حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

0

تعارف:☜

لڑکپن کا زمانہ تھا ابھی حد بلوغت کو نہ پہنچے تھے۔لوگوں سے بہت دور مکہ معظمہ کے پہاڑی راستوں میں ہر روز اپنے آقا اور عقبہ بن ابی معیط کی بکریاں چراتے تھے۔لوگ انہیں ابن ام عبد کے نام سے پکارتے تھے۔جبکہ انکا اصلی عبد اللہ اور باپ کا نام مسعود تھا۔یہ ہونہار فرزند نبی کریمﷺ کے متعلق عجیب عجیب باتیں سنا کرتا تھا۔لیکن ان باتوں پر دو وجہ سے دھیان نہی دیتا تھا۔ایک تو بچپن کا زمانہ تھا ۔ اور دوسری وجہ یہ تھی کہ اکثر وقت مکی معاشرہ سے الگ تھلک گزرتا تھا۔روزانہ کا معمول تھا کہ صبح سویرے آقا عقبہ کی بکریاں چرانے چلا جاتا اور رات کو واپس آتا۔

آپؓ کے اسلام لانے کا واقعہ:☜

ایک دن یہ مکی نوجوان بکریاں چرا رہیں تھے ۔اور اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ دو باوقار بزرگ انکی جانب چلے آ رہیں ہیں۔وہ دونوں بہت تھکے ہوۓ تھے اور پیاس کی شدت سے انکے حلق اور ہونٹ خشک ہو گیۓ تھے۔انکے پاس آتے ہی دونوں نے سلام کیا اورفرمایا کہ عزیزم ! ہمیں ان بکریوں کا دودھ پلاؤ تاکہ اس سے آتش پیاس بجھ سکے اور ہم اپنی انتڑياں تر کر سکیں۔”اس ہونہار لڑکے نے جواب دیا کہ میں تو ایسا نہی کر سکتا یہ بکریاں میری نہی ہیں۔یہ تو میرے پاس امانت ہیں۔”لیکن انہونے میری بات کا برا نہی مانا بلکہ انکے چہرے خوشی سے تمتما اٹھے۔پھر انمیں سے ایک بزرگ نے کہا کہ  ہمیں ایک ایسی بکری بتایئ جو ابھی چھوٹی ہو اور دودھ نہ دیتی ہو۔تو میں نے انکے قریب ہی کھڑی ایک بکری کی جانب اشارہ کیا۔تو انمیں سے ایک بزرگ آگے بڑھے اور ایک ہاتھ سے بکری کی ٹانگ پکڑی اور دوسرا ہاتھ اسکے تھنوں پر لگایا اور ساتھ ہی ساتھ کچھ پڑھ بھی رہیں تھے۔میں نے بڑی حیرانی سے انکی طرف دیکھا اور دل میں کہا۔

بھلا اتنی چھوٹی عمر کی بکریاں بھی دودھ دیا کرتی ہیں۔لیکن میں نے دیکھا کہ تھوڑی ہی دیر بعد بکری کے تھنوں سے دودھ اتر آیا۔اور دودھ بھی کثیر مقدار میں تھا۔دوسرے بزرگ نے ایک پیالا نما پتھر پکڑا اور اسے دودھ سے بھر لیا۔دونوں نے خوب جی بھر کے پیا اور مجھے بھی پلایا۔میں یہ منظر دیکھ کر حیران اور ششدر رہ گیا۔جب ہم تینوں سیراب ہو گیۓ تو اس بزرگ نے تھنوں کو حکم دیا کہ سکڑ جاؤ۔ یہاتنکہ وہ سکڑنے لگے اور اپنی حالت پر لوٹ آۓ۔اس موقعہ پر میں نے عرض کیا کہ ازراہِ کرم مجھے بھی آپ یہ کلام سکھا دیجیئے انہوں نے کہا کہ ابھی تم بچے ہو۔یہی واقعہ عبد اللہ بن مسعود کو اسلام کی جانب لانے کا باعث ہوا۔کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ شخص کون تھے؟؟؟ یہ بذات خود رسول اللہﷺ اور آپﷺ کے رفیق حضرت ابو بکر صدیقؓ تھے۔اس ہونہار لڑکے نے نبی کریمﷺ اور حضرت ابو بکر صدیقؓ سے خلوص دل سے محبت کی اور آپﷺ اور صدیق اکبرؓ نے بھی اس لڑکے کو دیانت اور ایمانداری کی بناء پر پسند کیا۔اس واقعہ کے تھوڑے ہی دن بعد حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے اسلام قبول کیا۔ اور اسی روز سے یہ خوش نصیب فرزند بکریوں کے فریضہ سے سبکدوش ہوا۔اور ابد الآباد کے لیۓ حضورﷺ کی خدمت کے شرف سے ممتاز ہوا۔

آپﷺ کی رفاقت میں:☜

حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ آپﷺ کی اس رفاقت سے اس طرح فیضیاب ہوۓ جس طرح سایہ  انسان کے ساتھ چلتا ہے۔سفر میں حضر میں ہر جگہ آپﷺ کی خدمت کے فریضہ کو انجام دیا۔آپﷺ جب گھر سے باہر جانے کا  ارادہ کرتے تو فورًا جوتیاں لا کر قدموں میں رکھ دیتے۔اور جب آپﷺ گھر میں تشریف فرما ہوتے تو اپنے ہاتھوں سے آپﷺکے پیروں سے جوتی مبارک اتارتے۔آپﷺ کی چھڑی اور مسواک ہر دم تیار رکھتے۔آپکوؓ آپﷺ کے حجرے میں بھی آنے کی اجازت تھی۔یہاں تکہ آپؓ صحابہ اکرام میں رازدانِ صحابہ کے نام سے معروف ہو گیۓ۔

حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ درس گاہِ نبوت میں:☜

حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی پرورش و تربیت آپﷺ کے گھر میں ہی ہویئ اس لیۓ آپؓ کو آپﷺ کے اوصاف و سیرت کو اپنانے کا وافر موقعہ ملا۔انہوں نے آپﷺ کی ہر ہر عادت کو اپنے اندر سمونے کی ہر لمحہ کاوش کی۔یہاں تکہ یہ بات مشہور ہو گئ کہ عبد اللہ بن مسعودؓ آپﷺ کے قریب ترین ہیں۔عبد اللہ بن مسعودؓ نے درس گاہِ نبوت سے ہی تعلیم حاصل کی۔ قرآن مجید کی تلاوت ، شریعت الٰہیہ ، قرآن فہمی، وغیرھم صحابہ اکرام رضی اللہ عنھم کے درمیان آپؓ کو خاص مقام و مرتبہ حاصل تھا۔

ایک واقعہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ سے متعلق:☜

وقوف عرفہ کے دوران ایک شخص حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔اور عرض کی کہ۔۔۔۔:۔ امیرالمؤمنین اس وقت میں کوفہ سے آ رہا ہوں۔وہاں ایک شخص اپنے حافظہ کی بنیاد پر قرآن مجید لکھوا رہا ہے۔یہ بات سن کر حضرت عمرؓ بہت غصے میں آ گیۓ کہ اتنے غصے میں آپکو پہلے کبھی نہی دیکھا گیا۔آپؓ نے غضبناک ہو کر فرمایا کہ بتاؤ وہ کون ہے؟اس شخص نے عرض کیا کہ وہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ ہیں۔انکا نام سن کر آپؓ کا غصہ ماند پڑ گیا اور ارشاد فرمایا کہ بخدا میرے علم میں اس وقت عبداللہ بن مسعود کو اس وقت قرآن فہمی میں سب سے اعلی و ارفع مقام حاصل ہیں۔

مستجاب الدعوة:☜

ایک رات نبی کریمﷺ اور حضرت ابو بکر صدیقؓ بیٹھے امت مسلمہ کے متعلق گفتگو کر رہیں تھے۔اور حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ میں بھی انہی میں شریک تھا۔اچنک نبی کریمﷺ اٹھے اور ایک جانب چل پڑے ۔ ہم بھی آپﷺ کے ساتھ چلنے لگے۔کیا دیکھتے ہیں کہ ایک شخص مسجد میں کھڑا اونچی آواز میں نماز پڑھ رہا ہے۔اور اندھیرے کی وجہ سے ہم اسے پہچان نہ سکیں۔ نبی کریمﷺ نے کھڑے ہوکر قرآت سننا شروع کر دی پھر آپﷺ ہماری جانب متوجہ ہوۓ۔۔۔اور ارشاد فرمایا کہ۔۔۔۔
“جیسے یہ بات پسند ہے کہ وہ قرآن کریم کو اس لہجہ میں پڑھیں جس میں وہ نازل ہوا ہے۔تو عبد اللہ بن مسعودؓ کی قرٵت کو اپنا لے”۔
“نماز کے بعد جب عبد اللہ بن مسعودؓ نے اونچی آواز کے ساتھ دعا شروع کی تو اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا !!!
” کہ مانگو تمہاری دعائیں قبول کی جائیگی”!!!
پھر حضرت عمرؓ نے اپنے دل میں یہ ارشاد فرمایا کہ ” خدا کی قسم! !!! میں ضرور صبح کو عبد اللہ بن مسعودؓ کو یہ اطلاع دونگا کہ رات نبی کریمﷺ نے تیری دعا پر آمین کہا ہے”۔
فرماتے ہیں کہ جب میں صبح سویرے خوش خبری دینے گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ مجھے پہلے خوش خبری سنا چکے ہیں”  !!!حضرت عمرؓ فرماتے ہیں  برملا میں اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ مجھ سے ہر نیکی کے کام میں سبقت لے گیۓ”۔
خود عبد اللہ بن مسعودؓ اپنی قرآن فہمی کے متعلق فرماتے ہیں:☜

حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کو قرآن فہمی میں ممتاز مقام حاصل تھا۔وہ خود اپنے متعلق فرماتے ہیں کہ ” قسم ہے اس ذات کی جسکے سواء کویئ معبود نہی اسی کے فضل و کرم سے مجھے قرآن کی ہر آیت کے متعلق علم ہوا ہے۔کہ وہ کہا نازل ہوا۔اسکا شان نزول کیا ہے۔جب مجھے یہ علم ہوتا کہ فلاں شخص قرآن فہمی کے متعلق مجھ سے زیادہ معلومات رکھتا ہے تو میں اسکی خدمت میں جا کر معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتا۔

آپؓ کی قرآن فہمی سے متعلق ایک واقعہ:☜

ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطابؓ ایک صحرا میں سفر کر رہیں تھے۔رات بہت تاریک تھی۔ دورانِ سفر ایک قافلہ ملا اسمیں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بھی شامل تھے۔حضرت عمرؓ نے اپنے رفقاء سفر میں سے ایک شخص کو حکم دیا کہ یہ قافلہ کہا سے آرہا ہے؟جب ان سے یہ پوچھا گی  کہ تم کہاں سے آ رہیں ہو ؟؟؟
تو جواب ملا:☜ فجِّ عمیق” سے(دور دراز جگہ سے)
دوسرا سوال ہوا کہ کہاں کا ارادہ ہے؟؟؟
جواب ملا:☜ بیت عتیق” کا(بیت اللہ شریف کا)
ان عمدہ جوابات سے معلوم ہوا کہ اس قافلہ میں کویئ جید عالم موجود ہیں۔لھذا ان سے کچھ مزید سوالات کۓ جاۓ۔
سوال کیا گیا کہ قرآن کریم سب سے بڑی آیت کونسی ہے؟؟؟
جواب ملا :☜ آیت الکرسی”
دوسرا سوال کیا کہ قرآن کریم کی کون سی آیت سب سے محکم ہے؟؟؟
جواب ملا:☜ ان اللہ یٵمر باالعدل والاحسان وإیتاء ذی القربیٰ (السورة النحل شمار آیت 90)
بلا شبہ اللہ انصاف اور احسان کرنے والے رشتہ داروں کو (مالی مدد) دینے کا حکم کرتا ہے…
تیسرا سوال کیا گیا کہ قرآن کریم کون سی آیت سب سے جامع ہے؟؟؟
جواب ملا:☜”فمن یعمل مثقال ذرة خیرا یرہ ومن یعمل مثقال ذرة شرا یرہ”
جو ذرہ بھر نیکی کرتا ہے۔وہ اسکو دیکھ لیگا اور جو ذرہ بھر برایئ کرتا ہے اسکو دیکھ لیگا۔
چوتھا سوال کیا گیا:☜ کہ قرآن مجید کی کون سی آیت سب سے زیادہ خوف دلانے والی ہے؟؟؟
جواب ملا:☜ لیس بامنیکم ولا امانی اھل الکتاب من یعمل سواء یجز به ولا یجد له من دون الله ولیا ولا نصیرا”(السورة نساء 124)
نجات نہ تو تمہاری آرزوؤں پر ہے اور نہ اھل کتاب کی آرزوؤں پر جو شخص برا عمل کریگا اسے اسی کا بدلا دیا جائیگا۔اورنہ وہ اللہ کے سواء کسی کو حمایتی پائیگا ۔اور نہ مددگار”۔
پانچواں سوال کی  گیا  :☜قرآن کریم کی کونسی آیت سب سے زیادہ امید دلانے والی ہے؟؟؟
جواب ملا :☜ قل یعبادی الذین اسرفوا علی انفسھم لاتقنطوا من رحمة اللہ ان اللہ یغفر الذنوب جمیعا انه ھو غفور الرحیم”( الزمر آیت نمبر 53 )

کہہ دو کہ اے میرے بندوں جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے۔اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا ۔ اللہ سب گناہوں کو بخش دیگا۔وہ تو بخشنے والا مہربان ہے”۔یہ تمام عمدہ جواب سن کر حضرت عمرؓ نے قافلہ والوں سے دریافت کیا کہ کیا تمہارے ساتھ عبد اللہ بن مسعودؓ بھی ہیں؟؟؟
جواب ملا:☜ یقینًا موجود ہیں! !!!

آپ رضی اللہ تعالٰی عنه کے فضائل :☜

حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ صرف قاری عابد زاہد ہی نہ تھے۔ بلکہ تنو مند چاک و چوبند” اور بوقت ضرورت آگے بڑھ کر حملہ کرنے والے مجاہد بھی تھے۔غالبًا یہ پہلے صحابی ہیں جنہوں نے نبی کریمﷺ کے بعد مکہ معظمہ میں کفار قریش کے سامنے باآواز بلند قرآن کریم کی تلاوت کی۔ایک دن اصحاب رسول مکہ معظمہ میں ایک جگہ جمع ہوۓ ۔ اس وقت مسلمانوں کی تعداد بھی بہت کم تھی۔سب نے سوچا کہ ابھی تک قریش نے اپنے کانوں سے کلام الہی نہی سنا ہم میں سے کون یہ جرٵت کریگا کہ انہیں بلند آواز سے قرآن مجید سناۓ۔حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا  کہ یہ ذمہ داری میں قبول کرتا ہوں میں انہیں بلند آواز سے قرآن مجید سناؤگا۔سب نے کہا کہ ہمیں خطرہ ہے کہ کہیں آپ کی آواز سن کر وہ شرارت پر نہ اتر آۓ۔ہماری راۓ یہ فریضہ اسے انجام دینا چاہیئے۔۔۔۔ جسکا قبیلہ بھاری ہو۔اگر یہ شرارت کرنا بھی چاھے تو قبیلہ آڑے آ جاۓ۔اس طرح قرآن مجید کی تلاوت کرنے والا ان کے شر سے محفوظ رہیگا۔یہ سن کر آپ نے نہایت ہی جرٵت مندانہ انداز میں فرمایا کہ آج مجھے تلاوت کرنے دیجیئے  !
اللہ میرا حامی و ناصر ہے !!!اسکے بعد آپ مسجد حرام میں داخل  ہوۓ اور مقام ابراھیم کے پاس آکر کھڑے ہوگۓ۔قریش اس وقت کعبہ کے ارد گرد بیٹھے ہوۓ تھے۔آپ نے بلند آواز سے ان آیات کی تلاوت شروع کر دی۔

                                   ﷽

“الرحمان ۞ علمہ القران ۞ خلق انسان علمہ البیان۞

جب آپ لگاتار سورہ رحمن کی تلاوت کرتے رہیں تو قریش نے غور کیا کہ ارے یہ تو وہی کچھ کہہ رہا ہیں جو محمدﷺ ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔دیکھتے ہی دیکھتے سارا مجمع آپ پر حاوی ہو گیا ۔اور آپ کو مارتے ہی جاتے ۔ اور آپ لگاتار پڑھتے ہی جاتے۔جب آپ فارغ ہو کر ساتھیوں کے پاس پہنچے تو آپ کے جسم سے خون بہہ رہا تھا۔صحابہ نے آپکی یہ حالت دیکھ کر فرمایا کہ ہمیں اس بات کا اندیشہ تھا۔حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے کہا کہ خدا کی قسم ! اب دشمنان خدا میری نظر میں کاہ کی بھی حیثیت نہی رکھتے۔اگر آپ اجازت دے تو میں پھر سے کل صبح انکے سامنے جاکر وہی قران کریم کی تلاوت کروں۔سب نے روک دیا اور عرض کیا کہ آپ نے حق اداء کر دیا اور قریش کو وہ مقدس کلام سنا دیا جسکو وہ سننا نہی چاہتے تھے۔

وفات:☜

حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ حضرت عثمانؓ کے دور خلافت تک زندہ رہیں۔روایات میں آتا ہے کہ جب آپ مرض الموت میں مبتلا ہوۓ تو حضرت عثمانؓ آپکے پاس آۓ اور دریافت کیا کہ آپ کو کس چیز سے شکایت ہے؟؟؟

فرمایا :☜ اپنے گناھوں سے! !!!
پھر عرض کیا کہ آپ کا دل کیاچاہتا ہے؟؟؟
فرمایا اہنے رب کی رحمت! !!!
اسکے بعد خلیفة المسلمین نے فرمایا کہ کیا میں وہ مال آپ کے نام نہ لگا دوں جو آپ نہی لے رہیں ہیں؟؟؟فرمایا مجھے اس مال کی ضرورت نہی! !!!خلیفة المسلمین نے عرض کیا کہ یہ مال آپکی بچیوں کے کام آیئگا؟؟؟ فرمایا کہ کیا آپکو یہ اندیشہ ہے کہ میری بچیاں فقر و فاقہ میں مبتلا ہو جائیگی؟؟؟ میں نے انہیں وصیت کی ہے کہ ہر رات سورہ واقعہ کی تلاوت کیا کرے کیونکہ میں نے نبی کریمﷺ کو یہ فرماتے ہوۓ سنا ہے کہ :☜   “من قرآء واقعة کل لیلة لم تصبه الفاقه”
کہ جس نے ہر رات سورہ واقعہ کی تلاوت کی اسے کبھی فاقہ نہی آیئگا۔رات ہویئ تو یہ محبوب رسول ﷺ اس دار فانی سے مقام جادوانی کی جانب تشریف لے گیۓ۔وقت نزع بھی آپکی زبان اطہر ذکر الہی سے معطر تھی۔