں بستا ہے۔ آج دیکھوں کے تمھارے ہاتھوں کا تخلیق کیا گیا شہکار یعنی انسان کس منزل پہ ہے۔

جانتا ہوں موت کا ہم ساز و ہم دم کون ہے
کون ہے پروردگار بزم ماتم کون ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ مجھے معلوم ہے کہ موت کا ساتھی اور ہم ساز کون ہے۔ اس دنیا کا تخلیق کار یعنی پروردگار کون ہے اور یہاں کے ماتم کرنے والے لوگ کون ہیں۔

کوڑھ کے دھبے چھپا سکتا نہیں ملبوس دیں
بھوک کے شعلے بجھ سکتا نہیں روح الامیں

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ دین کے لبادے میں ملبوس کوئی بھی انسان کسی کے جسم پر موجود کوڑھ کے داغ دھبوں کو نہیں چھپا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی روح الامین کسی کے بھوک کے شعلوں کو بجھا سکتا ہے۔

اے جواں سال جہاں جان جہان زندگی
ساربان زندگی روح روان زندگی!

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اے جوان سال یہ دنیا اور ساری زندگی کے خالق اور اس دنیا میں اونٹ اور اس کی زندگی کے رکھوالے اور زندگی کے روح رواں ۔

جس کے خون گرم سے بزم چراغاں زندگی
جس کے فردوسی تنفس سے گلستاں زندگی

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ جسم کے رواں دواں اور گرم خون سے ہی زندگی کی روشنیاں عبارت ہیں۔ اس دنیا کے جنت نما تصور سے ہی زندگی ایک باغ کی مانند محسوس ہوتی ہے۔

بجلیاں جس کی کنیزیں زلزلے جس کے صفیر
جس کا دل خیبر شکن جس کی نظر ارجن کا تیر

اس شعر میں شاعر کہتا ہے یہ وہ ملک ہے یا حویلی ہے کہ جس کے ہم آواز یہاں کی بجلیاں اور کنزیں ہیں۔ جن کا دل حضرت علی اکبر جیسا اور ان کی نظر ارجن کے تیر کی مانند تھی۔

ہاں وہ نغمہ چھیڑ جس سے مسکرائے زندگی
تو بجائے ساز الفت اور گائے زندگی

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اے حویلی وہ نغمہ چھیڑوں کہ جس سے زندگی مسکرانے لگ جائے۔ تم زندگی کا ساز یعنی نغمہ بجاؤ اور زندگی اس نغمے پہ گاتی رہے۔

آ انہیں کھنڈروں پہ آزادی کا پرچم کھول دیں
آ انہیں کھنڈروں پہ آزادی کا پرچم کھول دیں

اس شعر میں شاعر ایک صدا بلند کرتے ہوئے کہتا ہے کہ آؤ اور ہم ان تمام کھنڈرات پہ آزادی اور زندگی کا ایک نیا پرچم لہرائیں۔