عبادت کا مفہوم، اہمیت وافادیت، سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 14:

(الف) مندرجہ ذیل سوالات کے تفصیلی جوابات تحریر کریں:

۱۔ ”عبادت“ پر تفصیلی مضمون تحریر کریں۔

جواب: عبادت عربی زبان کا لفظ ہے جو ”عبد“ سے مشتق ہے، عبادت کے لفظی معنی بندگی، عاجزی و انکساری اور اطاعت و فرمانبرداری کے ہیں۔ اصطلاح میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی نیت سے حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کے اسوہ حسنہ کے مطابق زندگی گذارنے کا نام ”عبادت“ ہے۔ یہ عبادت ہر اس عمل کو محیط ہے جس کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے اور جس کے کرنے سے منع فرمایا ہے۔چوں کہ بندہ کا کام مالک کی اطاعت کرنا ہے خاص طور پر اگر وہ مالک احکم الحاکمین ہے تو اس کے احکام کو اپنے لیے باعث خوشی اور باعث مسرت واطمینان سمجھنا ہی ایک بندہ کی معراج ہے۔

عبادت کی اہمیت وافادیت:

اسلام میں ایمان یا عقیدہ کی درستی کے بعد سب سے پہلے عبادات پر زور دیا گیا ہے۔ اور عبادات اللہ تعالیٰ کے ساتھ براہ راست رابطہ اور تعلق، قرب الہیٰ کی عملی صورت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”اور میں نے جنوں اور انسانوں کو ایس لیے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں۔“ (الذاریات: ۵۶)دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے: اے لوگو! اپنے پروردگار کی عبادت کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم (اس کے عذاب سے) بچو۔(البقرۃ: ۲۱)۔ اس آیت سے عبادت کا مقصد ”تقویٰ“ ہے جو کہ دل کی پاکیزگی، روح کی صفائی اور عمل کے اخلاص کے بعد کی منزل ہے، یہ انسان کی وہ قلبی کیفیت ہے جس سے نیک اعمال کا شوق اور برائیوں سے نفرت پیدا ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: یہ بھی کہہ دو کہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے۔ ہر روز ہر نماز میں مسلمان بار بار صراط مستقیم (سیدھا راستہ ) کے لیے دعا کرتا ہے۔مذکورہ آیت میں صراط مستقیم کا مختصر جامع خاکہ پیش کردیا گیا ہے جو کہ اسلام زندگی کی روح ہے۔ اسلامی معاشرہ کی جان ہے۔ آیت میں بتایا گیا کہ مسلمان کا ہر سانس ہر قدم اور ہر کام اللہ تعالیٰ کے لیے ہوتا ہے کسی غیر اللہ یا اپنی خواہش نفس کے لیے نہیں۔ اور یہی مسلمان کی زندگی کا مقصد و منشا ہے۔

عبادت کے تقاضے:

ہمیں اللہ تعالیٰ کے احکام ماننے چاہیئں۔ ہمیں اللہ کے احکامات پر عمل کرنا چاہئے، جس کو اس نے حرام ٹھہرایا ہے اسے ترک کرنا چاہیے اور جن چیزوں کو واجب اور فرض قرار دیا ہے ان کو ادا کرکے اللہ تعالیٰ کی مکمل اطاعت کرنی چاہئے۔زندگی کے ہر شعبے کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے دائرے میں لانا چاہئے، یعنی کلی اطارت کی جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجمہ: مومنو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ۔ (البقرۃ:۲۰۸)

انسان کی عملی زندگی پر عبادت کے اثرات:

اسلام کا نظام عبادت انسان میں دوسرے انسانوں کے لیے محبت و ہمدردی کے جذبات پیدا کرتا ہے، اس لیے ایک مسلم دوسرے لوگوں کے ساتھ محبت و الفت رکھتا ہے اور ان کے ساتھ ہمدردی کرتا ہے اور انھیں دکھ سکھ میں کام آتا ہے۔ اسی طرح یہ عبادات صبر وتحمل کا سبق بھی دیتی ہیں۔ اور ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اجتماعی مفادکے لیے اپنے ذاتی مفاد کو قربان کرنے کا جذبہ بھی بیدار کرتی ہیں۔
عبادات انسان کو سماج کے ساتھ مل جل کر رہنے کا سبق دیتی ، اس لیے انسان دوسرے انسانوں کے ساتھ مل جل کر رہنا سیکھ جاتا ہے اور معاشرہ پسند بن جاتا ہے۔

عبادت کی پابندی سستی، کاہلی اور وقت کے ضایع کرنے جیسی بری خصلتوں کو ختم کر دیتی ہے۔
نماز کی پابندی سے انسان کے اندر اوقات کی پابندی، ظاہری و باطنی طہارت و پاکیزگی، قائد کی اطاعت اور اجتماعیت کی صفات پیدا ہوتی ہیں۔ اور وہ برائیوں اور بے حیاتی سے رک جاتا ہے۔
روزہ انسان میں تقویٰ پیدا کرتا ہے یعنی خوف خدا آدمی کو نیکی اور برائی کی تمیز کراتا ہے۔
زکوۃ کے ذریعے انسان کے اندر سے مال کی محبت کم ہوتی ہے اور وہ اپنے جیسے دیگر انسانوں کی مالی مدد کرنے میں خوشی محسوس کرتا ہے۔
حج عالمی طور پر اجتماعیت کا درس دیتا ہے۔

لوگوں کے نام آنا، صلہ رحمی کرنا اور اپنے ماتحتوں کی کفالت کرنے والے اعمال سے آپس میں میل جول اور تعلقات بہتر ہوتے ہیں۔ عبادت کے یہ تمام ثمرات مومن کو اس کی نیت اور اخلاص کی بنیاد پر حاصل ہوں گے۔ چنانچہ عبادت میں نیت کی درستگی اور اخلاص اس کے قبولیت کی کلید ہے پھر ہر نیکی مومن کے لیے عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔ اور اس پر قائم رہنے کے لیے بھی تاکید کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجمہ: تو اسی کی عبادت کرو اور اس کی عبادت پر ثابت قدم رہو۔ (مریم:۶۵)
یہی وہ عبادات ہیں جو انسان کی اصلاح کے ساتھ ساتھ معاشرے میں بھلائیوں اور نیکیوں کی ترویج کا ذریعہ بنتی ہیں اور مومن کے لیے دنیوی و آخروی سعادتوں کا سبب بنتی ہیں۔

۲۔ عبادت کے عام زندگی پر اثرات تحریر کریں۔

انسان کی عملی زندگی پر عبادت کے اثرات:

اسلام کا نظام عبادت انسان میں دوسرے انسانوں کے لیے محبت و ہمدردی کے جذبات پیدا کرتا ہے، اس لیے ایک مسلم دوسرے لوگوں کے ساتھ محبت و الفت رکھتا ہے اور ان کے ساتھ ہمدردی کرتا ہے اور انھیں دکھ سکھ میں کام آتا ہے۔ اسی طرح یہ عبادات صبر وتحمل کا سبق بھی دیتی ہیں۔ اور ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اجتماعی مفادکے لیے اپنے ذاتی مفاد کو قربان کرنے کا جذبہ بھی بیدار کرتی ہیں۔
عبادات انسان کو سماج کے ساتھ مل جل کر رہنے کا سبق دیتی ، اس لیے انسان دوسرے انسانوں کے ساتھ مل جل کر رہنا سیکھ جاتا ہے اور معاشرہ پسند بن جاتا ہے۔

عبادت کی پابندی سستی، کاہلی اور وقت کے ضایع کرنے جیسی بری خصلتوں کو ختم کر دیتی ہے۔
نماز کی پابندی سے انسان کے اندر اوقات کی پابندی، ظاہری و باطنی طہارت و پاکیزگی، قائد کی اطاعت اور اجتماعیت کی صفات پیدا ہوتی ہیں۔ اور وہ برائیوں اور بے حیاتی سے رک جاتا ہے۔

روزہ انسان میں تقویٰ پیدا کرتا ہے یعنی خوف خدا آدمی کو نیکی اور برائی کی تمیز کراتا ہے۔
زکوۃ کے ذریعے انسان کے اندر سے مال کی محبت کم ہوتی ہے اور وہ اپنے جیسے دیگر انسانوں کی مالی مدد کرنے میں خوشی محسوس کرتا ہے۔
حج عالمی طور پر اجتماعیت کا درس دیتا ہے۔

لوگوں کے نام آنا، صلہ رحمی کرنا اور اپنے ماتحتوں کی کفالت کرنے والے اعمال سے آپس میں میل جول اور تعلقات بہتر ہوتے ہیں۔ عبادت کے یہ تمام ثمرات مومن کو اس کی نیت اور اخلاص کی بنیاد پر حاصل ہوں گے۔ چنانچہ عبادت میں نیت کی درستگی اور اخلاص اس کے قبولیت کی کلید ہے پھر ہر نیکی مومن کے لیے عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔ اور اس پر قائم رہنے کے لیے بھی تاکید کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجمہ: تو اسی کی عبادت کرو اور اس کی عبادت پر ثابت قدم رہو۔ (مریم:۶۵)
یہی وہ عبادات ہیں جو انسان کی اصلاح کے ساتھ ساتھ معاشرے میں بھلائیوں اور نیکیوں کی ترویج کا ذریعہ بنتی ہیں اور مومن کے لیے دنیوی و آخروی سعادتوں کا سبب بنتی ہیں۔

۳۔ عبادت کی اہمیت و افادیت تحریر کریں۔

جواب: عبادت کی اہمیت وافادیت:

اسلام میں ایمان یا عقیدہ کی درستی کے بعد سب سے پہلے عبادات پر زور دیا گیا ہے۔ اور عبادات اللہ تعالیٰ کے ساتھ براہ راست رابطہ اور تعلق، قرب الہیٰ کی عملی صورت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”اور میں نے جنوں اور انسانوں کو ایس لیے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں۔“ (الذاریات: ۵۶)دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے: اے لوگو! اپنے پروردگار کی عبادت کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم (اس کے عذاب سے) بچو۔(البقرۃ: ۲۱)۔ اس آیت سے عبادت کا مقصد ”تقویٰ“ ہے جو کہ دل کی پاکیزگی، روح کی صفائی اور عمل کے اخلاص کے بعد کی منزل ہے، یہ انسان کی وہ قلبی کیفیت ہے جس سے نیک اعمال کا شوق اور برائیوں سے نفرت پیدا ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: یہ بھی کہہ دو کہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے۔ ہر روز ہر نماز میں مسلمان بار بار صراط مستقیم (سیدھا راستہ ) کے لیے دعا کرتا ہے۔مذکورہ آیت میں صراط مستقیم کا مختصر جامع خاکہ پیش کردیا گیا ہے جو کہ اسلام زندگی کی روح ہے۔ اسلامی معاشرہ کی جان ہے۔ آیت میں بتایا گیا کہ مسلمان کا ہر سانس ہر قدم اور ہر کام اللہ تعالیٰ کے لیے ہوتا ہے کسی غیر اللہ یا اپنی خواہش نفس کے لیے نہیں۔ اور یہی مسلمان کی زندگی کا مقصد و منشا ہے۔

(ب) مندرجہ ذیل سوالات کے مختصر جوابات تحریر کریں:

۱۔ عبادت کے لغوی اور شرعی معنی کیا ہیں؟

جواب: عبادت عربی زبان کا لفظ ہے جو ”عبد“ سے مشتق ہے، عبادت کے لفظی معنی بندگی، عاجزی و انکساری اور اطاعت و فرمانبرداری کے ہیں۔ اصطلاح میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی نیت سے حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کے اسوہ حسنہ کے مطابق زندگی گذارنے کا نام ”عبادت“ ہے۔ یہ عبادت ہر اس عمل کو محیط ہے جس کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے اور جس کے کرنے سے منع فرمایا ہے۔چوں کہ بندہ کا کام مالک کی اطاعت کرنا ہے خاص طور پر اگر وہ مالک احکم الحاکمین ہے تو اس کے احکام کو اپنے لیے باعث خوشی اور باعث مسرت واطمینان سمجھنا ہی ایک بندہ کی معراج ہے۔

۲۔ عبادت کے چند تقاضے تحریر کریں۔

جواب: عبادت کے تقاضے:

ہمیں اللہ تعالیٰ کے احکام ماننے چاہیئں۔ ہمیں اللہ کے احکامات پر عمل کرنا چاہئے، جس کو اس نے حرام ٹھہرایا ہے اسے ترک کرنا چاہیے اور جن چیزوں کو واجب اور فرض قرار دیا ہے ان کو ادا کرکے اللہ تعالیٰ کی مکمل اطاعت کرنی چاہئے۔زندگی کے ہر شعبے کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے دائرے میں لانا چاہئے، یعنی کلی اطارت کی جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجمہ: مومنو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ۔ (البقرۃ:۲۰۸)

۳۔ قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙکا ترجمہ تحریر کریں۔

جواب: ترجمہ: یہ بھی کہہ دو کہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے۔