عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ

0

عبد اللہ بن ام مکتومؓ ایک ایسے نابینا شخص جسکی شان میں اللہ رب العزت نے قرآن کریم کی سولہا آیات نازل کی۔

تعارف:☜

یہ وہ عظیم المرتب ہستی ہیں جنکے باعث اللہ رب العزت نبی کریمﷺ کو سات آسمانوں کے بھی اوپر سے متنبہ کر دیا  تھا۔ یہ وہ خوش نصیب صحابی رسول ہیں جنکی شان میں جبریل امین اللہ رب العزت کے حکم سے آسمان سے وحی لیکر نازل ہوۓ۔یہ وہ عظیم المرتب صحابی رسول ہیں جنہیں مؤذنِ رسول ﷺ کا بھی خطاب حاصل ہے۔حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم مکی قریشی صحابئ رسول ہیں۔اور نبی کریمﷺ کے قریبی رشتہ دار بھی ہیں۔کہ آپ حضرت خدیجہ الکبریٰؓ کے چچا ذاد بھائی تھے۔انکے باپ کا نام قیس بن زید تھا۔اور والدہ کانام عاتکہ بن عبد اللہ تھا۔اور انہیں ام مکتوم کے نام سے اس لیے پکارا جاتا تھا۔کہ انکے یہاں حضرت عبد اللہ بن مکتومؓ یعنی نابینا پیداء ہوۓ تھے۔

حضرت عبد اللہ بن ام مکتومؓ نے دل کی آنکھوں سے مکہ معظمہ میں اسلام کی نورانی کرنوں کا مشاہدہ کیا۔اللہ رب العزت نے اپنے فضل و کرم سے اسلام کے لیے انکے سینہ میں انشراح پیدا فرمایا۔آپ ان صحابئ رسولﷺ میں سے ہیں جنہوں نے اسلام قبول کرنے میں سبقت حاصل کی۔تحریکِ اسلامی کے ابتدائی دور میں صحابہ اکرام کو جن مشکلات سے دو چار ہونا پڑا جناب عبد اللہ بن ام مکتومؓ نے بھی ان مشکلات کا خندہ پیشانی سے سامنا کیا۔

نبی کریمﷺ کی خدمت اقدس میں رہتے ہوے قرآن کریم کو حفظ کرنے کی جانب متوجہ ہوۓ۔آپ نے ہر لمحہ کو غنیمت جانتے ہوۓ علم و حکمت کے جواہر پارے اپنے دامن میں سمیٹنے کی بھرہور کوشش کی۔ان دنوں نبی کریمﷺ کی دلی تمنا تھی سردارانِ قریش حلقہ بگوشِ اسلام ہو جاۓ۔ایک روز عتبہ بن ربعہ،عمرو بن ہشام،امیہ بن خلف،ولید بن مغیرہ نبی کریمﷺ کی خدمت اقدس مین موجود تھے۔اور آپﷺ انہیں دعوت اسلام دے رہیں تھے۔تاکہ وہ اسلام قبول کر لیں۔اور میرے جانثار صحابہ انکی اذیت سے بچ جاۓ۔محفل جمی ہوئی تھی۔قریش ہمہ تن پیغام اسلام کو سن رہیں تھے۔جتنے میں عبد اللہ بن ام مکتومؓ وہاں پہنچ گئے۔آتے ہی نبی کریمﷺ سے قرآن کریم کی ایک آیت کا مفہوم دریافت کرنے لگے۔یہ انداز دیکھ کر نبی کریمﷺ کبیدہ خاطر ہوے۔اور انہیں نظر انداز کرتے ہوۓ سردارانِ قریش کی طرف ہی متوجہ رہیں۔آپﷺ کے دل میں یہی غلبہ تھا۔کہ یہ اسلام قبول کرے ؛ اور دینِ اسلام کو غلبہ ہو۔اور دعوتِ اسلامی پروان چڑھے۔

آپؓ کی فضیلت میں قرآن کریم کی آیات کا نزول:☜

جب مجلس ختم ہوئی تو نبی کریمﷺ نے ابھی گھر جانے کا ارادہ ہی کیا تھا۔کہ آپﷺ پر وحی نازل ہوئی ۔

“*عبس و تولی ان جآءہ الاعمی۞ومایدریک لعله یزکی۞ او یذکر فتنفعه الذکری۞اما من استغنی۞ فٵنت له تصدی۞وما علیک الا یزکی۞واما من جآءك یسعی۞ وھو یغشی۞فٵنت عنه تلھی۞ کلا انھا تذکرة۞ فمن شآء ذکرہ۞فی صحف مکرمة۞ مرفوعة مطھرة بایدی سفرة۞ کرام بررة۞

” ترش رو ہوا اور بے رخی برتی اس بات پر کہ وہ نابینا اسکے پاس آگیا۔ تمہیں کیا خبر کہ وہ سدھر جاۓ۔یا نصیحت پر دھیان دے۔اور نصیحت کرنا اسکے لیے نفع ہو جو بے پرواہی برتا ہو۔اسکی طرف تم توجہ کرتے ہو حالانکہ وہ نہ سدھرے تو تم پر اسکی کیا ذمہ داری ہے؟اور جو خود تمہارے پاس دوڑا آتاہے۔ وہ ڈر رہا ہوتا ہے۔اور تم اس سے بے رخی برتے ہو۔ہر گز نہی ؛ یہ تو ایک نصیحت ہے۔جسکا دل چاھے قبول کرے۔یہ ایسے صحیفوں میں درج ہے۔ جو مکرم ہے۔بلند مرتبہ ہے؛ پاکیزہ ہے۔معزز اور نیک کاتبوں کے ہاتھوں میں رہتا ہے”۔👆یہ 16 آیتیں عبد اللہ بن ام مکتومؓ کے بارے میں نازل ہوئی۔جو آج تک پڑھی جاتی ہیں۔اور قیامت تک پڑھی جاتی رہینگی۔اس وحی کے نزول کے بعد نبی کریمﷺ کے دل میں حضرت عبد اللہ بن ام مکتومؓ کی محبت گھر کر گئ۔اور اب آپﷺ ہر مجلس میں انکا خاص خیال رکھتے تھے۔ادھر اھلِ قریش نے نبی کریمﷺ کو اڐیتیں دینا شروع کر دی ۔اور اللہ رب العزت نے نبی کریمﷺ کو ہجرت کا حکم دیا۔اول وہلے میں جن صحابہ اکرامؓ نے ہجرت کی ان میں حضرت عبد اللہ بن ام مکتومؓ بھی تھے۔

مدینہ منورہ میں دعوة تبلیغ:☜

مدینہ منورہ پہنچ کر حضرت عبد اللہ بن ام مکتومؓ اور حضرت مصعب بن عمیرؓ نے لوگوں کو قرآن کریم کی تعلیم دینا شروع کر دی۔اور دینِ اسلام کی دعوت کے انشراح میں ہمہ تن مصروف ہو گئے ۔جب نبی کریمﷺ مدینہ منورہ ہجرت کرکے تشریف لاۓ تو اولاً آپ ﷺ نے حضرت عبد اللہ بن ام مکتومؓ اور حضرت بلال کو مؤذن قرار دیا۔معمول یہ تھا  کہ حضرت بلالؓ اذان کہتے اور حضرت عبد اللہ بن ام مکتومؓ تکبیر کہتے۔اور بعض اوقات اسکے برعکس ہوتا۔لیکن رمضان المبارک میں انکی اور زیادہ شان ہوتی۔نبی کریمﷺ نے اپنی غیر موجودگی آپؓ کو کم از کم دس مرتبہ مدینہ منورہ کا نگراں مقرر کیا۔اور جب آپ ﷺ فتح مکہ کے لیے روانہ ہوۓ ۔تو تب بھی آپﷺنے آپؓ کو ہی نگراں مقرر کیا۔غزوۀ بدر کے بعد اللہ رب العزت نے مجاہدینِ بدر کی شان کے متعلق چند آیات نازل کی ۔ اور گھر بیٹھے رہنے والوں میں انہیں زیادہ فضیلت دی گئ۔تاکہ مجاہدین جنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے۔

نبی کریمﷺ کی خدمت میں عرضی:☜

یہ آیات سن کر حضرت عبد اللہ ام مکتومؓ بہت زیادہ غمگین ہوے۔اور شرکت جہاد کے اعزاز سے محرومی بہت دشوار گزری۔فورًا خدمتِ اقدسﷺمیں حاضر ہو کر عرض کیا یارسول اللہﷺ اگر معذور نہ ہوتا تو جہاد میں ضرور بالضرور شرکت کرتا۔
حضور ﷺ !” ہم تو جہاد کی شرکت سے محروم ہو گئے۔اس افسردگی کے عالم میں انکی زبان سے یہ کلمات نکلے۔”الہی میرے عذر کو پیشِ نظر رکھتے ہوۓ اپنا حکم نازل فرما” اللہ رب العزت نے آپؓ کے دل کی دعا کو فورًا قبول فرمایا”۔

بارگاہِ خداوندی میں عرضی قبول:☜

کاتب وحی حضرت زید بن ثابتؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نبی کریمﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر تھا۔کہ آپﷺ پر غنودگی کی کیفیت طاری ہو گئ۔اور اسی اثنا میں آپﷺ پر وحی نازل ہوئی ۔تھوڑے ہی عرصہ میں یہ کیفیت ختم ہوئی آپﷺ نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ زید لکھو ! میں نے عرض کی حضورﷺ کیا لکھو؟

آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ آیت لکھو! !!!

“لا یستوی القاعدون من المؤمنین والمجاھدون فی سبیل اللہ”۔۔۔۔۔ مؤمنوں میں بیھٹے رہنے والے؛ اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے برابر نہی ہوتے”۔حضرت عبد اللہ بن ام مکتومؓ نے کہا کہ حضورﷺ جو لوگ معذور ہیں انکے لیے کیا حکم ہے؟:☜ابھی گفتگو ہو ہی رہی تھی کہ آپﷺ پر پھر غنودگی طاری ہو گئ۔تھوڑی دیر بعد جب یہ کیفیت ختم ہوئی۔ تو آپﷺ نے مجھ سے ارشاد فرمایا ؛ کہ زید پہلے جو لکھا ہے اسے پڑھو۔ حضرت زید بن ثابتؓ فرماتے ہیں کہ میں نے پڑھا۔

” لا یستوی القاعدون من المؤمنین والمجاھدون فی سبیل اللہ”     آپﷺ نے یہ ارشاد فرمایا کہ اسکے آگے یہ لکھ دو۔۔۔۔۔ ” غیر اولی الضرر” محتاجوں کے علاوہ”

یہ سن کر حضرت عبد اللہ بن ام مکتومؓ کا چہرا خوشی سے تمتما اٹھا۔باالآخر اللہ رب العزت نے انکی دعا قبول کی اور وہ حکم نازل ہوا جسکی وہ دل میں تمنا لیے ہوۓ تھے۔

آپؓ کی شہادت:☜

14 ہجری میں فاروقِ اعظمؓ نے دشمنِ اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیۓ ایک بہت بڑی یلغار کو مرتب کیا۔اور تمام گورنرز کے نام حکم نامہ جاری کیا۔ کہ” تمہارے علاقہ میں جس کسی کے پاس ہتھیار ، سواری یا آلاتِ جہاد میں جو بھی سامان ہو فوراً اپنی نگرانی میں میرے پاس بھیج دے۔فاروقِ اعظمؓ کی زبان پر “لبیك” کہتے ہوۓ۔ چاروں طرف سے لوگ فوج در فوج مدینہ طیبہ میں پہنچے۔ان مجاہدین میں حضرت عبد اللہ بن ام مکتومؓ بھی تھے۔مسلمانوں کے اسی لشکرِ جرار کی کمان عظیم جنرل حضرت سعد بن وقاصؓ کے سپرد تھی۔
جب یہ لشکر قادسیہ پہنچا تو حضرت عبد اللہ بن ام مکتومؓ ذرع پہنے نمودار ہوۓ۔اور جھنڈا تھامنے کی عرضی کی اور کہا کہ آخری دم تک تھامے رہونگا۔تین روز بڑی شدت سے لڑائی جاری رہی۔طرفین کی جانب سے اس قدر تابڑ توڑ حملے ہو رہیں تھے۔ کہ تاریخِ اسلام میں انکی مثال نہی ملتی۔تیسرے روز ایک بڑے حملہ کے بعد جنگ کا نقشہ بدل گیا۔اس میدان میں مسلمانوں کو غلبہ ہوا اور سرزمیںِ شرک میں توحید کا  پرچم قائم ہوا۔لیکن اس فتح کی قیمت سیکڑوں شہداء کی صورت اداء کی گئ۔اور ان عظیم المرتب مجاہدین شہداء میں حضرت عبد اللہ بن ام مکتومؓ بھی شامل تھے۔آپ اس حالت میں شہید ہو کر گرے ۔گویا جھنڈاۓ اسلام آپ کے بازوؤں کی گرفت میں تھا۔

بحوالا   تاریخ الاسلام؛ سیرت صحابہ؛ حیات صحابہؓ

بقلم حسنی تبسم انصاری