حضرت سودہؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

0

نام و نسب:☜

نام سودہؓ تھا۔ قبیلہ عامر بن لؤی سے تھیں۔جو قریش کا  ایک نامور قبیلہ تھا۔سلسلہ نسب یہ ہے کہ سودہ بنت زمعہ بن قیس بن عبد شمس بن عبدود بن نضر بن مالک بن حل بن عامر بن لؤی ۔ ماں کا نام شموس تھا۔ جو مدینہ کے خاندان بنو نجار سے تھیں۔انکا پورا نسب یہ ہے ۔شموس بنت قیس بن زید بن عمرو بن لبید بن فراش بن عامر بن غنم بن عدی بن نجار۔

نکاح:☜

سکران بن عمرو سے جو آنکے والد کے ابن عم تھے۔

قبول اسلام:☜

ابتدائے نبوت میں مشرف با اسلام ہویئ۔انکے ساتھ انکے شوہر بھی اسلام لاۓ۔اس بناء پر انکو قدیم السلام ہونے کا شرف حاصل ہے۔ہجرت حبشہ اولا کے وقت حضرت سودہ اور انکے شوہر مکہ میں مقیم تھے۔لیکن جب مشرکین کے ظلم ستم کی انتہاء نہ رہیں اور مہاجرین کی ایک بڑی جماعت ہجرت کے لیۓ آمادہ ہویئ اسمیں حضرت سودہ اور انکے شوہر بھی شامل تھے۔کہیں برس حبشہ میں رہ کر مکہ واپس آیئں۔اور سکران نے کچھ دن بعد وفات پایئ۔

حضرت سودہ حرم نبوت بنتی ہیں:☜

ازواج مطہرات میں یہ فضیلت صرف حضرت سودہ کو حاصل ہے کہ حضرت خدیجہ کے بعد وہی آپﷺ کے نکاح میں آیئں۔حضرت خدیجہ کے انتقال کے بعد آپﷺ بہت پریشان اور غم زدہ تھے۔آپﷺ کی یہ حالت دیکھ کر خولا بنت حکیم نے عرض کیا کہ آپﷺ ایک مونس و رفیق کی ضرورت ہے۔آپﷺ نے فرمایا کہ گھر بار اور بال بچوں کیا انتظام سب خدیجہ کے متعلق تھا۔آپﷺ کے ایماء وہ حضرت سودہ کے والد کے پاس گئ۔ اور زمانہ جاہلیت کے مطابق سلام کیا۔(انعم صباحا) پھر نکاح کا پیغام سنایا ۔انہوں نے کہا کہ محمد شریف کفو ہیں۔لیکن سودہ سے بھی تو دریافت کر لوں۔چناچہ سب مراتب طے ہو گیۓ اور نبی کریمﷺ خود تشریف لے گیۓ۔اور سودہؓ کے والد نے نکاح پڑھایا اور 400 درہم مہر مقرر ہوا۔نکاح کے بعد عبد اللہ بن زمعہ جو اس وقت کافر تھے آۓانکو جب یہ حال معلوم ہوا تو سر پر خاک ڈال لی اور کہا کہ یہ کیا غضب کیا؟چناچہ اسلام لانے کے بعد انہیں اپنی اس حماقت و نادانی پر ہمیشہ پشیمانی ہوتی تھی۔

حضرت سودہ کا نکاح رمضان 10 نبوی میں ہوا۔چونکہ انکے اور حضرت عائشہؓ کے نکاح کا زمانہ قریب قریب ہے اس لیۓ مؤرخین میں اختلاف ہیں کہ کسکو تقدم حاصل ہے؟ ابن اسحاق کی رواہت ہے کہ حضرت سودہؓ کو تقدم حاصل ہے۔

عام حالات:☜

نبوت کے تیرہوے سال جب آپﷺ نے مدینہ کی جانب ہجرت کی۔تو حضرت زید بن حارثہؓ کو مکہ بھیجا۔کہ حضرت سودہؓ وغجرہ کو لے آیئں۔ چناچہ حضرت سودہؓ اور فاطمہؓ حضرت زید کے ہمراہ مدینہ تشریف لائی۔10 ہجری نبی کریمﷺ نے حج کیا تو حضرت سودہؓ بھی ساتھ تھیں۔چونکہ وہ بلند و بالا فربہ اندام تھیں۔اس لیۓ تیزی سے ساتھ چل پھر سکتیں تھیں۔اس لیۓ نبئ کریمﷺ نے اجازت دی کہ اور لوگوں کے مزدلفہ روانہ ہونے سے قبل انکو چلے جانا چاہیئے۔۔۔۔کیونکہ بھیڑ بھاڑ میں چلنے سے پریشانی ہوگی۔

وفات:☜

ایک مرتبہ ازواج مطہرات نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر تھیں۔ انہوں نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ہم میں سب سے پہلے کون مریگا۔ فرمایا کہ جسکا ہاتھ سب سے بڑا ہے۔لوگوں نے ظاہری معنی سمجھے جب ہاتھ ناپے گیۓ تو حضرت سودہؓ کا ہاتھ سب سے بڑا نکلا۔لیکن جب حضرت زینب کا انتقال ہوا تو پتہ چلا کہ ہاتھ کی لمبایئ سے آپﷺ مراد فیاضی اور سخاوت تھی۔بہر حال واقدی نے حضرت سودہؓ کا سال وفات 54 ہجری بتایا۔حضرت عمر نے 23 ہجری میں وفات پائی ۔ اس لیۓ حضرت سودہؓ سن وفات 22 ہجری ہوگا ۔اور یہی قول سب سے زیادہ صحیح ہے۔اسکو امام بخاریؒ جزریؒ ابن عبد البراء وغیرہ نے اختیار کیا۔

اولاد:☜

آپﷺ کی حضرت سودہؓ سے کویئ اولاد نہی ہویئ۔پہلے شوہر نے ایک لڑکا یادگار چھوڑا جسکا نام عبد الرحمٰن تھا۔انہوں نے جنگ جولا میں شہادت اختیار کی۔

حلیہ:

ازواج مطہرات میں کویئ حضرت سودہؓ سے بلند و بالا نہ تھا۔حضرت عائشہؓ کا قول ہیکہ جس نے انکو دیکھ لیا اس سے وہ چھپ نہیں سکتی تھیں۔زرقانی میں ہے کہ انکا قد لمبا تھا۔

فضل و کمال :☜

حضرت سودہؓ سے صرف پانچ احادیث مروی ہیں ۔جنمیں سے بخاری شریف میں صرف ایک ہے۔صحابہؓ میں ابن عباس ابن زبیر عبد الرحمٰن رضی اللہ عنھم اجمعین نے ان سے روایت کی ہیں۔

اخلاق:☜

حضرت عائشہؓ فرماتیں ہیں کہ حضرت سودہؓ کے علاوہ کسی اور عورت  کو دیکھ مجھے یہ خیال نہی ہوا کہ انکے قالب میں میری روح ہو”۔اطاعت اور فرمابرداری میں وہ تمام ازواج مطہرات میں ممتاز تھیں۔آپﷺ نے حج الودع کے موقعہ پر ازواج مطہرات کو مخطب کرکے فرمایا کہ میرے بعد گھر میں بیٹھنا چناچہ حضرت سودہؓ نے اس پر شدت سے عمل فرمایا۔پھر کبھی حج کے لیۓ نہ نکلی فرماتی تھیں کہ میں حج اور عمرہ دونوں کر چکی ہوں ۔ اور اب خدا کے حکم کے مطابق گھر میں بیٹھونگی۔
سخاوت اور فیاضی میں بھی ایک نمایا وصف تھا۔اور حضرت عائشہؓ کے سواءوہ اس وصف میں بھی سب سے ممتاز تھیں۔ایک مرتبہ حضرت عمر نے انکی خدمت میں ایک تھیل بھیجی لانے والے سے پوچھا اسمیں کیا ہے؟؟؟
بولا درہم !!!بولیں کھجور کی تھیلی میں درہم بھیجے جاتے ہیں۔یہ کہہ کر سبکو تقسیم کر دیا۔ وہ طائف کی کھالیں بناتیں تھیں۔اور اس سے جو آمدنی ہوتی تھی نہایت خولص کے ساتھ نیک کاموں میں سرف کرتیں تھیں۔ایثار میں بھی وہ ممتاز حیثیت رکھتی تھی۔اور حضرت  عائشہؓ کے آگے پیچھے نکاح میں آیئ تھیں۔چونکہ انکا سن بہت زیادہ تھا اس لیۓ بوڑھی ہو گئ تھیں۔تو انکو سوء ظن ہوا کہ شائد نبی کریم ﷺ طلاق دیں دے۔اس بناء پر انہوں نے اپنی باری حضرت عائشہؓ کو دےدی اور انہوں نے خوشی سے قبول کرلی۔مزاج تیز تھا حضرت عائشہؓ انکی بے حد معترف تھیں۔ ایک قضاء حاجت کے لیۓ تشریف لے جارہی تھیں۔راستہ میں حضرت عمر مل گیۓ۔ چونک حضرت سودہؓ کا قد نمایا تھا انہوں نے پہچان لیا۔ حضرت عمرؓ، کو ازواج مطہرات کا باہر نکلنا ناگوار تھا۔وہ نبی کریمﷺ کی خدمت میں پردہ کی تحقیق کر چکے تھے اس لیۓ بولے تمکو ہم نے پہچان لیا۔ یہ بات حضرت سودہؓ کو بہت ناگوار گزری اور انہیوں نے نبی کریمﷺ کی خدمت میں اس بات کی شکایت کی۔ اس واقعہ کے بعد آیت پردہ نازل ہوئی۔