حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ

0

حضرت امام حسنؓ کی ولادت:☜

امام حسن بن ابی طالبؓ 15 رمضان المبارک 3 ہجری کو دور نبوی  میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔آپ نبی کریم ﷺ کے نواسے اور آپؓ کے خلفاء چہارم علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنه اور لخت جگر بنتِ رسول ﷺ سیدة النساء حضرت سیدہ فاطمہ زہراؓ آپکی والدہ تھیں۔ اللہ رب العزت نے آپؓ کو ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہونے کا شرف بخشا جو نزولِ وحی اور فرشتوں کی آمد و رفت گاہ تھا۔ وہ گھرانہ جسکی پاکیزگی اور طہارت کے متعلق قرآن کریم نے ان الفاظ سے گواہی دی ہے۔
القرآن فی السورة الحزاب شمار آیة 33 👇
” انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطہرکم تطہیرا”
بس اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ اھل بیت تم سے ہر برائی کو دور رکھے۔اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جیساکہ پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے”۔

اس طرح خدا وندِ قدوس نے قرآن کریم میں اس گھرانے کی بار بار تحسین و تمجید کی ہے۔ آپ امام حسنؓ سیدة النساء فاطمہؓ کے پہلے فرزند تھے۔ اس لیے آپؓ کی تولد سب کے لیے باعث مسرت ہوئی۔

ولادت کے بعد جب آپؓ کو نبی کریمﷺ کی خدمتِ اقدس میں پیش کیا گیا تو آپﷺ نہایت ہی خوش ہوے۔اور آپؓ کو گود میں لیکر آپؓ کے دایئں کان میں اذان اور بایئں کان میں اقامت کہی۔تحنیک فرمائی اور آپؓ کا نام حسن رکھا۔اسکے بعد نبی کریمﷺ نے آپؓ کے لیے دعا کی۔آپؓ کی ولادت کے ساتویں دن خود نبی کریمﷺ نے اپنے دستِ مبارک سے عقیقہ فرمایا اور بالوں کو منڈوا کر انکے ہم وزن چاندی صدقہ کیا۔

القابات:☜

آپؓ کے بہت سے القاب ہیں۔۔۔۔

  • سبطِ اکبر
  • قائم
  • طیب
  • حجت
  • تقی
  • زکی
  • مجتبٰی
  • امین
  • زاہد
  • لیکن سب سے زیادہ مشہور لقب مجتبی ہے۔

تربیت:☜

پیغمبرِ اسلام اور آپؓ کے والدین آپؓ سے بے انتہاء محبت فرماتے تھے۔بچپن ہی سے آپؓ ان مقدس اور پاکباز ہستیوں کے آغوش میں پروان چڑھے۔اورآپؓ کو ان نفوس قدسیہ کا تقرب نصیب ہوا جو اھل بیت کے بعد اس سر زمیں پر قیامت تک آنے والے افراد سے افضل ترین انسان تھے۔آپؓ کو نبی کریمﷺ کی محبت و شفقت کا وافر حصہ ملا۔

محمد بن زیاد ابو ہریرہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ کھجور پکنے کے موسم میں آپ ﷺ کی خدمتِ اقدس میں  صدقہ کی کھجور لائی جاتی۔ ہر باغ والا صدقہ کی کھجور لاتا اور مسجد نبوی کے صحن میں ڈال دیتا۔اس طرح مسجد نبوی میں کھجور کا ڈھیر لگ جاتا۔ایک مرتبہ سیدنا حسن و حسینؓ ان کھجوروں سے کھیل رہے تھے۔اتنے میں ایک نے ایک کھجور لی اور اپنے منھ میں ڈال لی۔اچانک آپﷺنے دیکھ لیا اور انگلی منھ میں ڈالی اور فورًا نکال لی اور فرمایا کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ صدقہ آلِ محمد کے لئے جائز نہیں ہے۔۔۔۔۔۔
(صحیح بخاری 1485)

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ سے دریافت کیا گیا کہ یارسول اللہﷺ آپکو آپکے گھرانے کے افراد میں کون زیادہ محبوب ہے؟؟؟ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا حسن حسینؓ! چناچہ آپﷺ سیدہ فاطمہؓ سے فرماتے کہ میرے بیٹوں کو میرے پاس بھیج دو۔وہ آتے تو آپﷺ انہیں سینہ سے لگاتے اور لاڈ پیار کرتے”۔(ترمذی شریف 3772)

ایک دن حضرت حسن اپنے نانا جان کی کمر مبارک پر سوار تھے۔ایک شخص نے کہا واہ کیا خوب سواری ہے!!! پیغمبرِ اسلامﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کیا خوب سوار ہے!!!(سنن ترمذی شریف)

حضرت امام حسنؓ کی شخصیت:☜

آپؓ باوقار و جید شخصیت کے حامل تھے۔آپؓ غرباء اور مساکین کا خاص خیال رکھتے تھے۔ہر طرح غرباء و فقراء کی مدد کیا کرتے تھے۔آپؓ نے اپنی زندگی میں دو مرتبہ اپنی ساری دولت مساکین کے درمیان تقسیم کر دی۔ اسکے علاوہ نہایت بہادر بھی تھے اوراپنے والد گرامی حضرت علی بن ابی طالبؓ کے ساتھ جنگ میں بھی شرکت کیا کرتے تھے۔آپ کی بہادری اورشجاعت کے نقوش جنگ جمل اور جنگ صفین میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔اپنے والد کی شہادت کے بعد آپؓ نے صرف 6 مہینہ حکومت کی۔

آپؓ کی عظمت و بزرگی کے لیے یہی کافی ہے کہ نبی کریمﷺ نے کم سنی میں ہی آپکوؓ بہت سے عہد ناموں میں گواہ بنایا تھا۔ واقدی نقل کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے قبیلہ بنو ثقیف کے ساتھ ذمہ والا معاہدہ کیا۔خالد ابن سعید نے عہد نامہ لکھا۔اور امام حسن اور حسین کو گواہ قرار دیا۔
(طبقاتِ کبیر جلد 1 صفحہ 23)

اخلاق:☜

آپؓ کی  مقدس شخصیت میں انسانیت کی اعلی ترین صفات پیوسط  تھی۔ علامہ جلال الدین سیوطیؒ بیان کرتے ہیں کہ: حسن ابن علیؓ اخلاقی امتیازات اور بے پناہ انسانی فضائل کے حامل تھے۔ایک بزرگ، باوقار، بردبار نیز لوگوں کی محبتوں کا مرکز تھے۔ آپؓ خدا کی جانب مخصوص توجہ کے حامل تھے۔اور یہ آثار کبھی وضوء کے وقت آپکے چہرے سے عیاں ہو جاتے،کہ جب آپؓ وضو کرتے تو آپؓ کا چہراء انورسرخ ہو جاتا اور آپؓ کانپنے لگتے۔ جب لوگ آپؓ سے اسکا سبب پوچھتے تو آپ فرماتے کہ ” جو شخص خدا کے سامنے کھڑا ہو اسکے لیے اسکے علاوہ اور کچھ مناسب نہیں” حضرت جعفر صادقؓ فرماتے ہیں کہ آپؓ اپنے زمانے کے عابد و زاہد شخص تھے۔ جب موت اور قیامت کو یاد کرتے تو بے قابو ہو جاتے۔( بحارالانوار جلد نمبر 43)

آپؓ کے فضائل :☜

حضورﷺ کے نواسے سیدنا حضرت حسنؓ سے  ہر مسلمان کو سچی محبت ہونی چاہیئے۔۔۔۔یہ خانوادۀ نبوت کے چشم و چراغ اور حضور ﷺ کے گھر کے مہکتے ہوئے پھول ہیں۔ پیغمبر علیہ السلام کو ان سے سچی محبت تھی۔آپﷺ نے ایک مرتبہ انکے متعلق فرمایا۔۔۔”ھما ریحانتای من الدنیا۔۔۔صحیح بخاری٣٧٥٣ ۔۔۔۔۔معنی ۔۔۔۔ یہ دونوں دنیا میں میرے خوشبودار پھول ہیں۔
ایک حدیث، میں ہے کہ پیغمبر محمد ﷺ علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا کہ ” اللھم احبھما فاحبھما واحب من یحبھما”
معنی۔۔۔۔اے اللہ مجھے ان دونوں سے محبت ہے۔ آپ بھی ان دونوں سے محبت فرمائیے اور جو ان سے محبت رکھے ان سے بھی محبت فرمائیے”۔

حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا مثالی کردار:☜

حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی طرف آپ حضرت سیدنا مولانا محمد مصطفٰی رسول اللہ ﷺ نے اشارہ کرکے بشارت فرمائی تھی کہ” ان ابنی ھذا سید یصلح اللہ علی یدہ به بین فئتین”(البدایة والنھیایة ٤٠٥/٤ سنن الترمزی ٢١٨/٢)  ترجمہ۔۔۔۔ (یعنی یہ میرا بیٹا سردار ہے اور اللہ تعالٰی اسکے ذریعہ دو عظیم جماعتوں کے مابین صلح فرمایئنگے)

چناچہ حضرت  علیؓ کرم اللہ وجہہ کی شھادت کے بعد جب سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کو امیرالمؤمنین بنایا گیا۔، حامیوں کی بہت بڑی تعداد آپ کے ساتھ تھی۔لیکن چھ مہینہ امیرالمؤمنین رہنے کے بعد آپؓ نے حضرت امیر معاویہؓ سے صلح فرما لی اور خود خلافت دست بردار ہو گئے۔اور اس موقعہ پر ایک  خطبہ ارشاد فرمایا ؛ جو انسانی تاریخ کا ایک یادگار خطبہ کہلائے جانے کے لائق ہے۔آپ حضرت امام حسنؓ نے اللہ رب العزت کی حمد وثناء اور نبی کریمﷺ پر درود شریف پڑھنے کے بعد ارشاد فرمایا۔۔۔۔۔
” اے لوگوں سب سے بڑی عقلمندی تقوٰی اور پرہیزگاری ہے۔ اور سب سے بڑی حماقت فسق و فجور ہیں۔یہ بات آپ لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ میرے نانا جان (محمد مصطفٰی ﷺ)کے ذریعہ اللہ رب العزت نے آپ سب کو ھدایت سے نوازا؛ گمراہی اور ضلالت سے نکالا؛ اور ذلت کے بعد عزت سے نوازا اور اھل ایمان کی قلت کو کثرت سے بدل دیا۔

بات یہ ہے کہ معاویہؓ نے میرے اس حق میں نزاع کیا۔جس میں انکا کوئی حق نہ تھا۔(یعنی خلافت کے داوے دار ہوۓ)لیکن میری نظر امت کی اصلاح اور فتنہ کو فرو کرنے پر ہے۔اور آپ لوگوں نے میرے ہاتھ پر اس بات کی بیعت کر رکھی ہے کہ جس سے میں صلح کروں اس سے آپ کی بھی صلح ہے۔اور جس سے میں جنگ کروں اس سے آپکی بھی جنگ ہے۔؛ چناچہ اب میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اب  میں  حضرت معاویہؓ سے صلح کر لوں۔اور میرے اور انکے درمیان جو جنگ ہے اسکو ختم کر دوں۔بس میں نے انکے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے۔ اور میرے خیال میں خوں ریزی سے زیادہ جانوں کی حفاظت ضروری ہے۔اور میرا منشاء صرف آپ حضرات کی بھلائی اور حفاظت ہے۔اور میں نہیں جانتا کہ یہ آپ لوگوں کے لیے آزمائیش اور تھوڑی دیر برتنے کا موقعہ ہے۔
(الصوعق المحرقہ ٢١٠)

اس صلح پر آپکو بہت طعنے سننے پڑے لیکن آپ پورے شرح صدر سے یہی جواب دیتے رہے کہ ” میں مسلمانوں کو ذلیل کرنے والا نہیں ہوں” بلکہ بات یہ کہ مجھے یہ پسند نہیں کہ اپنی حکومت کے لئے مسلمانوں کی خون ریزی کا سبب بنوں۔” بعض روایات میں ہے کہ آپکو “عارالمؤمنین “کا طعنہ دیا گیا۔  تو آپؓ نے جواب دیا کہ ” العار خیر من النار عار”(دنیا کی بے عزتی جہنم سےبہتر ہے) البدایہ والنہایہ ٤٠٧/٤
لہٰذا اگر ہمیں سیدنا حسنؓ سے محبت ہے تو اسکا تقاضہ یہ ہے کہ ہم آپس میں حتی المکان اتفاق اور اتحاد قائم رکھیں۔اور اس کے لیے ہر طرح کی قربانی پیش کرنے کے لیے دریغ نہ کرے۔

میرے دوستوں آج اس امت کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر بول چال بند کر دی جاتی ہیں۔اور لڑایئاں ہوتی ہیں۔اور معمولی اختلاقات کی بنیاد پر فرقہ بندیوں اور گروپ بازیوں کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔جسکی وجہ سے امت روز بروز بے وزن ہوتی جارہی ہیں۔

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ کل امت محمدیہ کو صحابہ اکرام رضی اللہ تعالٰی عنھم اجمعین سے سچی محبت اور انکے طرز پر زندگی بسر کرنے کی توفیق عطاء فرماۓ۔اللہ رب العزت یہ محبت تازندگی قائم رکھے اور ہمارا انہی کے ساتھ حشر فرماۓ۔اور انکے طریقوں پر چلنا ہمارے لیے آسان فرماۓ۔۔۔۔۔آمین۔