علم بیان کی تاریخ

0

علم بیان، علوم بلاغت کی ایک اہم شاخ ہے۔ ’’بیان‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ’’ظاہر کرنا‘‘، کھول کر بات کرنا اور کسی معاملے کی شرح و وضاحت اس انداز سے کرنا کہ مخاطب کو جزئیات کے ساتھ معاملے کی پوری طرح آگاہی حاصل ہو جائے۔ یہ علم کلام میں ‌معنوی خوبیاں پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کو دل نشین بھی بناتا ہے۔

اردو ادب کی اصطلاح میں علم بیان ایسے قاعدوں اور ضابطوں کے مجموعے کا نام ہے جس کو جان لینے کے بعد ہم ایک ہی بات یا مضمون کو مختلف طریقوں سے ادا کر سکیں اور ان میں سے ہر طریقہ دوسرے سے زیادہ واضح اور مؤثر ہو۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کلام کے سمجھنے میں غلطی کا امکان کم ہو اور معانی میں خوبصورتی پیدا ہو۔

علم بیان دراصل الفاظ کے چناؤ کا تعین کرتا ہے۔ اس کا موضوع لفظ ہے جسے دو طرح سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

حقیقی معنوں میں

یعنی لفظ کو ان معنوں میں استعمال کیا جائے جن کے لیے وہ وضع ہوا ہے یا بنا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، کلام کی زیبائی یا حسن الفاظ سے وابستہ ہے۔ اگر لفظ کی جگہ اس کے معنی استعمال کیے جائیں تو کلام کا حسن ختم ہو جائے۔ مثلاً اگر لفظ شیر کسی کے لیے استعمال کیا جائے اور اس سے مراد وہی درندہ ہو۔

مجازی معنوں میں یا بدیع معنوی

یعنی لفظ کو اس کے حقیقی معنوں میں نہیں بلکہ اس کے مجازی معنوں میں استعمال کیا جائے۔ مثلاً کسی کے لیے لفظ شیر استعمال کر کے اس شخص کی بہادری مراد لی جائے۔

علم بیان میں تشبیہ، استعارہ، کنایہ اور مجاز مرسل کی مدد سے ایک معنی کو کئی انداز سے بیان کیا جاتا ہے۔ بقول ڈاکٹر مزمل حسین :
’’ یہ علم ایسے اصول و قواعد کا مجموعہ ہے جس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ایک معنی کو کئی طریقوں سے بیان کرنے کا کیا انداز اور سلیقہ ہے۔ یعنی شاعر یا نثر نگار اپنے مقصد کو بیان کرنے کے لیے مختلف راہوں کو اختیار کر سکتا ہے۔ ‘‘

یعنی شاعر یا نثر نگار اپنے کلام یا تحریر میں لفظ کو حقیقی معنوں میں بھی استعمال کرسکتا ہے اور مجازی معنوں میں بھی۔ علم معانی میں الفاظ کو ان کے حقیقی معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن بعض اوقات جب انشاء پرداز یا متکلم کا کام الفاظ کے حقیقی معنوں سے نہیں چلتا تو وہ انھی الفاظ کو غیر حقیقی یا مجازی معنوں میں استعمال کرتا ہے، جن کے لیے لغت سے استناد نہیں کیا جا سکتا۔ الفاظ کے ایسے استعمال کا تعلق علم البیان سے ہے۔ لیکن جب الفاظ اپنے معانی غیر وضعی میں استعمال ہوتے ہیں تو ایسے استعمال کا کوئی جواز اور قرینہ ضرور موجود ہوتا ہے۔

بقول نجم الغنی رام پوری:
’’علم بیان ایسے قاعدوں کا نام ہے کہ اگر کوئی ان کو جانے اور یاد رکھے تو ایک معنی کو کئی طریق سے عبارات مختلفہ میں ادا کر سکتا ہے جن میں سے بعض طریق کی دلالت معنی پر بعض طریق سے زیادہ واضح ہوتی ہے۔ ‘‘

علم بیان کا دارومدار ان چار چیزوں پر ہے:تشبیہ، استعارہ، مجاز مرسل، کنایہ۔ عام قاعدہ یہی ہے کہ الفاظ کو جن معنی کے لیے وضع کیا گیا ہے انھی کے لیے استعمال کیا جائے۔ لیکن بعض لوگ ایسی قدرت بھی رکھتے ہیں کہ ایک مفہوم کو ایک ہی زبان میں مختلف عبارتوں سے ظاہر کرسکیں۔ اظہار مدعا کی یہ خصوصیت اور قدرت ایک تو زبان کی وسعت پر منحصر ہے اور دوسرے متکلم کی ذہنی قوت، تخیل اور ذکاوت پر منحصر ہے کہ وہ الفاظ کے ہیر پھیر سے کس طرح مدعا کا اظہار مختلف انداز سے کرتا ہے۔ ان اصول و قواعد کو جن کے ذریعہ سے ایک معنی مختلف عبارتوں میں اس طرح سے ادا کرسکیں کہ ایک معنی بہ نسبت دوسرے کے زیادہ یا کم واضح ہوں، علم بیان کہتے ہیں۔

عابد علی عابد علم البیان کے متعلق اساتذہ متقدمین کی تعریفات پر نقد کرتے ہوئے اور ان سے پیدا ہونے والے اشکالات کا ذکر کرنے کے بعد اپنی طرف سے ایک جامع تعریف پیش کرتے ہیں :
’’علم بیان وہ علم ہے جو مجاز[(ا)تشبیہ (۲) استعارہ (۳) مجاز مرسل (۴) کنایہ]سے اس طرح بحث کرتا ہے کہ اس پر حاوی ہونے کے بعد فن کار، انشا پرداز یا خطیب اپنے مفہوم کے ابلاغِ تام میں کامیاب ہو سکے۔ ‘‘

معانی، بیان اور بدیع کے مباحث پرسب سے پہلی کتاب ’’مجاز القرآن ‘‘ ہے جو خلیل بن احمد (۱۰۰ھ۔ ۱۷۰ھ) کے شاگرد ابو عبیدہ نے تصنیف کی اور بعد کے علماء نے اس کی پیروی کی۔ اس علم سے متعلق متقدمین میں سے جعفر بن یحیٰ، ابن المعتز، جاحظ اور قدامہ بن جعفر(م۳۱۰ھ) نے کتابیں لکھیں۔ اس کے بعد عبد القاہر جرجانی(م۴۷۱ھ)نے علم معانی میں ’’دلائل الاعجاز‘‘ اور علم البیان میں ’’اسرارالبلاغۃ‘‘ جیسی عظیم الشان کتابیں تصنیف کیں۔ اس کی زیادہ تفصیل اور توضیح ابو یعقوب سراج الدین یوسف السکاکی الخوارزمی (م ۶۲۶ھ )نے اپنی کتاب ’’مفتاح العلوم‘‘ میں بیان کی ہے۔

  • علم بیان کے تحت چار ارکان آتے ہیں جن کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔
  • 1. تشبیہ
  • 2. استعارہ
  • 3. مجاز مرسل
  • 4. کنایا۔
تحریر محمد ذیشان اکرم