تعارف:☜

حضرت عبد الرحمان بن عوفؓ ان دس اصاحبِ رسول ﷺ میں سے ہیں جنہیں دنیا ہی میں جنت کی بشارت دی گئی ہے۔اور آپؓ ان چھ ذیشان اصحاب میں سے ایک ہیں جنہیں فاروق ِاعظمؓ کے بعد خلیفہ مقرر کرنے کے لیے منتخب کیا گیا۔آپؓ ان جید علماء اصحابِ رسولﷺ میں سے ہیں جنہیں آپﷺ کی حیاتِ طیبہ میں فتویٰ جاری کرنے کی اجازت تھی۔

زمانہ جاہلیت میں آپؓ کا نام عبد عمرو تھا۔جب اسلام قبول کیا اور آپؓ دولتِ اسلام سے مشرف ہوئے تو آپﷺ نے اِنکا نام عبد الرحمٰن رکھا۔جو بعد میں عبد الرحمٰن بن عوف کے نام سے مشہور ہوۓ۔اللہ رب العزت ان سے راضی اور وہ اپنے رب سے راضی”۔

اسلام اور حصولِ علم:☜

حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ نے نبی کریمﷺ کے دارِ ارقم میں بیٹھ کر تعلیم و تربیت کا آغاز کرنے سے پہلے اور صدیقِ اکبرؓ کے اسلام قبول کرنے کے دو روز بعد اسلام قبول کیا۔اسلام کی راہ میں وہ تمام مصیبتیں جھیلیں جو اول وہیل میں ایمان لانے والے مسلمانوں نے جھیلیں۔لیکن آپؓ نے صبر و تحمل سے کام لیا۔آپ راہِ ہدایت میں ثابت قدم رہے۔آپؓ نے صفِ اوّل دین کی حفاظت کے لیے مسلمانوں کے ہمراہ ہجرت حبشہ کی۔جب کفار کے ظلم و ستم کی انتہاء نہ رہی تو اللہ رب العزت نے اپنے حبیبﷺ اور انکے جاں نثار صحابہؓ کو ہجرت مدینہ کی اجازت دی۔تو آپؓ ان عالی مقام مہاجر صحابہ اکرامؓ میں سرِفہرست ہیں۔جو سوے مدینہ دیوانہ وار چلے۔

جب نبی کریمﷺ نے مہاجر اور انصار صحابہ اکرامؓ کے درمیان بھائی چارے کی فضاء قائم کی تو حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ اور سعد بن ربیعؓ کے مابین رشتہ اخوت قائم ہوا۔سعد بن ربیعؓ نے اپنے دینی بھائی حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے کہا کہ اے بھائی جان! میں اھلِ مدینہ میں سب سے مالدار ہوں میرے دو باغ ہیں اور دو بیویاں ہیں۔ایک باغ میں آپکو ہبہ کر دیتا ہوں اور ایک بیوی کو طلاق دے دیتا ہوں اسے آپؓ شادی کرکے اپنا گھر بسا لیں۔عبد الرحمٰن بن عوفؓ نے کہا کہ اللہ رب العزت آپکے مال اور اولاد میں برکت عطاء فرماۓ آپ مجھے منڈی کا پتہ بتا دیں۔میں وہاں محنت کرکے کماؤنگا۔ حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ نے مدینہ منورہ کی منڈی میں تجارت کا پیشہ اپنایا اور اس کاروبار میں اللہ رب العزت نے اتنی برکت عطاء فرمائی کہ اچھی خاصی رقم جمع ہو گئی۔

نکاح:  ☜

ایک روز آپؓ نبی کریمﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے۔آپؓ کے کپڑوں سے عطر کی مہک آ رہی تھی۔رسول اقدسﷺنے خوش طبعی سے فرمایا کہ” عبدالرحمٰن بن عوفؓ یہ کیا ہے؟ آپؓ نے بادب عرض کیا یا رسول اللہﷺ میں نے شادی کر لی ہے۔آپﷺ نے فرمایا بیوی کا کیا مہر اداء کیا؟ عرض کیا یا رسول اللہ ایک سونے کی ڈلی۔آپﷺ نے ارشاد فرمایا ولیمہ کیجیے البتہ ایک ہی بکری۔ اللہ رب العزت آپ کے مال اور اولاد میں برکت عطاء فرماۓ۔حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ نے عرض کیا کہ دنیا مجھ پر فریضہ ہے۔ میں اگر پتھر بھی اٹھاتا ہوں تو اسکے نیچے سے سونا چاندی نکلتا ہے۔

بدر و احد میں ثابت قدمی اور شجاعانہ انداز:☜

میدانِ بدر میں حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے اللہ کی راہ میں جہاد کا حق اداء کرتے ہوئے مقابلے میں آنے والے دشمن دین عمیر بن عثمان بن کعب کا سر تن سے جدا کیا۔

غزوۂ احد میں آپؓ اس مرحلے میں بھی ثابت قدم رہے جب عام مجاہدین کے قدم ڈگمگا گئے تھے۔اور یہ اس وقت چٹان کی طرح جمے رہے جس وقت شکست خوردہ بھاگنے پر مجبور ہو گئے تھے۔جب آپؓ اس جہاد سے فارغ ہوئے تو جسم پر بیس سے زائد زخم تھے۔اور ان میں بعض زخم ایسے تھے کہ ان میں پورا ہاتھ داخل ہو سکتا  تھا۔اگر جانی اور مالی جہاد کا مقابلہ کیا جاے تو عبدالرحمٰن بن عوفؓ مالی جہاد میں دو قدم آگے رہے۔

ایک مرتبہ نبی کریمﷺ نے جہاد کے لئے لشکر کو ترتیب دیا اور  ارشاد فرمایا کہ جہاد فنڈ میں چندہ کیا جائے۔ میں دشمن کی سرکوبی کے لئے ایک لشکر روانہ کرنا چاہتا ہوں۔یہ اعلان سنتے ہی حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ جلدی سے اپنے گھر گئے اور اسی وقت واپس لوٹے اور  عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ گھر میں چار ہزار دینار تھے دو ہزار دینار آپﷺ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔اور دو ہزاراھل و عیال کے واسطہ چھوڑ آیا ہوں۔رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا جو تونے اللہ کی راہ میں خرچ کیا ہے۔اللہ رب العزت اسے قبول فرماۓ اور جو اھل و عیال کے لئے چھوڑا ہے اس میں برکت عطاء فرمائے۔

غزوۀ تبوک:☜

نبی کریمﷺ نے غزوۀ تبوک کا ارادہ فرمایا یہ آپؓ کی شرکت کا  آخری غزوہ ہے۔اس میں مجاہدین کے ساتھ ساتھ مال کی بہت ضرورت تھی۔کیونکہ رومی لشکر بہت بڑا تھا اسکے پاس مال و متاع کی ریل پیل تھی۔سفر بہت طویل اور دشوار تھا سواری کے لیے اونٹ اور گھوڑے بھی میسر نہیں تھے۔یہ منظر بھی دیکھنے میں آیا کہ چند اھل ایمان نے نبی کریمﷺ سے جہاد میں شرکت کی اجازت طلب کی۔اور آپﷺ نے انکی درخواست محض اس لئے مسترد کی کہ انکے پاس سواری کا انتظام نہیں تھا۔وہ زارو قطار روتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے لوٹے کاش! ہمارے پاس زادِ راہ ہوتا اور سواری کا انتظام ہوتا تو آج ہمیں جہاد سے محرومی نہ ہوتی۔

غزوۀ تبوک کے لئے روانہ ہونے والے لشکر کو جیش العسرة  “تنگی کا لشکر”  یعنی لشکر تنگ حال کا نام دیا گیا۔اس موقع پر نبی کریمﷺ نے تمام صحابہ کو خرچ کرنے کا حکم دیا۔اس مرتبہ بھی حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ سب سے آگے رہے اور جہاد کے لئے بے دریغ چندہ جمع کرایا اور انکا یہ انداز دیکھ کر حضر عمرؓ نے ارشاد فرمایا کہ لگتا ہے کہ آج عبدالرحمٰن نے گھر والوں کے لیے کچھ باقی نہیں رکھا۔سب  نبی کریمﷺ کے قدموں میں لاکر ڈھیر کر دیا۔نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کیا تم کچھ مال گھر والوں کے لئے بھی چھوڑ آۓ ہو؟عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ جتنا مال آپکی خدمت میں پیش کیا ہے اس سے زیادہ عمدہ مال اھل خانہ کے لئے چھوڑ آیا ہوں۔آپﷺنے ارشاد فرمایا کتنا؟ عرض کیا یا رسول اللہﷺ کیا اللہ  تعالی نے اسکی راہ میں خرچ کرنے پر فراوانی اور برکت اور اجر و ثواب  کا وعدہ نہیں کیا ہے؟

لشکر تبوک کی جانب روانہ ہوا اس سفر میں اللہ رب العزت نے حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ کو وہ شرف عطاء کیا جو اس سے پہلے کسی کو حاصل نہ ہوا۔وہ اس طرح کہ نماز کا وقت ہو گیا تھا۔نبی کریمﷺ تشریف فرما نہ تھے۔ آپؓ نے فرائض امامت اداء کی اور ابھی ایک رکعت مکمل نہ ہوئی تھی کہ نبی کریمﷺ تشریف لائے اور جماعت میں شامل ہو گئے۔آپﷺ نے یہ نماز حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ کی قیادت میں پڑھی۔کتنا بڑا شرف ہے کہ رحمت للعلمین سید المرسلین امام الانبیاءﷺ نے اپنے جاں نثار صحابی کی امامت میں نماز اداء کر رہے ہیں۔

خدمتِ اھلِ بیت:☜

آپﷺ کی وفات کے بعد آپؓ امہات المؤمنینؓ کے گھریلو اخرجات کا خیال رکھتے تھے۔جب سفر پر کہی جانے کا ارادہ ہوتا تو خدمت میں حاضر ہو جاتے۔جب حج کا ارادہ کرتی تو سواری اور زادراہ کا مکمل انتظام کرتے۔بلا شبہ یہ بہت بڑا شرف ہے جو عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو حاصل ہوا۔امہات المؤمنین کو آپؓ پر بہت اعتبار تھا جس پر وہ اللہ کا  بہت شکر اداء کرتے تھے۔

آپﷺ کی دعا کا ثمرہ:☜

ایک مرتبہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کا سات سو اونٹنیوں پر مشتمل  تجارتی قافلہ مدینہ طیبہ پہنچا۔سب اونٹیاں سازو سامان سے لدی ہوئی تھی۔جب یہ قافلہ مدینہ پہنچا تو مدینہ طیبہ کی زمین تھر تھرانے لگی۔اس پر حضرت عائشہؓ نے پوچھا کہ یہ تھر تھراہٹ کیسی ہے۔تو آپؓ کو بتایا گیا کہ عبدالرحمٰن بن عوفؓ کا سات سو اونٹنیوں پر مشتمل تجارتی قافلہ آ رہا ہے۔یہ سن کر حضرت عائشہؓ بہت خوش ہویی اور بارگاہِ الہی میں دعا گو ہویئ اور عرض کی کہ یا الہی تونے انہیں جو کچھ دیا ہے اسمیں برکت عطاء فرما اور آخرت میں اس سے بڑھ کر اجر و ثواب سے نوازنا۔

جنت کی بشارت و وفات :☜

فرمایا کہ میں نے نبی کریمﷺ کو یہ فرماتے ہوۓ سنا کہ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا کہ “میں نے حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ کو جنت میں اچھلتے کودتے دیکھا ہے”۔اس سے پہلے کہ تجارتی قافلہ پڑاؤ ڈالتا کہ ایک شخص نے عبد الرحمٰن بن عوفؓ کو جنت کی بشارت دی”۔ جب آپؓ نے یہ خوشی کی خبر سنی تو خوشی کی کوئی انتہاء نہ رہی۔اور دوڑتے ہوئے اماں عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اماں جان! کیا آپنے رسول اللہﷺ کو میرے لیے جنت کی بشارت کے کلمات آپﷺ کی زبان اطہر خود سنے ہیں”۔فرمایا ہاں! یہ سن کر کچھ نہ پوچھو کہ انکی خوشی کا کیا عالم تھا۔فرمانے لگے اماں جان! گواہ رہنا کہ میں سات سو اوٹنیوں پر مشتمل سازو سامان کا قافلہ اللہ رب العزت کی راہ میں پیش کرتا ہوں۔

وافر مال و متاع کے باعث آپؓ  نہ کسی دنیاوی فتنہ میں مبتلاء ہوۓ اور نہ ہی انکے ظاہری حالات میں کوئی تبدیلی پیداء ہوئی۔ جب لوگ انہیں اپنے خدام اور غلاموں کے درمیان دیکھتے تو ان میں اور غلاموں میں کوئی فرق نہیں پاتے۔

حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ پر ہزار رشک قربان کہ آپؓ کو صادق المصدوق سید المرسلین شفیع الذنبین رسول اللہﷺ نے زندگی ہی میں جنت کی بشارت دی۔آپؓ کے جسد خاکی کو آپﷺ کے ماموں حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے لحد میں اتارا۔آپؓ کی نماز جنازہ حضرت عثمان ڐونورین حضرت عثمان بن عفانؓ نے پڑھایئ۔جنازے کے پیچھے چلتے ہوۓ  امیر المؤمنین حضرت علی بن ابی طالبؓ نے خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوۓ ارشاد فرمایا: اے عبد الرحمٰن تونے کھرے سکے حاصل کیۓ۔اور کھوٹے سکے مسترد کر دیۓ۔اور جنت کے خالص و پاکیزہ ماحول کو پا لیا۔اللہ آپؓ پر رحمت فرماۓ اور آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے”۔