Advertisement

“حب وطن” چکبست نرائن کی 12 اشعار پر مشتمل نظم ہے۔ یہ نظم 1894ء میں لکھی گئی۔اس نظم کا ہر شعر دو مصرعوں پر مشتمل ہے اور نظم میں وطن سے بے لوث محبت کا جذبہ پیش کیا گیا ہے۔ حبِ وطن چکبست کا ایک باقاعدہ موضوع رہا ہے۔ان کی شاعری میں وطن سے محبت کا ایک غالب رجحان ملتا ہے۔

Advertisement

اس نظم میں شاعر نے وطن کو محبت کا گہوارہ بنا کر پیش کیا ہے اور حوالے سے لکھتے ہیں کہ آج کل ہر ایک کی زبان پر وطن سے محبت کا چرچا ہے اور میرے دل کا پیمانہ میرے وطن کی محبت سے لبریز ہے۔ محض میں ہی نہیں بلکہ وطن سے محبت کا یہ فسانہ ہر جگہ جاری و ساری ہے۔ اس وطن کا ہر ایک فرد وطن کے عشق میں سر شار ہے۔ ابھی یہ آغاز ہے تو انجام کیسا شاندر ممکن ہے حالانکہ یہ وطن کی محبت کی شراب کا پہلا ہے پیمانہ ہے۔

وطن کی محبت کا جو چراغ روشن کا گیا ہے اس کے گرد ہر شخص پروانے کی صورت منڈلا رہا ہے اور اس کی محبت میں جان قربان کرنے کو بھی تیار ہے۔ میں ان جذبات کا بیان کرنے سے قاصر ہوں کیونکہ ہر ایک شخص ہی اس جذبے سے سر شار ہے۔ وہ لطف جو ایک شخص سے محبت ہے وہ دوئی میں ممکن نہیں ہو سکتا جو ایسے کرے وہ دیوانہ کہلائے گا۔

اس ملک میں جو محبتوں کا باغ اگا یا گیا ہے اس میں کئی لوگوں کی مردانہ وار جدوجہد اور قربانیاں شامل ہیں۔ وطن سے محبت کا باغ پھولوں سے بھرا ہے جبکہ نا اتفافی اور حسد کے جذبات اس باغ میں خود رو جڑی بوٹیوں کی طرح ہیں کہ ان کی پیدائش خود بخود ہوتی ہے لیکن ان کا خاتمہ ضروری ہوتا ہے۔

وطن سے محبت کے لیے ہر ایک کی زبان سے اس کی خوبیاں جاری ہیں اور اس کے لیے عورتوں کا جوش بھی دیدنی ہے اور مردانہ وار ہے۔ آخر میں شاعر وطن کی ترقی اور محبت کے لیے سب کا شکر گزار ہے اور بتاتا ہے کہ ان محبت اور ہمدریوں کا دور دور تک شہرہ ہے۔وطن کی ترقی کے لیے اس قوم کے کئی اصحاب جمع ہیں۔ وطن کی خدمت کے لیے ان کے ان اقدام پہ جنت بھی رشک کرتی ہے کہ ان کی بدولت یہ وطن خوشیوں کا کس گھر بنا ہوا ہے۔

Advertisement