حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ

0

تعارف:☜

حضرت سعد بن عامرؓ ان ہزاروں میں ایک جوان رعنا تھے۔جو سرداران قریش کی دعوت پر مکہ معظمہ کے بالائی جانب مقام تنعیم کی طرف محض اس لیے چل پڑے تاکہ حضورﷺ کے ایک صحابی حضرت خبیب بن عدیؓ کی شہادت کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں۔جنہیں قریش نے دھوکہ سے پکڑ لیا تھا۔اسکے شباب فراواں اور ابھرتی ہوئی جوانی نے اسے اس قابل بنا دیا تھا ۔کہ وہ لوگوں کے کندھے پھلانگتا ہوا۔ابو سفیان بن حرب اور صفوان بن امیہ جیسے سردار قریش کے برابر کھڑا ہو سکیں۔وہاں ان دونوں کے سواء اور بھی شہ سواران عرب موجود تھے۔ جو اگلی صفوں میں بیٹھے ہوۓ تھے۔

اسے اس طرح یہ موقعہ ملا کہ قریش کے اس اسیر کو بچشم خود پا بحوالا دیکھ سکیں۔اس نے اس کامنظر مشاہدہ کیا کہ عورتیں، بچے، جوان سب بے دریغ اسے موت کی جانب دھکیل رہیں ہیں۔انکا مقصد یہ تھا کہ وہ اس صحابیؓ رسول ﷺ کو شہید کرکے نبی کریمﷺ سے انتقام لے۔اور یوں بدر کے مقتولین بدر کا بدلہ چکائے۔

جب یہ ہجوم اپنے اس قیدی کو لیکر اس مقام پر پہنچا جو پہلے سے اسکی شہادت کے لیے متعین تھا۔تو اس مرحلے پر طویل القامت نوجوان سعید بن عامرؓ حضرت خبیبؓ کی جانب نظر دوڑائی۔سرداران قریش اسے کشاء کشاء تختہ دار کی جانب لے جا رہیں تھے۔اس نے عورتوں اور بچوں کے چیخ پکار کے شور میں ایک پر سکون آواز سنی حضرت خبیبؓ فرماتے ہیں۔۔۔۔اگر تمہارے لیے ممکن ہو تو مجھے مرنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھنے کی مہلت دو!پھر سعید بن عامرؓ نے دیکھا کہ حضرت خبیبؓ کعبہ رخ کھڑے ہو کر دو رکعت نماز پڑھ رہیں ہیں۔یہ دو رکعتیں کیسی تھیں۔اتنی حسین اتنی مکمل کہ کیا کہنے!!!

اسکے بعد اس نے دیکھا کہ قوم کے سرداروں کی جانب رخ کرکے یہ کہہ رہیں ہیں کہ بخدا اگر مجھے اس بد گمانی کا اندیشہ نہ ہوتا کہ تم کہیں یہ نہ سمجھ بیٹھو کہ میں نے نماز کو موت کے ڈر سے طوالت دے دی ۔ تو میں نماز میں اور زیادہ وقت صرف کرتا۔پھر اس نے صنادید قریش کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔” کہ وہ حضرت خبیب کا زندہ حالت میں مثلہ کر رہیں ہیں۔” یعنی یہ لوگ انکے اعضاء کو یکے بعد دیگرے کاٹ رہیں تھے۔اور کہہ رہیں ہیں کہ کیا تمہیں یہ پسند نہی کہ تمہاری جگہ محمدﷺ ہوں۔اور تم اس تکلیف سے بچ جاؤ۔انکا اس حالت میں خون کے دھارے جسم سے ہھوٹ رہیں تھے۔جواب یہ تھا کہ خدا کی قسم! مجھے یہ قطعا پسند نہی کہ میں اپنے اھل و عیال میں امن و چین سے رہوں اور حضرت محمدﷺ کو ایک کانٹا بھی چبھے۔پھر عامر بن سعید نے دیکھا کہ لوگ فضاء میں ہاتھ بلند کر کر کے کہہ رہیں ہیں کہ اسے مار ڈالو۔۔۔۔اسے مار ڈالو!!!

اسکے بعد انہوں نے دیکھا کہ حضرت خبیب تختہ دار پر آسمان کی جانب نظریں کرکے اپنے رب سے التجاء کر رہیں ہیں۔الٰہی ان سب ظالموں کو شمار کر لے اور انہیں مزا چکھا اور ان میں سے کسی کو معاف نہ کر۔یہ کہہ کر انہوں نے اپنی زندگی کی آخری سانس لی۔یہ وہ لمحہ تھا کہ جب انکا جسم تلواروں اور نیزوں سے چور تھا۔اور اتنے زخم کھا چکے تھے۔کہ جنکا شمار ہی نہی کیا جا سکتا۔قریش بلاآخر واپس لوٹ آۓ۔اور اسکے بعد پیش آنے والے بڑے بڑے سنگین معرکوں کے نرغے حضرت خبیبؓ اور انکے واقعات شہادت کو یکسر بھلا بیٹھے۔

لیکن وہ نوجوان سعید بن عامرؓ کے پردۀ دل سے ایک لحظہ کے لیے بھی حضرت خبیبؓ کا منظر محو نہ ہوا۔چناچہ یہ جب بھی سوتے خواب میں یہ منظر دکھائی دیتا۔ اور بیدار ہوتے ہی چشم خیال میں یوں دکھائی دیتا   کہ حضرت خبیبؓ تختہ دار پر پورے اطمینان سے دو رکعت نماز پڑھ رہیں ہیں۔یہی نہی بلکہ انکی پردرد آواز انکے کانوں میں گونج رہی ہے۔ اور وہ قریش کے خلاف بددعا میں مصروف ہیں۔اور اس خیال سے انکا کلیجہ دہل جاتا ہے۔کہ کہیں آسمان کا کڑکا انکو آنہ لے یا آسمان سے پتھر گر کر انکو تباہ نہ کر دے۔

حضرت خبیبؓ نے شہادت قبول کرکے حضرت سعید بن عامرؓ کو وہ سب سکھا دیا جسکا انہیں پہلے قطعی علم نہ تھا۔انہیں سکھایا کہ حقیقی زندگی عقیدہ اور عقیدے کی راہ میں تادمِ آخر  مسلسل جہاد کرنے کا نام ہے۔دوسری بات جو انہوں نے اس واقعہ سے سیکھی تھی۔ کہ پختہ محکم ایمان ایسے عجیب و غریب کردار کو جنم دے سکتا ہے۔جو عام حالت میں ظہور پذیر نہ ہو سکے۔علاوہ ازیں انہیں اس بات کا بھی علم ہو گیا کہ وہ شخص جس سے اسکے رفقاء بے حد محبت کرتے ہیں۔اس پر جان نچھاور کر دیں۔بلا شبہ اللہ رب العزت حضرت سعید بن عامرؓ کا سینہ اسلام کی جانب کے لیے دیا۔چناچہ انہوں نے یہ اعلان کر دیا کہ میں سر تسلیم خم کرتا ہوں۔میں آج سے مسلمان ہوں۔

ہجرت:☜

حضرت سعید بن عامرؓ نے مکہ کی سکونت ترک کرکے مدینہ منورہ کی جانب ہجرت کی اور رسولﷺ کی رفاقت اور صحبت میں رہنے لگے۔خیبر اسکے بعد ہونے والے غزوات میں شرکت کا شرف حاصل کیا۔جب نبی کریمﷺ نے اپنے رب کے جوار رحمت کوچ کیا۔اس وقت آپﷺ حضرت سعید بن عامر سے انکی خدمات کی وجہ سے خوش تھے۔اس وقت آپﷺ حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ، کے ہاتھوں میں حضرت سعید بن عامرؓ برہنہ شمشیر بن کر رہے۔اور ایسی زندگی بسر کی جو مسلمانوں کے کردار کا نادر نمونہ ثابت ہوئی ۔جنہوں نے دنیا کو بیچ کر آخرت کا سودا کیا۔اور اللہ رب العزت کی رضا جویؠ کو اپنی خواہشات کے مقابلہ میں راجح اور مقدم جانا۔

صداقت اور تقوٰی :☜

آپﷺ کے یہ دونوں خلفاء حضرت سعید بن عامرؓ کی صداقت اور تقوٰی کو خوب جانتے تھے۔ لھذا انکی نصیحتوں کو دھیان سے سنتے اور انکی ہر بات پر کان دھرتے۔جناب سعید بن عامرؓ حضرت عمرؓ، کے پاس اس وقت تشریف لاۓ جبکہ وہ مسند خلافت پر فروکش ہی ہوۓ تھے۔
آپ نے فرمایا کہ عمر میں تمہیں اس بات کی وصیت کرتا ہوں کہ لوگوں کے معاملہ سے اللہ سے ڈرتے رہنا اور اللہ کے معاملہ میں لوگوں سے کبھی نہ ڈرنا اور یہ تمہارے قول وفعل میں تضاد کبھی نہ ہونا چاہیے۔اس لیے کہ انسان کی بہترین گفتار وہی ہوتی ہے جس کی تصدیق اسکا کردار کرے۔

اے عمر رضی اللہ عنہ :☜

اللہ رب العزت نے جن لوگوں کا تمہیں نگراں بنایا ہے۔انکے معاملات کی طرف خوصوصی دھیان دیتے رہنا۔انکے لیے وہی پسند کرنا جو خود تمہیں اپنے اور اپنی اولاد کے لیے پسند ہو۔اور انکے لیے ہر اس چیز کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھنا ۔جو تمہیں خود اپنی ذات اور اپنے لیے ناپسند  ہو۔شدائد کا سامنا کرنے سے نہ گھبرانا ۔اوت حق پر مضبوطی سے جمے رہنا۔اور حق کی راہ میں کسی  بھی ملامت کرنے والے کی ملامت کو خطر میں نہ لانا۔
حضرت عمرؓ نے فرمایا:☜

کس میں ہمت ہے کہ ان ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہو سکے۔حضرت سعیدؓ نے فرمایا کہ آپ اسکے اہل ہیں۔اور آپ ان لوگوں میں سے ہیں جن پر اللہ رب العزت نے امت محمدیہ کا فریضہ سونپا ہے۔

دنیا سے بے رغبتی:☜

اس مرحلہ ہر حضرت عمرؓ جناب سعید بن عامرؓ کو اپنی نصرت و تائید کے لیے دعوت دی۔اور فرمایا۔۔۔اے سعید ہم تمہیں علاقہ حمص کا گورنر مقرر کرتے ہیں۔انہوں نے کہا ” اے عمرؓ اللہ کا واسطہ ہے مجھے اس آزمائیش میں نہ ڈالیے۔

حضرے عمرؓ نے اس پر خفا ہو کر فرمایا۔ کہ بڑے افسوس کی بات ہے تم نے خلافت کا بار تنہا میری گردن پر ڈال دیا۔اور خود اس سے الگ تھلگ ہونے کی کوشش کر رہے ہو۔خدا کی قسم میں چھوڑنے والا نہی ہوں!اسکے بعد حضرت عمر نے انکو صوبہ حمص کا گورنر مقرر کیا!!!
اور فرمایا کہ ہم تمہارے لیے کچھ معاوضہ مقرر کر دیں؟؟اس پر حضرت سعید نے کہا کہ امیرالمؤمنین میں معاوضہ لے کر کیا کرونگا بیت المال سے جو ملتا ہے وہ میری ضرورت سے زیادہ ہے! یہ کہا اور حمص کی جانب روانہ ہو گئے ۔کچھ عرصہ بعد اہالیان حمص سے قابل اعتماد لوگوں پر مشتمل ایک وفد حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔آپ نے حکم دیا کہ تم مجھے ان لوگوں کے نام لکھ کر دو جو تم میں نادار اور مفلس ہیں؟ وفد نے آپکی خدمت میں ایک دستاویز پیش کیا۔آپ کیا دیکھتے ہیں کہ اس فہرست میں حضرت سعید بن عامرؓ کا نام بھی درج ہے۔

آپ نے دریافت کیا کون سعید بن عامر؟؟؟
انہوں نے جواب دیا ہمارے گورنر!!!
فرمایا آپ کے گورنر مفلس ہیں؟؟؟
عرض کیا کہ جی ہاں خدا کی قسم کئ کئ دن انکے چولہے میں آگ نہی جلتی۔یہ سننا تھا کہ حضرے عمرؓ اتنا روۓ کہ انکی داڑھی مبارک تر ہوگئ۔ آپ اٹھے اور ہزار دینار لیے انکو تھیلی میں ڈالا اور فرمایا کہ ۔۔۔ اس سے میرا سلام کہنا اور کہنا کہ امیرالمؤمنین نے یہ تھیلی تمیارے لیے بھیجی ہے۔تاکہ تم اس سے اپنی ضروریات کو پورا کر سکو۔یہ وفد حضرت سعید بن عامرؓ کے یہاں تھیلی لیکر پہنچا آپ نے دیکھا کہ اس تھیلی میں تو دینار ہیں۔تھیلی کو اپنے سے دور ہٹا کر یہ کہنے لگے کہ۔۔۔ “انا للہ وانا الیہ راجعون”
گویا کوئی ناگوار واقعہ پیش آ گیا ہو!!!!
یہ کیفیت دیکھ کر آپکی بیوی گھبرائی اور کہنے لگی کہ میرے سردار کیا سانحہ ہوا ہے؟؟؟
کیا امیرالمؤمنین وفات پا گئے؟؟؟
آپ نے فرمایا نہی یہ بات اس سے کہیں زیادہ اہم ہے۔اس نے پوچھا: کیا کسی معرکہ جہاد میں مسلمانوں کو کوئی صدمہ پہنچا ہے؟؟؟
آپ نے فرمایا نہی ۔۔۔۔ اس سے بھی بڑی بات ہے۔
اس نے عرض کیا بھلا اس سے بڑی بات کیا ہو سکتی ہے؟؟؟
آپ نے فرمایا۔۔۔۔
میرے گھر دنیا در آئی تاکہ میری آخرت بگاڑ دے۔۔۔میرے گھر فتنہ ابھر آیا۔
اس نے فرمایا کیوں نہ آپ اس فتنہ سے گلو خلاصی کر لیں۔۔۔۔اسے دیناروں کے متعلق کچھ عمل نہ تھا۔انہوں نے فرمایا کہ کیا اس سلسلہ میں تم میری مدد کروگی؟؟؟
عرض کیا جی ہاں ضرور۔۔۔۔ کیوں نہی!!!
آپ نے دینار متعدد تھیلوں میں بند کیے اور غریب مسلمانوں میں تقسیم کر دیئے۔اللہ تعالی حضرت سعید بن عامر کو سند رضا سے نوازا۔آپ ان لوگوں میں سے تھے جو دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے تھے۔ چاہے خود گھاٹے میں رہیں۔

بحوالا حیات صحابہ اور حیات صحابہ کے درخشاں پہلوں
بقلم حسنی تبسم انصاری