حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ

0

تعارف:☜

سعدٰی بنت ثعلبہؓ اپنی قوم بنو معن سے ملاقات کے لیۓ اپنے بیٹے زید بن حارثہؓ کے ہمراہ روانہ ہویئ۔وہ اپنی برادری کے ایک گھر میں ابھی فروکش ہویئ ہی تھیں۔کہ بنی قین کے ڈاکوؤں نے لوٹ مار شروع کر دی۔انکا مال اپنے قبضہ میں لیا۔مویشی ہانک کر لے گیۓ۔اور بچوں کو قید کر لیا۔ان بچوں میں زید بن حارثہؓ بھی تھے۔اس وقت انکی عمر صرف آٹھ سال تھی۔وہ انہیں فروخت کرنے کے لیۓ عکاظ منڈی میں لے گیۓ۔ایک دولت مند سردار حکیم بن حزام بن خویلد نے انہیں چار سو درہم میں خرید لیا۔ان کے علاوہ اس نے اور بھی غلام خریدے ۔اور ان سب کو اپنے ہمراہ مکہ معظمہ لے آیا۔جب اس سردار کی آمد کی اطلاع حضرت خدیجہ بنت خویلد کو ہوئی تو وہ اس سے خوش آمدید کہنے کے لیۓ تشریف لے گیئ۔کیونکہ رشتہ میں یہ اسکی پھوپھی تھیں۔حکیم بن حزام نے کہا کہ ہھوپھی جان میں عکاس منڈی سے کافی تعداد میں غلام خرید کر لایا ہوں۔انمیں سے جو غلام آپکو پسند ہو میں اسے آپکی خدمت میں پیش کرکے خوشی محسوس کرونگا۔سیدہ خدیجہ الکبریٰؓ نے تمام غلاموں کو دیکھا اور انمیں سے حضرت زید بن حارثہؓ کا انتخاب کیا۔کجونکہ ذہانت اور شرافت انکے چہرے سے ٹپکتی تھی۔

زید بن حارثہؓ آپﷺ کی خدمت میں:☜

تھوڑے ہی عرصہ بعد حضرت خدیجہ الکبریٰؓ نے رسول اللہﷺ سے شادی کر لی۔چناچہ اس موقعہ حضرت خدیجہ الکبریٰؓ نے آپکی خدمت میں تحفہ پیش کرنے کا ارادہ کیا۔تو انہونے زید بن حاثہؓ سے بہتر کویئ چیز دکھایئ نہ دی۔چناچہ انہونے زید بن حارثہؓ کو نبی کریمﷺ کی خدمت اقدس میں زید بن حارثہؓ کو تحفتًا  پیش کر دیا۔اس طرح یہ خوش نصیب غلام آقاۓ دوجہاں محمدﷺ کے اعلی و ارفع اخلاق سے فیضیاب ہونے لگا۔

بیٹے کی جدایئ سے ماں باپ کی بیقراری:☜

ادھر اسکی غمزدہ ماں کو پل بھر کے لیۓ چین نہ آ رہا تھا۔اسکی گم شدگی کے غم میں رو رو کر بے حال ہو چکی تھی۔کبھی آنسوں خشک نہ ہوتے۔اپنے لاڈلے بیٹے کی محبت کا شعلہ جوالا دل پر مسلسل دہکتا رہا۔ہر پل اسی سوچ میں رہتی کہ میرا بیٹا زندہ ہے کہ اسکی آمد کا انتظار کروں؟ یا فوت ہو چکا ہے کہ ناامید ہو جاؤں؟؟؟

بیٹے کی ملنے کی اطلاع:☜

ایک سال حج کے موقعہ پر زید بن حارثہؓ کے خاندان کے کچھ افراد مکہ مکرمہ آۓ اچانک انکی نظر زید بن حارثہؓ پر پڑی۔انہوں نے اسے پہچان لیا اور زید بن حارثہؓ نے بھی انہیں پہچان لیا۔اور آپس میں ایک دوسرے سے حالات معلوم کیۓ۔جب حج سے فراغت کے بعد گھر لوٹے تو انکے باپ حارثہ کو انکی اطلاع دی کہ تیرا زندہ اور سلامت ہے۔اور اس وقت مکہ مکرمہ میں ہے۔ہم نے بچشم خود اسے دیکھا اس سے باتیں کیں اور حالات معلوم کیۓ۔

نبی کریم ﷺ کی خدمت کی حاضری :☜

حارثہ نے یہ خوشئ کی خبر سن کر فورًا اپنی سواری تیار اور کچھ نقدی بھی اپنے ساتھ لی۔تاکہ بطور فدیہ اداء کی جا سکیں اور اہنے بھایئ کعب کو بھی اپنے ہمراہ لیا۔دونوں تیز رفتار کے ساتھ مکہ مکرمہ کی جانب روانہ ہوۓ۔وہاں پہنچتے ہی نبی کریمﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر آپﷺ بیت اللہ کے ہمسایہ ہیں۔مانگنے والوں کی جھولیاں بھر دیتے ہیں۔بھوکوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔بے کسوں کی فریاد رسی کرتء ہیں ہم آپکیﷺ خدمت میں اپنے بیٹے کے لیۓ حاضر ہوۓ ہیں۔ہم نور چشم کا حاصل کرنے کی غرض سے بہت سا مال بھی لاۓ ہیں۔للہ ہم پر کرم کجیۓ !!!
آپﷺ جو اسکی قیمت لینا چاہتے ہیں ہم دینے کے لیۓ تیار ہیں۔نبی کریمﷺ نے انکی باتیں سن کر ارشاد فرمایا کہ ۔۔۔کون ہے تمہارا بیٹا جسکا مطالبہ کر رہیں ہو؟؟؟عرض کیا کہ آپﷺ کا غلام زید بن حارثہؓ !!!
آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایک ایسی تجویز نہ دوں جو فدیہ سے بہتر ہو؟؟؟
دونوں نے تعجب سے پوچھا کیا؟؟؟
آپﷺ نے فرمایا کہ میں اسے تمہارے سامنے بلاتا ہوں۔اگر وہ تمہارے ساتھ جانا پسند کرے تو اختیار ہیں بخوشی لے جاۓ۔میں اسکے بدلے کچھ نہی لونگا۔لیکن اگر اسنے میرے ساتھ رہنے کو ترجیح دی تو ہھر میں اسے تمہارے ساتھ جانے پر مجبور نہی کرونگا۔یہ تجویز سن کر دونوں نے خوشی سے عرض کیا کہ آپﷺ نے خدا لگتی کہی!!! آپﷺ نے عدل و انصاف کا حق اداء کر دیا ہے۔ہمیں آپﷺ کی تجویز منظور ہیں۔

زید بن حارثہؓ کا اپنے والدین پر حضورﷺ کو ترجیح دینا:☜

رسول اللہﷺ نے زید بن حارثہؓ کو بلایا اور عرض کیا کہ یہ دونوں کون ہیں؟؟؟عرض کیا کہ یہ میرا باپ حارث بن شر جبیل ہیں ۔اور یہ میرا چچا کعب ہیں!!!آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میری جانب سے تمہیں اختیار ہیں کہ انکے ساتھ چلے جاؤ یا میرے ساتھ رہو۔حضرت زید نے یہ سنتے ہی بلا تردد فرمایا حضورﷺ میں تو آپ ﷺ کے ہی ساتھ رہونگا۔بیٹے کے منھ یہ بات سنتے ہی باپ نے بڑے افسوس کے ساتھ کہا۔۔۔” بیٹا تو اپنے ماں باپ پر غلامی کو ترجیض دیتا ہے!!!!
زید بن حارثہؓ نے کہا ” کہ ابا جان میں نے یہاں حضورﷺ کے جن اوصاف حمیدہ کا مشاہدہ کیا ہے۔ اورجس  طرح آپ میرے ساتھ مشفقانہ انداز میں پیش آتے ہیں۔میں ان سے بہت زیادہ متٵثر ہوں لھذا میں انہیں چھوڑ کر نہی جا سکتا۔

نبی کریم ﷺ کا زید بن حارثہؓ کو اپنا وارث بنانا:☜

جب رسول اللہﷺ نے زید بن حارثہؓ کا یہ انداز دیکھا۔اور انکی  جانب سے  والہانہ محبت کا مظاہرہ کا مشاہدہ کیا۔ تو آپﷺ جلدی سے اھٹےاسکا ہاتھ پکڑا اور سیدھے بیت اللہ تشریف لے گیۓ۔اور سرداران قریش کے سامنے بآواز بلند ارشاد فرمایا۔۔۔۔۔
” اے خاندان قریش! !!! گواہ رہنا یہ میرا بیٹا ہے۔ یہ میرا وارث ہے۔اور میں اسکا وارث ہوں”۔
یہ  اعلان سن کر زید بن حارثہؓ کے باپ اور چچا بھی حیران بھی ہوۓ۔اور خوش بھی! !!!
بہر حال یہ خوش آیئ دہ اعلان سن کر واپس اپنے گھر روانہ ہو گیۓ۔اس دن سے زید بن حارثہؓ نبی کریمﷺ کے نام سے پکارے جانے لگیں۔اعلان نبوت کے زید بن حارثہؓ کو زید بن محمدﷺ کے نام سے پکارا جانے لگا۔یہاں تکہ قرآن کریم میں یہ حکم نازل ہوا۔    “ادعوھم لآ بآئھم” اس حکمِ خدا وندی کے بعد حضرت زیدؓ کو زید بن حارثہؓ پکارا جانے لگا۔جس طرح زید بن حارثہؓ نے اپﷺ سے والہانہ محبت کا اظہار کیا ۔اسی آپﷺ نے بھی ان سے شفقت بھرے اندازمیں پیش آۓ  ۔ اور انہیں اپنے خاندان کا ایک فرد بنا لیا۔

٨؁ کا ایک اہم واقعہ:☜

٨؁ میں اللہ رب العزت نے اپنی حکمت بالغہ سی یہ چاہا کہ رسولﷺ کو اپنے ایک جانثار اور اولاد کی طرح پیارے صحابی کی جدایئ میں مبتلاء کرے۔ہوا یوں کہ آپﷺ نے حارث بن عمیرؓ کو ایک خط دیکر شاہِ بصرہ کی جانب روانہ کیا۔تاکہ اسے اسلام کی دعوت دی جاۓ۔
جب حضرت عمیرؓ وہ خط لیکر اردن کی جانب مقام موتہ پہنچے ۔ تو وہاں امیر غساسنہ شرجنبیل بن عمرؓ آپ کے سامنے آیا اور انہیں گرفتار کرکے قتل کر دیا۔جب یہ خبر نبی کرمﷺ کو ملی تو آپﷺ کو بہت صدمہ ہوا۔اور تین ہزار پر مشتمل لشکر جنگ موتہ کے لیۓ روانہ ہوا۔اور اس لشکر کا سپہ سالار زید بن حارثہؓ کو مقرر کیا۔اور آپﷺ نے فرمایا کہ زید بن حارثہؓ شہید ھو جاۓ تو جعفر بن ابی طالب کو لشکر کی قیادت سونپ دی جاۓ۔ اور جعفر بن ابی طالب شہید ہو جاۓ تو عبد اللہ بن رواحہؓ کو قائد لشکر بنا دیا جاۓ۔اگر انہیں بھی شہید کر دیا جاۓ تو پھر مجاہدین اسلام اپنے میں جیسے بہتر سمجھے قائد بنا لیں۔لشکر اسلام اللہ کا نام لیکر روانہ ہوا اور مشرقی جانب مقام معان پر پہنچا۔تو شاہِ روم ایک لاکھ لشکر جرار لیکر مقابلہ میں اترا۔یہ لشکر خم ٹھوک کر مسلمانوں کے بالمقابل کھڑا ہوا۔

مقام معان پر مسلسل دو راتیں مشورے اور جنگی نقطہ نظر کی منصوبہ بندی میں گزریں۔
ایک مجاہد نے راۓ دی کہ ہمیں دشمن کی تعداد کے متعلق رسولﷺ کو بذریعہ خط اطلاع دینی چاہیئے۔۔۔۔اور آپﷺ کے حکم کا انتظار کرنا چاہیئے۔۔۔۔دوسرے نے کہا” کہ خدا کی قسم نہ تو ہم تعداد کے بل بوتے پر لڑتے ہیں اور نہ ہم قوت و کثرت کی بناء پر۔ہم تو صرف اس دین متین کی حفاظت کے لیۓ بر سر پیکار ہیں۔میرے ساتھیوں! جو مقصد لیکر میدان جنگ کی طرف نکلے ہو ہمیشہ اسے ہی پیش نظر رکھنا۔اللہ رب العزت نے دو انعامات میں سے ایک ہی ضمانت تمہیں دی ہے۔یا تو فتح نصیب ہوگی۔۔۔۔۔یا پھر جام شہادت نوش کروگے!!!
مقام معان پر دو فوجیں باالمقابل آیئں اور لشکر اسلام صرف تین ہزار پر مشتمل تھا۔دشمن کی فوج دو لاکھ پر مشتل تھی۔اس جنگ میں مسلمان مکمل بہادری سے لڑے کہ دشمن فوج کے دل مسلمانوں کی ڈھاک بیٹھ گیئ۔رسول اللہﷺ کے عطاء کردہ جھنڈے کی حفاظت کے لیۓ حضرت زید بن حارثہؓ ایسی جوانمردی سے لڑے کہ جنگی کارناموں کی تاریخ میں ایسی مثال نہی ملتی۔بالآخر دشمنوں کے نیزوں نے آپ کے جسم کو چھلنی کر دیا ۔ اور آپ نے جام شہادت نوش فرمایا۔

انکے بعد جھنڈا جعفر بن ابی طالب نے تھام لیا۔اور اسکی حفاظت کے لیۓ بڑی جانفشانی سے دشمن کے مقابلہ میں نبرد آزما رہیں۔یہاں تک کہ  انہوں نے بھی جامِ شہادت نوش کیا۔انکے بعد عبد اللہ بن رواحہؓ نے آگے بڑھ کر  جھنڈا کر تھام لیا۔اور ایسی بہادری سے دشمن کا مقابلہ کیا کہ دیکھنے والے ششدر رہ گیۓ۔لیکن بلآخر لڑتے لڑتء انہوں نے بھی جامِ شہادت نوش کیا۔
انکے بعد حضرت خالد بن ولیدؓ کو سپہ سالار منتخب کیا گیا۔ابھی آپ نیۓ نیۓ حلقہ بگوش اسلام ہوۓ تھے۔لیکن آپنے اپنے تجربات ایسی جنگی تدابیر اختیار کی کہ لشکر اسلام کو حزیمت سے بچا لیا۔جب جنگ موتہ کی خبر نبی کریمﷺ کو ہویئ۔اور لشکر اسلام کے سپہ سالاروں کی شہادت کا علم ہوا۔ اتنے زیادہ غمگین کہ اس سے پہلے آپﷺ کو کبھی اتنے غم میں نہ دیکھا گیا۔اور آپﷺ خبر سنتے ہی انکے اھل خانہ میں تعزیت کے لیۓ پہنچے۔جب آپﷺ زید بن حارثہؓ کے گھر پہنچے تو انکی چھوٹی بیٹی آپﷺ سے چمنٹ کر بے پناہ رونے لگی ۔ رسول اللہ ﷺ بھی آب دیدہ ہو گیۓ۔یہ منظر دیکھ کر حضرت سعد بن عبادہ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہﷺ  کیا آپﷺ بھی رو رہیں ہیں؟؟؟آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ” یہ ایک حبیب کا اپنے حبیب کے غم میں رونا ہے”۔

انا للہ وانا الیہ راجعون