حضرت سعد بن وقاص کے حالات و واقعات

0

تعارف:☜

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ وہ نوجوان ہے کہ جب مکہ معظمہ میں نبوت کا سوج جگمگا اٹھا تو  اس وقت یہ نوجوان پورے شباب میں تھے۔ باریک بین اور دوراندیش ہونے کے ساتھ ساتھ والدین کے فرمانبردار بھی تھے۔ خاص طور سے والدہ محترمہ سے بے انتہاء محبت کرتے تھے۔اگر چہ انکی عمر سترہ سال تھی لیکن عقل و فہم اور دانش مندی میں بڑوں کے بالمقابل تھے۔

ان کو ان کھیلوں میں کوئی دلچسہی نہ تھی جو انکے ہم عمر کھیلا کرتے تھے۔بلکہ اپنے اکثر اوقات تیر و تفنگ بنانے اور انکو سنبھالنے میں صرف کرتے تھے۔اس سے جو وقت بچتا اسکو تیر اندازی میں صرف کرتے گویا کہ کسی بڑی مہم کو سر کرنے کی تیاری میں مشغول ہوں۔ان کا دل اپنی قوم کے بد عقائد کو دیکھ کر مضطرب رہا کرتا تھا۔یہ بڑی شدت سے منتظر تھے کہ کوئی طاقتور غیبی ہاتھ نمودار ہو جو اس قوم کو کفر و بدعت کی ظلمت بھری زندگی سے نکال کر صراطِ المستقیم پر گامزن کرے۔

حضرت بن ابی وقاصؓ انہی افکار وخیالات میں غلطاں و پریشان تھے کہ مشیت الٰہی نے انسان کی فلاح و بہود کے لئے کوئی بابرکت ہاتھ کب پردۀ غیب سے ظہور پذیر ہوتا ہے۔دیکھتے ہی دیکھتے وہ ہاتھ نبی کریمﷺ کی صورت میں جگمگانے لگا۔اور آپﷺ کے ارد گرد کلام الہی کی وہ نورانی کرنیں جو کبھی ماند نہ پڑے۔جب نبی کریمﷺ نے وادئ مکہ میں پیغام الہی کو عام کیا تو آپؓ نے فوراً آگے بڑھ کر اس پیغام کو بسرو چشم قبول کیا۔آپؓ نے اول وہلے میں ہی اسلام قبول کیا۔

آپؓ کی خصوصیات:☜

حضرت سعد بن ابیؓ کے اسلام لانے سے نبی کریمﷺ کو بہت مسرت ہوئی۔ ان میں شرافت  ؛دیانت؛  امنت شجاعت کے جواہر کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے۔ان سے یہ صاف ظاہر ہوتا تھا کہ پہلی رات کا چاند عنقریب ماہِ کامل بن جائیگا۔حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی خاندانی وجاہت اسکے ہم عمر نوجوانوں کو اس بات پر آمادہ کر رہی تھی کہ وہ بھی انہیں کا راستہ اختیار کرلیں۔

انہیں سب سے بڑھ کر یہ اعزاز حاصل تھا کہ آپؓ نبی کریمﷺ کے ماموں زاد بھائی تھے۔کیونکہ یہ بنو زہدرا قبیلہ سے تھے۔اور بنو زہرا قبیلہ آپﷺ کی والدہ ماجدہ کا  خاندان ہے۔اس قرابت داری کا بعض اوقات نبی کریمﷺ بھی تذکرہ فرمایا کرتے تھے۔ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ نبی کریمﷺ صحابہ اکرامؓ کی مجلس میں بیٹھے ہوۓ تھے آپﷺ نے حضرت سعد بن ابی وقاص کو آتے ہوئے دیکھا اور خوشی سے فرمایا کہ یہ میرے ماموں آ رہے ہیں”۔ کوئی ان جیسا اپنا ماموں تو دکھلاۓ۔

اسلام قبول کرنے کے بعد آپؓ کو کن تلخیوں کا سامنا کرنا آپؓ کے لیے اسلام قبول کرنا کوئی آسان نہ ہوا۔ آپؓ اسلام لانے کے بعد اس جوان راعنہ کو بڑے سخت تجربات سے گزرنا پڑا۔راہ خد ا میں جو انہوں نے سختیاں جھلیں اذیتیں برداشت کیں، مصائب و مشکلات کی چکی میں پسے۔اس انعام و اکرام میں اللہ رب العزت نے انکے اعزاز میں قرآن مقدس کی آیتیں نازل کیں۔

آپؓ کی سہن کردہ تلخیات :☜

آیئے ہم سعد بن ابی وقاصؓ کی سہی تلخوں کو انہی کی زبانی سنتے ہیں!
حضرت سعد ابی وقاصؓ فرماتے ہیں کہ اسلام قبول کرنے سے تین دن  پہلے میں نے خواب دیکھا کہ میں خوفناک تاریکیوں میں ڈوبتا جا رہا ہوں۔ میں ابھی اس تاریک و پر آشوب سمندر کی لہروں میں ہچکولے کھا رہا ہوں۔ اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ ایک چاند جگمگا رہا ہے اور میں اسکی طرف لپکا ہوں۔میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ مجھ سے پہلے چند لوگ مہتاب کے قریب پہنچ چکے ہیں۔میں نے غور سے دیکھا تو مجھے زید بن حارثہؓ علی بن ابی طالبؓ اور ابو بکر صدیقؓ دکھائی دیے میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کب یہاں تشریف لائے۔ انہوں نے کہا بس ابھی آئے ہیں۔جب صبح نمودار ہوئی تو مجھے یہ بات پتہ چلی کہ نبی کریمﷺ پسِ پردہ دین کی دعوت دے رہے ہیں۔میں بھانپ گیا کہ اللہ رب العزت میرے ساتھ خیر وبرکت کا ارادہ رکھتا ہے۔”اللہ سبحانه تعالی چاہتا ہے کہ مجھے کفر و ضلالت کی گمراہیوں سے نکال کر رشد و ھدایت کی روشنیوں تک پہنچاۓ۔

میں اسی وقت بلا تاخیر آپﷺ کی تلاش میں نکلا،محلہ جیاد کی ایک گھاٹی میں آپﷺ کی زیارت ہوئی۔آپﷺ عصر کی نماز سے فارغ ہو چکے تھے۔میں نے اسلام لانے کی تمنا کی۔آپﷺ کمال محبت و شفقت سے مجھے مشرف با اسلام کیا۔اسی وقت میرے سامنے وہ تین عالی مقام حضرات آئے۔جنہیں میں نے خواب میں دیکھا تھا۔بعد ازاں حضرت سعد بن وقاصؓ اپنے اسلام قبول کرنے کی داستان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جونہی میرے اسلام قبول کرنے کی خبر میری ماں نے سنی تو آگ بگولا ہو گئی۔مجھے اپنی ماں سے والہانہ عقیدت و محبت تھی۔میں انکی خدمت کو اپنے لیے بہت بڑا اعزاز سمجھتا تھا۔ انہوں نے خفاء ہو کر مجھ سے پوچھا کہ “اے سعد یہ کیسا دین ہے کہ جس نے تمہیں اپنے ماں باپ کے دین سے منحرف کر دیا”۔

“بخدا ! یا تو تم یہ دین ترک کر دو یا میں مرتے دم تک کچھ نہ کھاؤنگی” اور نہ ہی پانی کا گھونٹ حلق سے نیچے اتارونگی یہاں تک کہ میری موت واقع ہو جائیگی”۔ اور غم سے تیر  کلیجہ پھٹ جائیگا ندامت اور شرمندگی تیرا مقدر بن جائیگی، زندگی بھر لوگ تجھے طعنہ دیتے رہینگے۔میں نےکہا”امی جان خدا کے لیے ایسا  نہ کرنا مجھے آپ سے انتہائی عقیدت ہے۔لیکن مجھے یہ دین آپ سے بھی زیادہ پیارا ہے میں یہ دین ہر گز نہیں چھوڑونگا۔لیکن وہ اپنی اس دھمکی پر قائم رہیں۔ کھانا پینا چھوڑ دیا۔کئی روز بغیر کھاۓ پیے گزار دیے جس سے انکا جسم لاغر ہو گیا۔ہڈیاں کمزور ہو گئیں۔تھوڑی تھوڑی دیر بعد انکے پاس آتا اور التجا کرتا کہ کچھ کھا لو لیکن وہ اور شدت سے انکار کر دیتیں۔اور کہتیں مرتے دم تک کچھ نہیں کھاؤنگی نہ پیونگی اگر تجھے میری زندگی عزیز ہے تو تو یہ دین چھوڑ دے۔

جب میں نے یہ حالت دیکھی تو واشکاف انداز میں کہہ دیا کہ :۔ کہ “امی جان مجھے آپ سے محبت ہے اور آپ سے کہیں زیادہ مجھے اللہ اور اسکے رسول سے محبت ہے۔اللہ کی قسم!  اگر تیرے جسم میں ہزار جان بھی ہو اور وہ ایک کر کے فقس عنصری میں پرواز کر جائے تب بھی میں یہ دین نہیں چھوڑونگا۔جب ماں نے میرا یہ پختہ عزم دیکھا تو اسے یقین آ گیا کہ میں اس نازک صورتِ حال میں بھی اپنا دین نہیں چھوڑونگا۔تو اس نے بادلِ نخواستہ کھانے کے لیے چند لقمے لیے اور پانی پیا۔ اور ادھر اللہ رب العزت نے یہ آیت نازل کر دی :☜ “وان جاھداك علی ان تشرك بی ما لیس لك به علم فلا تطعھما و صاحبھما فی الدنیا معروفا”

معنی:☜ اور اگر وہ دونوں دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسے کو شریک کرے جسے تو نہیں جانتا تو انکی بات ہر گز نہ ماننا دنیا میں انکے ساتھ نیک برتاؤ کرتا رہ”۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے اسلام قبول کرنے سے اسلام کو بہت تقویت حاصل ہوئی۔

غزوۀ بدر:☜

غزوۀ بدر میں حضرت سعدؓ اور انکے بھائی حضرت عمیرؓ نے جو کارہائے نمایا سر انجام دیئے۔وہ ناقابل فراموش ہیں۔حضرت عمیرؓ ابھی بچے تھے۔ سن بلوغ کو بھی نہ پہنچے تھے۔جب لشکر اسلام کا معایئنہ کیا تو عمیرؓ چھپ گئے۔ انہیں اندیشہ تھا کہ اگر آپﷺ کی نگاہ پڑی تو چھوٹا ہونے کی وجہ سے واپس لوٹا دیا جائیگا۔لیکن پھر بھی نبی کریمﷺ نے انکو واپس کر دیا۔یہ فیصلہ سن کر  حضرت عمیرؓ زارو قطار رونے لگے۔انکی یہ حالت دیکھ کر آپﷺ کو ترس آ گیا۔نبی کریمﷺ نے انہیں جہاد میں شریک ہونے کی اجازت دے دی۔اجازت ملنے پر انکے بھائی حضرت سعد شاداں فرحاں انکی پاس لوٹ آۓ۔ہاتھ سے انکے کندھے پر تلوار لٹکائی۔اور دونوں بھائی جذبہ جہاد سے سرشار ہو کر میدان کارِزار میں اترے۔جب معرکہ آرائی ختم ہوئی تو حضرت سعدؓ اپنے چھوٹے بھایئ عمیرؓ کو سر زمینِ بدر میں دفن کرکے اکیلے مدینہ طیبہ واپس لوٹے۔چونکہ عمیرؓ نے میدانِ بدر میں جامِ شہادت نوش فرما لیا تھا۔اوراللہ تعالی کی جوارِ رحمت میں پہنچ چکے تھے۔

غزوۀ احد:☜

غزوۀ احد میں درے کی جانب سے دشمن نے اچانک زور دار حملہ کیا۔تو مسلمانوں کے قدم لڑکھڑا گئے۔اور رسول اللہﷺ کے پاس دس صحابہ بھی نہ رہ سکے۔اس موقعہ پر حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے اس جرٵت اور مہارت سے تیر اندازی کی کہ دشمنوں میں کسی کو ایک تیر لگتا وہ وہی ڈھیر ہو جاتا۔اس میدان میں انکا ایک بھی وار خفاء نہ گیا۔ اور جب نبی کریمﷺ نے یہ تیر اندازی دیکھی تو حوصلہ دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:☜سعد”تیر اندازی جاری رکھو میرے والدین تم پر قربان”۔ سعد تیر اندازی جاری رکھو” !!!

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ ساری زندگی نبی کریمﷺ کی زبان سے نکلے اس جملہ پر فخر کرتے رہے۔اکثر فرمایا کرتے تھے کہ صحابہ اکرامؓ میں مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ نبی کریمﷺ نے میرے لئے فرمایا کہ “فداك ابی و امی” ۔

آپؓ کی عظمت:☜

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اپنی عظمت کے عروج پر اس وقت پہنچے جب سیدنا عمر بن الخطابؓ نے ایران پر ایسی چڑھائی کا ارادہ کیا۔جس سے ایرانیوں کی سلطنت کا خاتمہ ہو۔انکے تخت مندہم ہو جاۓ۔سر زمین ایران سے بت پرستی کی جڑیں اکھاڑ پھینکی جایئں۔اس لیے تمام سرکاری مائندوں کو خطوط ارسال کیے اور اسمیں یہ لکھا کہ جسکے پاس ہتھیار گھوڑا اور  جنگی سامان ہو اسے فورًا میری جانب روانہ کر دیا۔آپ امیرالمؤمنین کے خطوط ملنے پر ہر جانب سے جنگی قافلہ آپکی جانب روانہ ہوا۔جب تمام وفود مدینہ طیبہ پہنچے تو سیدنا حضرت عمر فاروقؓ نے ارباب حل و عقد سے مشورہ کیا کہ لشکر اسلام کا سالار کسے بنایا جاۓ۔سب نے یک زبان پر کہا کہ شیرِ خدا حضرت بن ابی وقاصؓ کو۔

سیدنا عمر فاروقؓ کی نصیحت:☜

سیدنا عمر فاروقؓ نے انہیں بلایا اور لشکر اسلام کا جھنڈا انہیں سونپ دیا۔جب یہ لشکر جرار مدینہ طیبہ سے روانہ ہونے لگا۔تو سیدنا عمر فاروقؓ نے لشکر اسلام کو الودع کہنے کے لئے اٹھے۔اور سپہ سالار کو وصیت کرتے ہوۓ ارشاد فرمایا : “کہ اے سعد کبھی اس غرور میں نہ آجانا کہ میں رسول اللہﷺ کا جاں نثار صحابی اور انکا ماموں ہوں۔اور میری یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لے کہ اللہ تعالی برائی کو کبھی برائی سے نہیں ختم کرتا بلکہ برائی کو ہمیشہ نیکی سے مٹاتا ہے”۔

“اے سعد یاد رکھنا اللہ رب العزت کے یہاں خاندانی برتری کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔وہاں تو صرف اطاعت سے ہی برتری حاصل ہے۔دنیاوی اعتبار سے معزز اور کمتر لوگ اللہ تعالی کے یہاں بالکل برابر ہیں۔”اللہ ان سب کا رب ہے۔اور وہ سبھی اسی کے بندے ہیں”۔وہاں تو فضیلت تقوی کی وجہ سے ملتی ہے۔اطاعت اور فرمانبرداری سے بلند مقام حاصل ہوتا ہے۔ہمیشہ نگاہ رکھو جسے نبی کریمﷺ نے سر انجام دیا۔ اس مشن کو آگے بڑھانے ہمارا اجتماعی فرض ہے۔جسے رسولﷺ نے جاری کیا۔

سیدنا فاروق اعظمؓ نے کی اس نصیحت کو سن کر لشکر میدان جہاد کی جانب روانہ ہوا۔اس لشکر میں 99 بدری صحابہ اکرامؓ اور 319 بیعت رضوان میں شریک ہونے والے اور 300 فتح مکہ میں شرکت کرنے والے اور تقریباً 700 صحابہ اکرامؓ کے نوجوان بیٹے شامل تھے۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے کمانڈر انچیف کی حیثیت سے قادسیہ کے مقام پر لشکر کو پڑاؤ ڈالنے کا حکم دیا۔وہیں لشکر کو ترتیب دیا۔اور دشمن اسلام سے زور دار مقابلہ کیا۔لڑایئ کے آخری دن مسلمانوں نے عزم کیا۔کہ آج فیصلہ کن معرکہ آرایئ ہو ۔ انہونے دشمنوں کو چاروں طرف سے گھرے میں لےلیا۔مسلمان نعرۀ تکبیر کہتے ہوۓ دشمن کی صفوں میں جا گھسے؛چشم زدن میں ایرانی لشکر کے سپہ سالار رستم کا سر قلم کر دیا۔ایرانیوں نے جب اپنے سپہ سالار کا سر مسلمانوں کے نیزوں کی  اینوں  پر دیکھا تو حواس باختہ ہو گئے۔نوبت بایں چار سید کہ اسلامی لشکر سے ایک مجاہد ایرانی فوجی کے پاس آتا اور اسی کا ہتھیار چھین کر اسی کا سر قلم کر دیتا۔اس جنگ میں مال غنیمت وافر مقدار میں مسلمانوں کے ہاتھ لگا۔اور تیس ہزار ایرانی فوج تہہ و تیغ کر دیئے گئے۔

وفات:☜

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے لمبی عمر پائی۔ اللہ رب العزت نے وافر مقدار میں مال و دولت سے نوازا۔لیکن جب موت کا وقت قریب آیا؛ تو اپنا ایک بوسیدہ جبہ منگایا۔اور یہ وصیت کی کہ مجھے اس جبہ کا کفن پہنانا۔کیونکہ میں میدان بدر  میں یہ جبہ پہن کر گیا تھا۔میری دلی خواہش ہے کہ میں اس جبہ میں اللہ سے ملاقات کروں۔